تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     08-05-2018

چھوٹی عقل‘بڑی عقل

بچے اس دنیا کی حسین ترین تخلیقات میں شمار ہوتے ہیں ۔جب کوئی بات ان کو اچھی لگتی ہے تو وہ بے ساختہ مسکراتے ہیں ۔ یہ مسکراہٹ دنیا کی کسی بھی بناوٹ سے پاک ہوتی ہے ۔ جب ہم بڑے ہوجاتے ہیں تو پھر ہم دوسروں کو خوش کرنے کے لیے مسکراتے ہیں لیکن بچّے ان سب چیزوں سے پاک ہوتے ہیں ۔ ان میں کسی قسم کی کوئی بھی بناوٹ نہیں ہوتی ۔ کوئی دکھاوا، نہ ریاکاری ۔ پھر یہ کہ اپنی طرف سے چالاکی دکھانے کی کوشش میں اکثر ایسی حرکتیں کر جاتے ہیں ، جن سے نہ صرف انسان بے حد محظوظ ہوتاہے بلکہ اگر وہ غور کرے تو اسے بہت سی قیمتی معلومات بھی حاصل ہوتی ہیں ۔ یہ بے وجہ نہیں کہ سرکارؐ کو ان سے بے حد محبت تھی ۔ انہیں وہ اپنے مبارک کندھوں پر سوار کر لیتے ، اپنی سواری پر بٹھاتے اور بوسہ دیتے ۔ فرمایا: جو چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا اور بڑوں کا احترام نہیں کرتا، وہ ہم میں سے نہیں ۔ 
اگر آپ اس بات پر غور کریں کہ بچّے جب کسی چیز کے لیے ضد کر رہے ہوتے ہیں تو وہ اس چیز کو حاصل کرنے کے لیے کس قدر بے چین ہوتے ہیں ۔ اس کے باوجود والدین کو اپنا دل سخت کر کے ، انکار کرنا پڑتا ہے ۔ بچّے کی چھوٹی سی عقل اس وقت بھرپوربے چینی کا شکار ہوتی ہے ۔ وہ زمین پر لیٹ کر ٹانگیں مارنے لگتاہے ، اس کی آنکھیں آنسوئوں سے بھر جاتی ہے ۔ اس کے باوجود والدین جو کہ بچّوں کی نسبت زیادہ عقل والے ہوتے ہیں ، وہ جانتے ہیں کہ اس چیز میں بچّے کا نقصان ہے اور اس کی یہ خواہش کسی قیمت پر بھی پوری نہیں کی جا سکتی ۔ اسی طرح والدین کو یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ کچھ دیر کے بعد اس کا دل بہل جائے گا، یہ اپنی اس ضد کو بھول جائے گا ۔ کسی اور چیز میں مگن ہو جائے گا ؛لہٰذا والدین بچّے کو دکھی اور آبدیدہ دیکھتے ہوئے بھی اس کے دیرپا مفاد اور بھلائی کے لیے اپنے فیصلے پر قائم رہتے ہیں ۔ 
کیا ایسا ہی ہمارے ساتھ نہیں ہوتا؟ ہم ایک نقصان ، اہل و عیال میں سے کسی کی وفات پر کس قدر غمزدہ ہوتے ہیں ۔ چندماہ یا زیادہ سے زیادہ ایک سال تک ہمیں صبر آجاتا ہے ۔ پھر ہماری زندگی میں مرنے والے کی جگہ کوئی اور لے لیتا ہے ۔ 
ایسا ایک بہت ہی اہم واقعہ دو روز قبل میرے ساتھ پیش آیا ، جس میںبچے کی عقل اور بڑے کی عقل کا فرق واضح ہوتاہے ۔جب میں گاڑی چلا رہا ہوتا ہوں تو کئی مرتبہ ایک سالہ بیٹی میری گود میں بیٹھنے کے لیے ضد کرنے لگتی ہے ۔ ایسے میں ، میں گاڑی کی رفتار آہستہ کرکے ، ڈبل انڈیکٹر لگا کر اسے گود میں بٹھا لیتا ہوں ۔ د و روز قبل اس نے میری گود میں بیٹھنے کے بعد یہ کوشش شروع کر دی کہ میری نظر کی عینک اتار دے۔ یہ وہ چیز تھی، جس پر کسی قیمت پر بھی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ معصوم بچّی کی خواہش میں نے پوری نہ ہونے دی تو وہ رونے لگی۔ پھر وہ ضد میں آگئی اور بھرپور شور مچانے لگی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ میں اس کی بھرپور بے چینی دیکھ سکتا تھا ، خواہش دیکھ سکتا تھا لیکن معاملات میرے ہاتھ میں تھے اور اس کی ضد پوری کرنے کا نتیجہ ایک حادثے کی صورت میں نکل سکتا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ اس کا فائدہ بھی اسی میں ہے کہ عینک اس کے حوالے نہ کی جائے ۔ یہاں سے اس خیال نے جنم لیا کہ جب ہم اپنی زندگی میں کسی خواہش کے لیے شدید بے چین ہورہے ہوتے ہیں تو کیا خدا کے نزدیک ہماری اس خواہش کی تکمیل کی صورت میں ہمارا نقصان یا مکمل تباہی جنم لے سکتی ہے ؟ کیا ہماری بہت سی خواہشات اس وجہ سے بھی پوری نہیں کی جاتیں کہ ان میں ہمارا نقصان ہوتاہے ۔ 
اسی طرح خدا فرماتاہے کہ ایک چیز تمہیں اچھی لگتی ہے ، جب کہ اس میں تمہارا نقصان ہوتاہے ۔ جب کہ ایک چیز تمہیں بری لگتی ہے ، جب کہ اس میں تمہارا فائدہ ہوتاہے ۔ اسی طرح جب بچّے کو کڑوی دوا پلا ئی جاتی ہے یا اسے انجیکشن لگایا جاتاہے تو وہ بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتاہے ؛حالانکہ اس میں اس کا فائدہ ہوتاہے لیکن اس کی چھوٹی سی عقل یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوتی ہے ۔ 
شاید یہی معاملہ دولت کی تقسیم کا بھی ہے ۔ آپ نے بہت سے لوگ زندگی میں ایسے دیکھے ہوں گے ، جو جب تک غربت اور جدوجہد کی زندگی میں رہے ، ان کا اخلاق بہترین رہا۔ جیسے ہی دولت آئی، وہ بگڑ گئے۔ ان کے اندر ایک گھمنڈ آگیا۔ عربوں کے ساتھ کیا ہوا ؟دولت نے ان کی خیرہ کن شان و شوکت کو تباہ کر کے رکھ دیا ۔ آپ دنیا بھر میں دیکھیں ،بہترین لڑاکا فوج آپ کو ان ممالک میں ملے گی، جو جدوجہد کی زندگی گزار رہی ہیں ، جیسا کہ پاکستان ۔ آپ امریکہ کو دیکھیں ۔ 700ارب ڈالر کے قریب دفاعی بجٹ ، شان و شوکت، بہترین وردیاںاور فوجی سازو سامان اور اس سب کے بعد جب جنگ ہوتی ہے تو ویت نام میں بھی ہارتے ہیں اور افغانستان میں بھی ۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ پاکستان سے جو سازوسامان نیٹو سپلائی میں جاتا تھا، اس میں سب سے زیادہ تعداد میں بھیجی جانے والی چیز ڈائپر تھی ۔ جو فوجی رات کو گشت پر نکلتے ہیں ، وہ رفع حاجت کے لیے اپنی بکتر بند گاڑی سے باہر نکلنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے ۔ اب بتائیں کہ ڈائپر باندھ کر کوئی سپاہی جنگ لڑ سکتاہے ؟ جس کا موت کے بعد اگلی زندگی پر ایمان ہی نہ ہو اور جس کے لیے اسی زندگی میں دولت سمیت مادی چیزوں کا حصول ہی سب کچھ ہو۔ آپ بھارت کی فوج دیکھ لیں ،ا مریکہ اور برطانیہ کی دیکھ لیں ۔ صرف یہ لکھ کر ایک بار سرچ کر لیں کہ sucides in indian army، آپ کو بھارت کے بڑے قومی اخبارات میں شائع ہونے والی خبریں سب کچھ بتا دیں گی۔ امریکی اور برطانوی فوجوں کے بارے میں گوگل میں سرچ کرلیں ، ان کے بڑے اخبارات آپ کو حقیقت بتا دیں گے ۔ پھر آپ پاکستانی فوج کے بارے میں بھی سرچ کر یں ، جسے کشمیر اور افغان سرحد پر اور ملک بھر میں خودکش حملوں سے بھرپور ایک جنگ لڑنا پڑی اور ڈیڑھ عشرے میں جس کے چھ ہزار سے زائد جوان اور افسر شہید ہو گئے ۔ یہ فوج آپ کو بھرپور جنگ کے باوجود خودکشیاں کرتی نظر نہیں آئے گی ۔ آپ عرب ممالک کی فوجوں کو دیکھ لیں ۔ ایک ایک قصبے کا کنٹرول حاصل کرنے میں انہیں ہفتوں لگ جاتے ہیں ۔ بھلا ریشمی لباس پہنے ہوئے سونے اور تیل کے ذخائر کے مالک نے کیا جرأت و بہادری دکھانی ہے ۔ اس کا دل تو اسی دنیا میں لگا ہوتاہے ۔ 
خدا کے سامنے جو حقائق ہوتے ہیں ، اس میں دو دنیائیں ہوتی ہیں ۔ ہمارے تمام تر فیصلے اور ارادے صرف اس ایک زندگی کی بنیاد پر صادر ہوتے ہیں ۔خدا کے سامنے ایک مکمل تصویر ہوتی ہے ۔ اس کے سامنے انسانوں کی موت بھی ہوتی ہے اور موت کے بعد کی زندگی بھی ۔ اسے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اپنے بچّے کی موت پر یہ کتنا عرصہ دکھی رہے گا۔ پھرایک نیا بچہ پرانے کی جگہ لے گا ۔یہ فرق ہے ، بچّے اور بڑے کی عقل میں اور اس سے زیادہ فرق ہے انسان کی محدود عقل اور خدا کے مکمل علم و عقل میں ۔ یہ فرق ہے چھوٹی عقل اور بڑی بلکہ مکمل عقل میں ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved