پاک چین دوستی نے کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے ایک نئے شعبے میں پیش رفت کی۔ ''جنوبی ایشیا میں کچھ نئی پیش رفتیں سامنے آئی ہیں۔ پچھلے دنوں چین کے صدر ژی جن پنگ اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے مابین دو روزہ غیر روایتی بات چیت میں یہ طے پایا ہے کہ دونوں ملک اپنی سرحدوں پر فوجی تنازعات سے بچنے کی کوشش کریں گے۔ اور بھی بہت سے معاملات زیر غور آئے‘ لیکن ایک بہت بڑے ایشو پر کوئی بات نہ کی گئی۔ یہ ایشو کہ چین پاکستان میں کیا کر رہا ہے؟ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ بھارت کو اب اس بارے میں فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
پچاس برس قبل جب پاکستان کے ایک وزیر خارجہ نے چیئرمین مائوزے تنگ کو آموں سے بھری ایک ٹوکری پیش کی تھی تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ تحفہ ایک خصوصی دوستی کا سبب بن جائے گا۔ اور اب یہ دوستی اتنی گہری ہو چکی ہے کہ حالیہ مہینوں میں جب پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے تو انفراسٹرکچر اور اسلحہ کی خریداری کے سلسلے میں‘ اسلام آباد نے بڑی آسانی سے اپنا رخ بیجنگ کی طرف موڑ لیا ۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر پاکستان نے صدر ژی جن پنگ کے'' بیلٹ اینڈ روڈ‘‘ کے عظیم منصوبے کے ایک حصے نے پاک چین اکنامک کوریڈور کی تعمیر کے لئے 62 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کر لی ہے۔ دونوں ملکوں کے برادرانہ تعلقات یہاں ختم نہیں ہوئے بلکہ سی پیک میرجز ( دونوںا طراف مرد اور عورتوں کی باہمی شادیاں) کی تصاویر اور خبروں نے انٹرنیٹ پر تہلکہ مچا دیا ہے۔ ان ساری باتوں اور معاملات سے بھارت کا چوکنا ہو جانا سمجھ میں آتا ہے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ سی پیک آزاد کشمیر سے بھی گزرتا ہے‘ جبکہ پورے جموں و کشمیر پر دونوں ملکوں میں عرصے سے تنازع چل رہا ہے۔ بھارت کو اندیشہ بھی ہے کہ سری لنکا کی ہمبن ٹوٹا بندرگاہ 99 سال کے لئے ‘جبکہ پاکستان کی گوادر بندرگاہ 43 سال کے لئے چین کو لیز پر دے دی گئی ہے تو یہ بندرگاہیں چین اپنی نیول بیسز کے طور پر بھی استعمال کر سکتا ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے بھارت خود کو گھرا ہوا محسوس کرتا ہے لیکن کچھ دوسرے معاملات ایسے ہیں ‘جو بھارت کی فکر مندی کو کم کر دیتے ہیں۔
ان تعلقات کو زوالوجی (علم حیوانیات) کے حوالے سے پرکھتے ہیں۔ چین کا گوشت خور ٹائیگر آم نہیں کھاتا لیکن اسے ملائیشیا کا ڈیورین پھل ضرور پسند آ جائے گا‘ جسے ان علاقوں میں پھلوں کا بادشاہ بھی کہا جاتا ہے‘ کیونکہ چین نے بلا شبہ پاکستان کے لئے ایک بڑی رقم مختص کی ہے‘ لیکن ملائیشیا نے چینی سرمایہ کاری حاصل کرنے کے لئے‘ بڑی خاموشی سے کافی آگے تک کا سفر طے کر لیا ہے‘ اور چین کی 34 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری سے کئی انفراسٹرکچر پروجیکٹس پر کام شروع کر دیا ہے۔ نومیورا سکیورٹیز کے اندازوں کے مطابق پاکستان کو چین سے جتنی سرمایہ کاری ملی‘ وہ تاحال اس میں سے نصف پر ہی منصوبے شروع کر سکا ہے۔ملائیشیا نے چین سے جو سرمایہ حاصل کیا ہے اس کا سارا کریڈٹ وزیر اعظم نجیب رزاق کو جاتا ہے۔ چین سے یہ سرمایہ کاری حاصل کرنے کے لئے نجیب رزاق نے چھ ماہ کے عرصے میں دو بار بیجنگ کا دورہ کیا۔ ان دوروں میں وہ چینی حکام سے روڈ بیلٹ کے منصوبوں پر تفصیل کے ساتھ تبادلہ خیالات کرتا رہا ‘ جس کا نتیجہ بھی سب کے سامنے ہے۔ ملائیشیا میں پروجیکٹ فنانسنگ کا معاملہ بھی ٹھیک چل رہا ہے۔ 14 بلین ڈالر کی لاگت سے ایسٹ کوسٹ ریل لنک کی تعمیر کی جا رہی ہے۔ اس منصوبے پر کام کا آغاز پچھلے سال اگست میں ہوا تھا۔ اس پروجیکٹ کی 15 فیصد لاگت مقامی بینک فراہم کر رہے ہیں جبکہ باقی اخراجات ایکسپورٹ امپورٹ بینک آف چائنا برداشت کر رہا ہے۔ اس نئی سرمایہ کاری کی وجہ سے ملائیشیا کی پیداواری شرح بڑھ گئی ہے اور جنوب مشرقی ایشیا کی منڈیوں میں اسے ایک تیزی سے ایک فروغ پذیر معیشت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
پاکستان اور چین کے مابین کافی کچھ ٹھیک ہے‘ لیکن سب کچھ ٹھیک نہیں کہا جا سکتا ۔ جیسے سال گزشتہ کے اواخر میں پاکستانی حکومت نے چین کے اس منصوبے کو مسترد کر دیا تھا کہ گوادر پورٹ فری زون میں یوآن (چینی کرنسی) کو زرِ قانونی کی حیثیت دے دی جائے۔ پھر حال ہی میں چین کو وینزویلا میں کی گئی اپنی سرمایہ کاری کے حوالے سے کچھ مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ وینزویلا معاشی بحران کا شکار ہے‘ جس کی وجہ سے ممکن ہے چین سرمایہ کاری کے حوالے سے پہلے سے زیادہ ہوشیار اور چوکنا ہو جائے۔ اب اگر چین پاکستان کی جانب اپنی درآمدات بڑھا دیتا ہے تو پہلے سے قرضوں کے بوجھ تلے دبے پاکستان کے اقتصادی مسائل مزید بڑھ جائیں گے۔ 2017ء کے اواخر تک پاکستان کا بیرونی قرضہ 90 بلین ڈالر ہو چکا تھا۔ اس وقت اس کے غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر محض 11.4 بلین ڈالر تھے۔ چین کی جانب سے 62 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کو بھی اس میں شامل کر لیا جائے تو پاکستان کے واجب الادا قرضوں کا بوجھ دگنا ہو جائے گا۔ (ایک انگریزی اخبار نے گزشتہ دنوں ایک رپورٹ شائع کی کہ پاکستانی حکومت چین سے ڈیپازٹس کے طور پر دو تا تین بلین ڈالر کا تقاضا کر سکتی ہے اور وہ گلوبل بانڈ کے ذریعے بھی کم و بیش 2.5 بلین ڈالر حاصل کرنے کی کوشش کرے گی)۔
اس طرح چین کے قرضے پاکستان کے لئے سودی مسائل کا باعث بن سکتے ہیں‘ لیکن ملائیشیا کو کوئی مسئلہ نہیں‘ کیونکہ 14 بلین ڈالر لاگت کی ریل لنک کے لئے اس نے چین کے پالیسی بینک سے 3.25 فیصد سود جیسی نرم شرائط والی سرمایہ کاری حاصل کی ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں بننے والے پروجیکٹس پر سود کی شرح 5 فیصد تک ہے۔ اس لئے بھارت نے اب پاکستان میں چینی منصوبوں کی تعمیر کے بارے میں پریشان ہونا چھوڑ دیا ہے۔ جیو پولیٹکس اپنی جگہ لیکن چین قرضوں کی واپسی جیسے داخلی معاملات پر اپنی توجہ زیادہ مرتکز رکھنا زیادہ پسند کرے گا اور یہ پالیسی پاکستانی معیشت پر دبائو بڑھانے کا باعث بن سکتی ہے۔ ملائیشیا کی جانب سے روڈ اینڈ بیلٹ کا اگلا مرحلہ اچک لینے اور انفراسٹرکچر منصوبوں کی وجہ سے پاکستان کے مالی مسائل بڑھ جانے کے امکانات‘ دو ایسے معاملات ہیں‘ جن کی وجہ سے بھارت نے اب پاکستان میں سی پیک منصوبے کے بارے میں پریشان ہونا چھوڑ دیا اور وہ اس حوالے سے اب اتنا مطمئن ہو چکا ہے کہ نریندر مودی کی حال ہی میں چینی صدر سے ہونے والی بات چیت میں اس پر فکرمندی کا اظہار نہیں کیا گیا‘‘۔