تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     08-05-2018

یک نہ شد دو شد

آج کا کالم لکھنے کے لئے لندن کے روزنامہ گارڈین کی ورق گردانی کرنے لگا تو نگاہیں تین کمال کی تصویروں پر جم گئیں۔ ممکن نہیں کہ آپ کو اِن کو دیکھنے کی خوشی میں شریک کئے بغیر آگے بڑھ پائوں‘ اگرچہ میں جانتا ہوں کہ میرا بیانیہ ان کے ساتھ ہرگز انصاف نہ کر سکے گا۔ یہ تصاویر دیکھ کر وہ مصرعہ (جس کا آج کے موضوع سے کوئی تعلق نہیں) یاد آیا‘ جو کالم نگار نے 65 سال پہلے ایک درسی کتاب میں پڑھا تھا۔ ہمارے ایک بڑے شاعر نے برطانوی بادشاہ کا دہلی میں لگنے والا عالیشان دربار دیکھا تو ایک بڑی عمدہ نظم لکھی‘ جس کا ایک بھولا بسرا مصرعہ آج اچانک اس طرح یاد آیا جس طرح آسمان پر بجلی کوندتی ہے اور وہ مصرعہ یہ ہے: آنکھیں میری باقی اُن کا۔ وہ درسی کتابیں (جو زمانہ طالب علمی میں مجھے ہرگز اچھی نہ لگتی تھیں) آج دوبارہ مل جائیں تو کتنا اچھا ہو۔ اب تو وہ نایاب ہو چکی ہوں گی۔ فسانۂ آزاد‘ منشی پریم چند اور قرۃ العین حیدر سے لے کر عصمت چغتائی‘ سعادت حسن منٹو تک کے افسانے اور ناول‘ اور شفیق الرحمن کی مزاحیہ مگر فکر انگیز تحریریں پہلی بار پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں پڑھیں۔ خوش قسمتی سے وہ کتابیں آج بھی میرے پاس ہیں‘ اور میں اکثر آدھی رات کو اُن کے چند صفحات پڑھ کر اس گمان میں سو جاتا ہوں کہ میں آج بھی اُس طرح کا ایک طالب علم ہوں‘ جس طرح 60/65 سال پہلے تھا۔ جاگتا ہوں تو پتا چلتا ہے کہ ایک عہد گزر گیا۔ میں اپنی نیند سے بیدار نہ ہوا تو کیا ہوا۔ زمانہ تو قیامت کی چال چل گیا۔ سرکنڈے کے قلم سے لکڑی کی تختیوں پر گاچنی لگا کر اور پھر اُنہیں خشک کرکے اُن پر لکھنے والی نسل بوڑھی ہوئی تو کمپیوٹر کے Digital دور میں پھر ان پڑھ ہو گئی۔ یہ تو تھا جملۂ معترضہ‘ اب آئیے کالم کے موضوع پر لکھنے سے پہلے ہم ایک نظر مذکورہ بالا تصویروں پر ڈال لیں۔ پہلی تصویر مزار شریف (افغانستان) میں بزکشی (Buzkashi) کے کھیل کی ہے۔ خوشی کا دن (ایرانی کیلنڈر میں سال نو کا دن جو نوروز کہلاتا ہے) 25 کے قریب گُھڑ سواروں نے مری ہوئی بھیڑ یا بکری کے سر کی چھینا جھپٹی کے مقابلے میں حصہ لے کر منایا۔ دوسری تصویر چین کے ساحلی صوبہ Jiangsui کے Yancheng نامی شہر کے ایک ضلع Dafeng میں گلِ لالہ کی نمائش کی ہے۔ کل پھولوں کی تعداد پڑھ کر آپ کا سر چکرا جائے گا‘ گل لالہ کی 300 اقسام اور پھولوں کی تعداد تین کروڑ۔ جہاں تک نظر جاتی ہے لالہ کے پھول ہی پھول۔ اُفق تا اُفق پھیلے ہوئے پھول۔ گل لالہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ اقبال کا محبوب ترین پھول تھا۔ اقبال نے عجم کی طرف دیکھا تو اُنہیں وہاں کے لالہ زاروں میں کوئی دوسرا رومی نظر نہ آیا۔ اقبال نے بال جبریل کی غزل نمبر43 لکھی تو اُن کے تخیل کے کوہ و دمن کو چراغِ لالہ نے روشن کر دیا۔ اس غزل کا دوسرا شعر پڑھ کر آپ کے ذہن میں اس تصویر کی منظر کشی ہو جائے گی: 
پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار
اُودے اُودے‘ نیلے نیلے‘ پیلے پیلے پیرہن
تیسری تصویر بالکل غیر شاعرانہ ہے۔ جاپان کی متنازعہ فیہ جنگی یادگار (جہاں پرستش کی جاتی ہے) Yasukini پر غیر معمولی تن و توش کے مالک دو جاپانی Sumo پہلوانوں کا کشتی کے مقابلہ میں اپنے فن کا مظاہرہ۔
تین تصویروں کا تذکرہ ختم ہوا تو کالم کے موضوع کی باری آئی۔ فارسی کے ایک جانے پہچانے محاورے کے مطابق ایک مصیبت ہی کچھ کم نہیں ہوتی مگر وہ ایک سے بڑھ کر دو ہو جائیں تو خدا کی پناہ! ساری دنیا موجودہ امریکی صدر ٹرمپ کے عوام دشمن اور خطرات سے بھرپور فیصلوں اور اقدامات سے پریشان اور فکرمند ہے کہ جنوبی (یا لاطینی) امریکہ کے سب سے بڑے ملک برازیل سے یہ بُری خبر آئی کہ وہاں جو سیاست دان اتنی مقبولیت حاصل کر رہا ہے‘ لگتا ہے کہ وہ اس بدنصیب ملک کا اگلا صدر بن جائے گا۔ اُس کا نام ہے: Jair Bolsonaro جو Trump of the Tropics کے لقب سے مشہور ہے۔ دائیں بازو کے فسطائی ذہن کا مالک کھلم کھلا جمہوری نظام کی مخالفت‘ فوجی آمریت کی حمایت کرتا ہے۔ آپ جانتے ہوں گے کہ برازیل دُنیا کی چوتھی بڑی جمہوریت ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ عوام میں وہ شخص دن بدن مقبول ہو رہا ہے جو عوام کے حقِ حکمرانی اور سلطانیٔ جمہور کا اتنا بڑا مخالف ہے کہ اگر اُسے دورِ حاضر کا سب سے ناپسندیدہ سیاستدان کہا جائے تو مناسب ہوگا۔ یوں سمجھ لیں‘ وہ بھارت کے موجودہ وزیر اعظم (نریندر مودی) سے بھی کہیں زیادہ قابل مذمت ہے۔ مذکورہ بالا شخص جنوبی امریکہ کے ایک ملک چلی کے سابق فوجی آمرPinochet کے گن گاتا رہتا ہے۔ وہ خود سابق فوجی Paratrooper ہے اور برازیل کی پارلیمنٹ کا 30 سال پُرانا رُکن ہونے کے باوجود ووٹ کو عزت دلوانے کی بجائے ووٹ کے استعمال کا حق چھین لینے کا حامی ہے۔ وہ عورتوں‘ سیاہ فام لوگوں‘ غیر ملکیوں اور برازیل کے دیسی باشندوں کو حقوق دینے کا اتنا بڑا مخالف ہے کہ برازیل کا اٹارنی جنرل اُس کے خلاف طبقاتی نفرت پھیلانے کے جرم کا مقدمہ درج کرنے پر مجبور ہو گیا۔ برازیل میں ہر سال ساٹھ ہزار لوگ قاتلانہ حملوں کا نشانہ بن کر ہلاک ہو جاتے ہیں (جو عالمی ریکارڈ ہے) کرپشن اتنے بڑے پیمانہ پر پھیل چکی ہے کہ سابق صدر Luiz Inacio Lula De Silva (جو محنت کش طبقہ سے تعلق رکھتا تھا اور عوام دوستی کی بہت بڑی مثال تھا) ان دنوں عدالت میں بہت بڑی کرپشن کا جُرم ثابت ہو جانے پر جیل میں قید کی سزا بھگت رہا ہے۔ یہ ہے وہ پس منظر جس نے مذکورہ سیاستدان کے غبارہ میں اتنی ہوا بھر دی ہے۔ وہ شہری آزادیوں کا بہت بڑا مخالف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آزاد پریس کا بھی جانی دُشمن ہے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ برازیل کی سوشلسٹ پارٹی کا (کرپشن کے ان گنت سیکنڈل کے باوجود) وہ بُرا حشر نہیں ہوا‘ جو پاکستان میں بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی اور ولی خان کی عوامی نیشنل پارٹی کا ہوا۔ اُس نے ایک مقبول اور ملک گیر سیاسی راہنما Guilherme Boulos کو اپنا صدارتی اُمیدوار نامزد کیا ہے۔ اُنہوں نے اپنے سب سے بڑے مخالف کے بارے میں کہا ہے کہ وہ اپنی انتخابی مہم ملک میں قانون کی حکمرانی قائم کرنے کی بجائے مجرموں (اور وہ بھی صرف غریب مجرموں) کو کڑی سے کڑی سزا دے کر اُن کا قلع قمع کرنے کا نعرہ لگاتا ہے۔ افسوس‘ اس کی حمایت کرنے والے سادہ دل (بلکہ نادان) لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ شخص خود قانون شکن اور مجرم ہے۔ 
ماضی قریب میں جنوبی امریکہ کے تین ممالک کو ترقی پسندوں‘ عوام دوستوں اور سامراج دشمنوں کی قیادت نصیب ہوئی۔ کیوبا میں کاسترو برادران (Fidel کا چھوٹا بھائی بھی ریٹائر ہو گیا) وینزویلا میں Hugo Chavez۔ چلی میں ایاندے (Auende) امریکہ شمالی ہو یا جنوبی‘ اب وہاں اُفق پر تاریکی چھائی ہوئی ہے اور روشنی کی ایک کرن بھی نظر نہیں آتی۔ سارا لاطینی امریکہ ہسپانوی زبان بولتا ہے۔ ماسوائے برازیل کے‘ جہاں پرتگیزی بولی جاتی ہے‘ مگر اصل فرق یہ نہیں۔ دُنیا میں زبانیں دو ہی ہیں۔ ایک انسان دوستی کی اور دوسری انسان دُشمنی کی۔ پاکستان کے شب و روز تب بدلیں گے جب یہاں بھی انسان دوستی کی زبان بولنے والے غالب ہوں گے اور انسان دُشمن مغلوب۔ نہ فوج نہ افسر شاہی اور نہ ہی سیاست دان۔ صرف عوام۔ اُخوّتِ عوام۔ اور قوتِ اخوّتِ عوام (دوبارہ لکھتا ہوں قوتِ اخوّتِ عوام) ہمارے سارے دُکھوں کا واحد علاج ہے۔ پاکستان میں 70 سالوں کے بعد منافقت بے نقاب ہو کر رہی۔ اب ہماری امامت صرف وہی کر سکتے ہیں اور کرنے کے اہل ہیں جنہوں نے دیانت‘ صداقت اور عدالت کا سبق پڑھا ہو گا۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب کی بحالی سے جو پَو پھوٹی تھی‘ اب اس کی خوشبو اور روشنی موجودہ چیف جسٹس (میاں ثاقب نثار صاحب) کے جہادی عمل کی بدولت پھیلتی جا رہی ہے۔ اقبال کے دور میں ہمالہ کے چشمے اُبلنے اور گراں خواب چینی سنبھلنے لگے تھے۔ دورِ حاضر میں اقبال زندہ ہوتے تو یہ شعر پاکستانیوں کے بارے میں لکھتے۔ کتنی خوشی کی بات ہے کہ 20 کروڑ اہل وطن خوشی اور خوشحالی کے ایک نئے روشن دور کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ وہ بدبودار اندھیروں کی دلدل سے نکل آرہے ہیں۔ دست بدعا ہوں کہ ان کا روشنی کی طرف سفر جاری رہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved