تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     07-05-2018

گرمی، گرما گرمی اور سرگرمی

اپریل کا رخصت ہونا تھا کہ مئی نے خیریت دریافت کرنا شروع کردیا ہے۔ کراچی سمیت سندھ بھر میں شدید گرمی کے ساتھ ساتھ پریشانی اور مصیبت کی لہر بھی آئی ہوئی ہے۔ لوگ یہ سوچ سوچ کر پریشان ہیں کہ جون اور جولائی میں معاملات کیا ہوں گے! ع 
جب رات ہے ایسی متوالی، پھر صبح کا عالم کیا ہوگا! 
کے الیکٹرک نے اپنے تمام دعووں اور وعدوں کو ایک طرف ہٹاتے ہوئے شدید عدمِ احساس کے ساتھ لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ یوں بڑھایا ہے کہ لوگ ابھی سے دہائی دینے لگے ہیں۔ نپیرا کا انتباہ بھی کچھ کام نہ آیا۔ استعداد کے مطابق بجلی پیدا کرنے سے گریز کے نتیجے میں شہریوں کو گرمی کی لہر کے دوران اضافی لوڈ شیڈنگ جھیلنا پڑی ہے۔ 
لوڈ شیڈنگ نے اہلِ کراچی کو اَدھ مُوا کردیا ہے۔ پوری پوری رات بجلی نہ ہو تو نیند نہیں آتی اور صبح کام پر جائیے تو کام نہیں ہو پاتا۔ یہ ہے کراچی نامی کائنات کا بنیادی مسئلہ۔ بجلی کے بغیر گزاری جانے والی رات کے حوالے سے رونا لیلٰی کے گائے ہوئے ایک فلمی گانے کا مکھڑا یاد آتا ہے ع 
رات کیا گزرے گی، ہم جاں سے گزر جائیں گے
گھر سے باہر قدم رکھیے تو شور شرابہ گلے پڑتا ہے۔ سیدھی سی بات ہے، اور لوگ بھی تو سکون پانے کے لیے گھر سے باہر آئے ہوئے ہوتے ہیں۔ اور باتوں کے نام پر شور مچائے بغیر اہلِ کراچی کو کیسے قرار آسکتا ہے! بجلی کی بندش کا ستایا ہوا انسان جب تھوڑی سی تسکین کے لیے گھر سے باہر نکلے اور باہر بھی انتشار و اضطراب ہی کا سامنا ہو تو عجیب ہی حالت ہو جاتی ہے۔ حواس کام نہیں کرتے، ذہن کچھ بھی سمجھنے سے انکار کردیتا ہے۔ ع 
سمجھ میں کچھ نہیں آتا سُکوں پانے کہاں جائیں! 
کراچی کا مسئلہ یہ ہے کہ ذرا سی گرمی پڑے تو سمندر بھی مُنہ پھلاکر اپنی فرحت بخش ہوائیں روک لیتا ہے! پسینہ ایسا بہتا ہے کہ جسم بے جان سا محسوس ہونے لگتا ہے۔ ہوا میں نمی بڑھنے سے جسم و جاں کی نمی و نرمی ٹھکانے لگ جاتی ہے۔ پسینے میں نہانے والی بات ہم نہیں کریں گے ورنہ واٹر بورڈ والے سوچیں گے جب لوگ شدید گرمی کی بدولت پسینے میں نہا لیتے ہیں تو زیادہ پانی فراہم کرنے کی ضرورت کیا ہے! 
ملک بھر میں جہاں بھی سخت سردی یا گرمی پڑتی ہے وہ اصلی ہوتی ہے۔ کراچی میں معاملہ مانگے تانگے کا ہے۔ سردی اُس وقت پڑتی ہے جب کوئٹہ میں شدید برف باری کے بعد سرد ہوائیں چلتی ہیں۔ یہی حال گرمی کا ہے۔ ارد گرد ماحول گرم ہو تو کراچی کے موسم کو بھی خیال آتا ہے کہ چلو، تھوڑی بہت گرمی ہی اپنالی جائے! جب موسم کی تبدیلی ہی مانگے تانگے کی ہو تو صبر کے سوا کیا بھی کیا جاسکتا ہے؟ 
عام ڈگر سے ہٹ کر پڑنے والی شدید، بلکہ سڑا دینے والی گرمی میں کراچی کے شہریوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ کیا کھائیں اور کیا پئیں۔ معاملہ یہ ہے کہ کراچی کی نصف سے زائد آبادی کو باہر کے کھانے کی عادت پڑی ہوئی ہے۔ ہوٹلوں، ٹھیلوں اور ٹِھیوں پر فروخت کی جانے والی اشیائے خور و نوش کے استعمال کی عادت نے ''آؤٹ ڈائنرز‘‘ کو ایسا بگاڑا ہے کہ اب اصلاح کی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ شدید گرمی میں لوگ نہاری، پائے، پلاؤ، باربی کیو ... حد یہ ہے کہ پکوڑے اور دہی بڑے کھانے سے بھی باز نہیں آتے! موسم خواہ کوئی تقاضا کر رہا ہو، لوگ نہاری، پائے، قورمہ اور دیگر مرغّن غذائیں کھانے کے بعد میٹھے کے نام پر رس ملائی، لبِ شیریں اور زردہ وغیرہ نگلنے سے گریز نہیں کرتے اور معاملہ یہیں تک نہیں رکتا۔ حیرت اس بات پر ہے کہ اِتنا بہت کچھ ''ہارڈ‘‘ کھا چکنے کے بعد بھی ''سوفٹ‘‘ ڈرنک کی گنجائش رہتی ہے! اب آپ ہی بتائیے شدید گرمی میں بھی کھانے پینے کے معاملات متوازن نہ رکھنے پر لوگوں کا حال بُرا ہو تو قصور وار کون؟ ایک طرف تو گرمی اَدھ مُوا کردیتی ہے اور دوسری طرف، مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق، کھانے پینے کے معاملات میں شدید عدم توازن گرمی کی feel بڑھادیتا ہے! ع 
تم کھاؤ پیو ہو کہ کمالات کرو ہو! 
ہیٹ ویو کا ایک ہی جھٹکا آیا ہے اور اہلِ کراچی حواس کے اعتبار سے ایسے درخت کے مانند ہوگئے ہیں جس کے بیشتر پتّے جھڑ گئے ہوں۔ بہت سوں کو ہم نے اِس قدر بے حواس دیکھا ہے کہ معاملات کو کچھ کا کچھ کردیتے ہیں۔ شدید گرمی میں لوگ پیاس کی شدت کم کرنے اور جسم و جاں کو راحت پہنچانے کی غرض سے گنے کا رس پیتے ہیں۔ ایک اخباری فوٹو گرافر کی تصویر زیر نظر کیپشن کے ساتھ شائع ہوئی ہے : ''ایم اے جناح روڈ پر شہری لُو سے بچنے کے لیے (!) گنے کا شربت (!) پی رہے ہیں!‘‘ ہم یہ سوچ کر چپ رہے کہ شاید کوئی نئی ''ٹیکنالوجی‘‘ آئی ہے کہ لوگوں نے لُو سے بچنے کے لیے پیاز کو ترک کرکے گنّے کو ''زحمتِ کلام‘‘ دینا شروع کردیا ہے! گنّے کا رس تو سمجھ میں آتا ہے مگر گنّے کا ''شربت‘‘ پہلی بار نظر سے گزرا! مگر خیر، شدید گرمی میں کچھ بھی ہوسکتا ہے اور ہو ہی جاتا ہے! 
شیخ سعدی کے ایک شعر کا مفہوم یہ ہے کہ ایک بار دمشق میں ایسا شدید قحط پڑا کہ لوگ عشق بھی بھول گئے! آثار بتا رہے ہیں کہ اب کے کراچی میں ایسی گرمی پڑے گی کہ لوگ عشق وِشق سب بھول بھال جائیں گے! اور اگر نہیں بھولیں گے تو اہلِ سیاست بھلادیں گے۔ انتخابی مہم شروع ہوچلی ہے۔ جلسوں پر جلسے ہو رہے ہیں۔ مسائل کے حل کی راہ ہموار نہیں کی جارہی اور لوگوں کے منہ جلسوں سے بند کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جلسوں کی گرما گرمی ماحول کی گرمی کو دو آتشہ کیے دیتی ہے۔ لوگوں کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ ایسے گرم موسم میں سُورج کی ستم طریفی کا ماتم کریں یا اہلِ سیاست کے مضحکہ خیز وعدوں اور دعووں پر کھل کر داد دیں! انتخابی مہم کے دوران لوگ سیاسی کامیڈی سے بھرپور محظوظ ہوتے ہیں مگر صاحب، شدید گرمی پڑ رہی ہو تو کیسی کامیڈی اور کیسا لطف۔ گرمی سے ہلکان لوگ کسی بھی بات سے کیا محظوظ ہوں؟ 
کراچی میں نشستوں کی بندر بانٹ روکنے کے لیے اسٹیک ہولڈرز جو کوششیں کر رہے ہیں اُن کے نتیجے میں سرگرمی تو خیر کیا پیدا ہونی تھی، گرما گرمی البتہ بڑھتی جارہی ہے۔ بہت سے لوگ یہ سوچ کر بھی پریشان ہیں کہ یہ گرما گرمی ڈیڑھ دو ماہ بعد اصل یعنی ماحول کی گرمی سے مل کر خدا جانے کیا گل کِھلائے! 
کراچی اِس وقت مختلف النوع بحرانوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ ایک بحران شناختی کارڈ سے متعلق تھا جسے جماعتِ اسلامی کے احتجاج نے ختم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ بجلی کے بحران کو ختم کرنے کے لیے بھی جماعت اسلامی نے کوششوں کا آغاز کیا تو کئی جماعتیں میدان میں آگئی ہیں۔ پانی کا بحران اب تک برقرار ہے۔ شہر میں صفائی کا نظام اب تک درست نہیں کیا جاسکا۔ اور بھی بہت کچھ ہے جو خرابی کی نذر ہے یعنی بحران ہیں کہ برقرار ہیں مگر سب کچھ بھول کر یاروں نے صرف سیاست اور جلسوں کی رسّی کو مضبوطی سے تھام رکھا ہے! گرمی کے ساتھ ساتھ گرما گرمی بڑھتی جارہی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اہلِ کراچی کو گرمی سے کچھ کام ہے نہ گرما گرمی درکار ہے، اُنہیں تو سرگرمی چاہیے۔ کچھ سرگرمی ہوگی تو مسائل حل ہوں گے اور شہر کی رونقیں حقیقی معنوں میں پلٹ کر آئیں گی۔

٭٭٭

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved