لاہور کی شاہراہِ قائداعظم پر ریگل چوک سے چیئرنگ کراس تک شام ہوتے ہی گہما گہمی اور رنگا رنگی ہوتی ہے اور یہ سب کچھ رات گئے تک جاری رہتا ہے۔ ہال روڈ سے فیروز سنز تک گاڑیوں، موٹرسائیکلوں اور رکشوں کے ہجوم کے ساتھ پیدل چلنے والوں کا بھی جمِ غفیرنظر آتا ہے۔ آئس کریم اور جوس کی دکانوں کے ویٹر بھاگتے دوڑتے لوگوں کو ان کی پسندیدہ چیزیں فراہم کررہے ہوتے ہیں۔ اسی جگہ کچھ لوگ کھلونے، چنے اور ملبوسات وغیرہ بھی فروخت کر رہے ہوتے ہیں۔ آج شام (ہفتہ) جب لاہور عمران خان کے جلسے کی رونق میں گم تھا، موسم خوشگوار دیکھ کر میں یہاں آنکلا۔ میں نے گاڑی کھڑی کی تو ایک نوجوان‘ خواتین کے ملبوسات بیچتا میرے پاس آگیا۔ میں نے توجہ نہ دی تو وہ میرے قریب آکر بولا: ’’آپ اوریا مقبول جان ہیں؟‘‘ میں نے ہاں میں سرہلایا تو اس نے کہا: میں کوئٹہ کا رہنے والا ہوں۔ وہ لہجے اور حلیے سے وہاں کا مقامی باشندہ لگ رہا تھا۔ کہنے لگا میں شالدرہ کا رہنے والا ہوں۔ پچیس سال وہیں گزارے۔ تم وہاں کیا کرتے تھے؟ میں نے پوچھا۔ اس نے کہا: میں اسلامیہ سکول کے سامنے چھولے چاول کی ریڑھی لگاتا تھا۔ مجھے یاد آیا 1983ء میں جب میں سول سروس کا امتحان دے رہا تھا تو اسلامیہ سکول سنٹر بنا تھا۔ کبھی کبھار میں وہاں موجود ریڑھی والے سے چھولے چاول کھاتا تھا۔ میں نے پوچھا وہاں تو ایک بزرگ تھے جو ریڑھی لگاتے تھے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے، بس اتنا کہہ سکا: پنجابی تھا‘ مار دیا گیا۔ ابھی تک میں اس کے لہجے‘ حلیے اور اردو سے پہچان نہ سکا تھا کہ وہ پنجابی ہے۔ شالدرہ میں رہنے کی وجہ سے اسے کوئٹہ میں بولی جانے والی پشتو، بروہی اور دری زبانوں پر ایسی دسترس حاصل تھی جیسے وہ اس کی مادری زبانیں ہوں۔ وہاں اس کا گھر تھا لیکن اسے معلوم نہیں کہ اس کے ٹوٹے پھوٹے کچے گھر پر کیا بیتی۔ وہ تو جان بچا کر لاہور آ گیا اور آج خواتین کے چند ملبوسات ہاتھ میں پکڑے اجنبی شہر میں‘ جس کی زبان پنجابی وہ روانی سے نہیں بول سکتا‘ روزی کے لیے سرگرداں ہے۔ یہ شخص‘ جس کی رگوں میں پنجابی خون ہے، اپنے لہجے، حلیے اور زبان سے براہوی یا بلوچ لگتا ہے‘ اُسے گالی کس نے بنادیا؟ لاہور ایسا شہر ہے جس میں بلوچستان کے رہنے والے کئی سو طالب علم یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پڑھ رہے ہیں۔ کوئی قبیلہ ایسا نہیں جس کے صاحبِ حیثیت افراد نے یہاں گھر نہ بنائے ہوں۔ پشین، لورالائی اور ژہوب سے اس قدر پشتون یہاں آباد ہیں کہ پشتونخوا ملّی عوامی پارٹی کا لاہور کا صدر بھی ہے جو پشین کی کلی فیضو کا رہنے والا ہے۔ روزانہ پچاس کے قریب بسیں کوئٹہ سے پنجاب کے مختلف شہروں سے گزرتی ہیں جو بلوچ مسافروں کو روزانہ یہاں لاتی اور واپس لے جاتی ہیں۔ پنجاب کے ہر بڑے شہر میں کوئٹہ سے آئے ہوئے بلوچ اور پشتون مختلف قسم کے کاروبار میں مصروف ہیں اور بڑی آزادی کے ساتھ یہاں بلوچی سجی، بلوچی ماوس، بلوچی کڑھائی وغیرہ یہاں فروخت کرتے ہیں۔ بلوچستان کے یہ سب براہوی، بلوچ اور پشتون پنجاب میں امن اور اطمینان سے زندگی گزارتے ہیں۔ یہاں کاروبار کرتے ہیں اور اگر ان کی ایک نسل یہاں پیدا ہوجائے تو اسی طرح یہاں ضم ہوجاتی ہے جیسے کوئٹہ کا وہ نوجوان بلوچستان میں ہوا تھا۔ لیکن آج وہ نوجوان وہاں سے خوف زدہ ہو کر ہجرت کرکے ایک ایسے شہر میں آگیا ہے جہاں اس کا دل نہیں لگتا۔ کیا بلوچستان میں پنجابی کو گالی وہاں پر رہنے والے حجاموں، درزیوں، دھوبیوں، خاکروبوں، مستریوں، موچیوں، خرادیوں اور اسی طرح کی محنت مزدوری کرنے والے لوگوں نے بنایا؟ یہ لوگ تو کئی نسلیں پہلے رزق کی تلاش میں وہاں جانکلے تھے۔ یہ کسی کے مفاد پر حملہ آور نہیں ہوئے تھے۔ بلوچستان کے کسی شہر میں چلے جائیں، آپ کو پنجابیوں کی اکثریت اسی طرح کے پیشوں سے منسلک ملے گی۔ ایک کثیر تعداد دو اور شعبوں میں ملتی تھی… ایک استاد جو علم کی روشنی صوبے کے اُن دور دراز علاقوں تک پہنچاتے تھے جہاں پانی تک میسر نہ تھا۔ دوسرا شعبہ نرسنگ۔ وہ گائوں اور چھوٹے شہر جہاں بلوچ اور پشتون ڈاکٹر نوکری کرنے نہیں جاتے تھے، یہ نرسیں اپنے گھروں سے دور وہاں مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے موجود ہوتیں۔ اس کے باوجود آج سے چالیس سال قبل بھی پورے بلوچستان میں کہیں کوئی شخص اپنی دکان پر پنجاب لسی، پنجاب فوڈ یا پنجابی کھدر کا بورڈ نہیں لگاتا تھا۔ بلوچستان کی ہر فلور مل میں پنجاب کی گندم استعمال ہوتی ہے لیکن کوئی ایک مل بھی پنجاب فلور مل کے نام سے نہیں۔ ایسا کیوں اور کب ہوا؟ پنجاب کو بلوچستان اور دوسرے صوبوں میں گالی کب اور کیسے بنایا گیا؟ 1971ء سے پہلے ملک دشمن عناصر مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کو مغربی پاکستان کے نام سے ڈراتے تھے اور وہاں کے دانشور مغربی پاکستان میں رہنے والے ہر شخص کو ظالم، استحصال کرنے والا اور حقوق غصب کرنے والا ثابت کرتے تھے۔ کسی کو کراچی، لاہور اور اسلام آباد کی سڑکوںسے پٹ سن کی بُو آتی اور کوئی زبان اور کلچر کے نام پر ملک کو بے جوڑ اکائی کا نام دیتا۔ نفرت کی رو میں جب پوری قوم کو یرغمال بنادیا جائے تو وہی ہوتا ہے جو بنگالیوں کے ساتھ ہوا۔ بنگلہ دیش بن گیااور آج دو کروڑ بنگالی بھارت کے شہروں میں محنت مزدوری کیلئے دربدر ہیں۔ دس لاکھ بنگالی عورتیں دنیا بھر میں بیچی جاچکی ہیں۔ بیس لاکھ بنگالی ہجرت کرکے کراچی میں معمولی نوعیت کے پیشے اختیار کرچکے ہیں۔ بھارت کی افواج کی مدد سے ملک کو دو لخت کردیا گیا تو ان کے حوصلے بڑھے۔ اب باقی چار قومیتوں میں سے کسی ایک کو ظالم، استحصال کرنے والا اور حقوق غصب کرنے والا ثابت کرنا ضروری تھا۔ اس دفعہ پنجابی کو ظالم بنا کر پیش کیا گیا۔ 1971ء سے آج تک بلوچ اور پشتون رہنمائوں کی بلوچستان میں تقریریں دیکھ لیں، دیواروں پر وال چاکنگ ملاحظہ کریں‘ آپ کو ہر جگہ پنجابی استعمار کا لفظ نظر آئے گا۔ ایف سی‘ جس کے بارے میں پورے بلوچستان میں نفرت پائی جاتی ہے‘ وہ آپریشن کرتی ہے، وہاں کوٹے کے حساب سے پشتون قبائل کو بھرتی کیا جاتا ہے لیکن پھر بھی نفرت کے لیے پنجابی کا نام استعمال کیا جاتا ہے۔ اس نام کی زد میں صرف وہ نہیں آتے جو پنجابی بولتے ہیں بلکہ ہر وہ شخص جو بلوچ، پشتون یا براہوی نہیں وہ پنجابی ہے۔ پاکستان سے مذہبی اقلیتوں کی سب سے بڑی ہجرت مذہبی شدت پسندی کی وجہ سے نہیں ہوئی بلکہ قوم پرستانہ تعصب کی وجہ سے ہوئی۔ اغوا برائے تاوان، دھونس اور تشدد کے خوف سے بلوچستان کی قدیم ترین اقلیتی اقوام‘ ہندو اور پارسی 1988ء سے ملک چھوڑنا شروع ہوئے اور آج ان کے اِکا دُکا گھر نظر آتے ہیں اور وہ بھی خوفزدہ۔ لیکن ان تمام دانشوروں اور تبصرہ نگاروں کے نزدیک ظالم اور غاصب پنجابی کے دل‘ لاہور میں آپ کو پاکستان کے گوشے گوشے سے آئے ہوئے لوگ نظر آئیں گے۔ وزیرستان کے ڈرون حملوں سے ڈرے ہوئے، بلوچستان کے خوفزدہ اور کراچی کی ٹارگٹ کلنگ سے گھبرائے ہوئے، یہ سب آپ کو سیدنا علی ہجویریؒ کے شہر میں رزق تلاش کرتے، کاروبار میں مصروف اور سکون سے گھروں کو لوٹتے دکھائی دیں گے۔ یوں لگتا ہے اس درویش کا دستر خوان آج بھی بچھا ہوا ہے جو اس نے ایک ہزار سال پہلے لنگر کی صورت میں جاری کیا تھا۔ لیکن کیا کریں، جب تک پنجابی کو ظالم، خونی اور غاصب ثابت نہ کیا جائے اس ملک کی جڑیں کھوکھلی نہیں کی جاسکتیں۔ اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک سے انتقام نہیں لیا جاسکتا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved