اپنے اطراف نظر دوڑائیے، سو طرح کے مسائل کے درشن ہوں گے، خرابیاں ہی خرابیاں دکھائی دیں گی۔ یہ زمینی حقیقت ہے۔ مگر آپ کو اِن خرابیوں کے ساتھ رہتے ہوئے زندگی بسر کرنی ہے اور اِن میں سے بیشتر خرابیوں سے نہ صرف یہ کہ بچنا ہے بلکہ اُن کے تدارک کے لیے کوشش بھی کرتے رہنا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ہماری زندگی اِسی کام کے لیے وقف ہو رہنی چاہیے؟ یقیناً نہیں۔ بہت کچھ ہے جو زندگی کا محض ایک حصہ ہے، زندگی نہیں۔ ہم جذبات کی رَو میں بہتے ہوئے بہت سے معاملات کو زندگی کا حصہ بنائے رکھنے کے بجائے مکمل زندگی کا درجہ دے بیٹھتے ہیں۔ کوئی اگر تمباکو نوشی کا عادی ہے تو اِسی کو زندگی کی اصل اور بنیاد قرار دے لیتا ہے۔ کسی کو اگر فلمیں دیکھنے کا شوق ہے تو اُس کے نزدیک زندگی کا بنیادی مقصد صرف یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ فلمیں دیکھی جائیں، اِس دریا میں غرقاب رہا جائے۔ یہ تو ہوا قباحتوں کا معاملہ۔ حسنات کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ مطالعہ زندگی کا حصہ ہے مگر بعض لوگ مطالعے ہی کو زندگی سمجھ کر اُس میں گم ہو جاتے ہیں۔ نتیجہ؟ ظاہر ہے، عدم توازن کی شکل میں برآمد ہوتا ہے۔ جب ہم کسی بھی معاملے میں توازن سے دست بردار ہوتے ہیں تب خرابی پیدا ہوتی ہے یا پہلے سے موجود خرابی شدت اختیار کرتی ہے۔
جب پورا معاشرہ شدید عدم توازن کی زد میں ہو اور لوگ ہر معاملے میں شدت پسندی کو حرزِ جاں بنانے پر تُلے ہوں تب کسی بھی معاملے کو درست کرنے کی راہ ہموار کرنا جُوئے شیر لانے کے مترادف ہو جاتا ہے۔ اِس وقت پاکستانی معاشرہ اِسی مرحلے سے گزر رہا ہے۔ بیشتر معاملات پر سخت جاں کُنی کا عالم ہے۔ لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑا کرکے اِشو میں تبدیل کرنے کے خبط میں مبتلا ہوچکے ہیں۔
چراغ حسن حسرتؔ کا ضرب المثل کی حیثیت رکھنے والا شعر ہے ؎
غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سُنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا، کچھ ہم سے سُنا ہوتا
بہت سوں کا یہ حال ہے کہ جو کچھ دل و دماغ میں چل رہا ہوتا ہے وہ منہ تک آئے بغیر نہیں رہتا۔ اور منہ تک آجائے تو پھر زبان سے ادا ہوئے بغیر نہیں رہ پاتا۔ آپ کو اپنے آس پاس ایسے بہت سے لوگ دکھائی دیں گے جو کسی بھی معاملے میں رائے دینے سے نہیں چُوکتے اور شاید اِسی لیے زیادہ پسندیدہ بھی نہیں ٹھہرتے۔ ٹھیک ہے، سوچے سمجھے بغیر کوئی بھی بات کہہ دینے سے بہت سوں کی دل آزاری بھی ہوتی ہے مگر جو بولنے سے نہیں چُوکتے اُنہیں منافقت سے کام نہ لینے کا کریڈٹ تو بہرحال دیا جانا چاہیے!
جب بھی دو یا زائد افراد کے درمیان کوئی معاملہ بگڑتا ہے تو لازم ہو جاتا ہے کہ اُس معاملے سے متعلق تمام جزئیات کو کھل کر بیان کردیا جائے۔ کبھی کبھی کوئی چھوٹی سی بات معاملات کو اُسی طرح ''کرپٹ‘‘ کردیتی ہے جس طرح کوئی وائرس پوری ہارڈ ڈسک کو بیڈ سیکٹر کی منزل تک پہنچا دیتا ہے۔ معاملات کی درستی کے لیے اظہارِ خیال لازم ہے۔ اگر اِس راہ پر گامزن نہ ہوا جائے تو راہ میں اونچے پہاڑ حائل ہو جاتے ہیں۔
اِس وقت پاکستانی معاشرہ ہر معاملے میں شدت پسندی کے مرحلے سے گزر رہا ہے۔ ابتدائی مرحلے ہی میں ہی انتہائی رویّہ اپنانے کا چلن عام ہے۔ جو کچھ بہت بعد میں آنا چاہیے وہ ابتدائی مرحلے ہی میں یوں وارد ہو جاتا ہے کہ معاملات کو انتہائی خرابی سے بچانا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے۔ جب کوئی معاملہ حل ہونے کا نام نہ لے رہا ہو تب عاجر ہوکر لوگ جو رویّہ اختیار کرتے تھے وہ اب پہلی فرصت میں اپنایا جاتا ہے۔ ایک زمانے تک لوگوں کا چلن رہا ہے کہ جب بات بن نہیں پاتی تھی تب تنگ آکر بات چیت بند کردیا کرتے تھے۔ بات چیت بند کرنے یا ایک دوسری کی شکل نہ دیکھنے کا رجحان انتہائی رویّہ ہے۔ یہ منزل اُس وقت آیا کرتی تھی جب تمام راستے بند ہوچکے ہوتے تھے، حجت تمام کی جاچکی ہوتی تھی اور معاملات کی درستی کا، بظاہر، کوئی امکان باقی نہیں رہا ہوتا تھا۔
زمانے نے ایسی کروٹ بدلی ہے کہ ''جا ... میں تَو سے ناہی بولوں‘‘ کو ٹرینڈ کی حیثیت حاصل ہوچکی ہے۔ جو اقدام آخری حربے یا طریقے کے طور پر، مجبوری کی حالت میں، اپنایا جاتا تھا وہ اب پلک جھپکتے میں اپنالیا جاتا ہے۔ اکیسویں صدی کے اٹھارہویں سال کے پاکستان میں معاملہ یہ ہے کہ کسی سے کوئی جائز شِکوہ کیجیے تو بات چیت بند، کسی کو اُس کی کوتاہی پر مطلع کیجیے تو بات چیت بند، کسی کو اُس کی پیدا کردہ خرابی اور اُس کے سنگین نتائج کے بارے میں بتائیے تو بات چیت بند۔ کسی بھی معاملے میں جہاں آپ نے اُصول کے مطابق اور انصاف کے تقاضوں کو ذہن نشین رکھتے ہوئے کوئی بات کی اور بات چیت بند۔
''جا ... میں تَو سے ناہی بولوں‘‘ کی طرزِ عمل کو ٹرینڈ سے بڑھ کر اب فیشن کا درجہ حاصل ہوگیا ہے۔ بھری محفل میں فخریہ بیان کیا جاتا ہے ''بھئی میں تو اُس سے بات کرنا بھی پسند نہیں کرتی!‘‘ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کسی سے بات کرنے کو ناپسند کرنا کیا مسائل کے حل کا محبوب و مقبول طریقہ ہے؟ اور کیا ایسا کرنے سے معاملات سلجھائے جاسکتے ہیں؟ یقیناً نہیں۔ تو پھر مُنہ پُھلانے اور بات چیت بند کرنے کو ٹرینڈ، بلکہ فیشن کا درجہ کیوں حاصل ہوگیا ہے؟
نَفسی اُمور کے ماہرین کی جو بھی رائے وہ اپنی جگہ، عام آدمی کو یہ حقیقت ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ آپس کے تعلقات اُسی وقت خوشگوار رہ سکتے ہیں جب بات ہوتی رہے، ایک دوسرے کے خیالات سے واقفیت رہے اور کسی کا موقف سُن کر اپنا موقف بیان کرنے کی گنجائش باقی رہے۔
حفیظؔ ہوشیار پوری نے خوب کہا ہے ؎
دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے
کسی بھی پس ماندہ معاشرے کی طرح ہمارا معاشرہ بھی سو خرابیوں سے ''آراستہ‘‘ ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو اِشوز میں تبدیل کرنے کا فیشن عام ہے۔ جن باتوں پر سوچنا سوچنے کے عمل کی توہین سے کم نہیں اُن باتوں کو ہم حزرِ جاں بنا بیٹھے ہیں۔ یہ تماشا ایسی بھرپور لگن (!) کے ساتھ جاری ہے کہ سوچیے تو شرمندگی ہوتی ہے۔ گھر، محلہ، علاقہ، دفتر، حلقۂ احباب ... عرض ہر جگہ اور ہر معاملے میں لوگ معاملات کو درست کرنے کے بجائے انتہائی رویّوں کو گلے لگانے پر تُلے بیٹھے ہیں۔ انتہائی رویّوں میں پہلے نمبر پر ہے مُنہ پُھلا لینا، بات نہ کرنا، اپنا موقف بیان کرنا نہ فریقِ ثانی کا موقف سُننا اور سب سے بڑھ کر شکل ہی دیکھنے سے گریز!
آپ، ہم ... سبھی اِس معاشرے کا حصہ ہیں۔ معاشرے کی تمام خوبیاں اور خرابیاں ہمارے سامنے ہیں۔ ہم سبھی کے معاملات بار بار خرابی کی طرف جاتے ہیں اور پھر کوشش کرنے پر درست بھی ہونے لگتے ہیں۔ معاملات کے درست ہونے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ ''جا ... میں تَو سے ناہی بولوں‘‘ کے وظیفے کی گردان کرنے کے بجائے سلسلۂ گفت و شنید جاری رکھا جائے۔ فریقِ ثانی کا موقف سُننے اور اپنی بات کہنے کی عادت اپنانا ہی ہمارے معاملات کی درستی کا موزوں ترین طریقہ ہے۔ بات بات پر مُنہ پُھلاکر بات بند کرنے کے رجحان کے ہاتھوں ہم سب انفرادی اور اجتماعی سطح پر بند گلی کی طرف بڑھتے جارہے ہیں۔