لاہور میں گزشتہ شب ایک تقریب میں کلاسیکی موسیقی کے پٹیالہ گھرانے کے قابلِ فخر فرزند گلوکار شفقت امانت علی خان سے مشہور اداکار اور صوفی منش نورالحسن انٹرویو کررہے تھے۔ نورالحسن کا گفتگو کرنے کا مخصوص درویشانہ خوبصورت انداز ہے۔ شفقت، جو گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویٹ ہیں، نے پاکستان پر لکھا ہوا خوبصورت نغمہ گانے سے قبل ایک بات کہی۔ بولے: وہ پوری دنیا پھر چکے ہیں، لیکن پاکستان سے بہتر کوئی ملک نہیں۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی جس پر حیران ہوا جاتا‘ کیونکہ ہم سب جب بھی باہر سے واپس پاکستان آتے ہیں، یہی بات محسوس کرتے ہیں۔ لیکن اگلی بات جو شفقت نے کی، اس نے مجھے چونکا دیا۔ کہا کہ وہ بیرون ملک پاکستانیوں سے بہت ملے اور انہیں خوش نہیں پایا۔ ہاں! اگر آپ ارب پتی ہیں، تو اور بات ہے، ورنہ سب جانتے ہیں کہ وہ پاکستان کو کتنا مس کرتے ہیں اور ان کے کیا حالات ہیں۔ پاکستان جیسا بھی ہے، یہ آپ کا اپنا ملک ہے، جہاں سب کی عزت ہے، ہاں اگر آپ 'محنت‘ کرکے خود کو بے عزت نہ کرا لیں۔ شفقت امانت کی بات میں بہت گہرائی تھی۔
دو ہزار چودہ کی بات ہے۔ ایک دن جارجیا اٹلانٹا امریکا سے اعجاز بھائی کا فون تھا۔ پاکستان میں جاری کھیل سے سخت پریشان تھے۔ اعجاز بھائی تو وہاں ہم پاکستانیوں سے زیادہ پریشان رہتے ہیں۔ اکثر مجھ سے پوچھتے تھے: پاکستان کیسے ٹھیک ہوگا؟ میں نے کہا: یہ کام بہت ناممکن ہے اور آسان بھی۔ وہ ہنس پڑے: یہ کیا بات ہوئی؟ میں نے کہا: بچپن میں اماں سے کہانی سنتے تھے۔ ایک شہزادی جن کی قید میں تھی۔ ایک آدم زادے کو دیکھا تو پہلے ہنسی اور پھر روئی۔ آدم زاد نے پہلے ہنسنے اور پھر رونے کی وجہ پوچھی، تو بولی: بڑے عرصے بعد کسی انسان کی شکل دیکھی ہے، اس لیے خوش ہوئی ، روئی اس لیے ہوں کہ ابھی جن آئے گا اور تمہیں کھا جائے گا۔
میں نے کہا: اعجاز بھائی اپنی بھی اتنی مختصر سی کہانی ہے۔ ہم ہنس بھی سکتے ہیں اور رو بھی۔ اب یہ بات طے ہے کہ پاکستان کے سیاستدان اور بیوروکریسی‘ ٹھیک نہیں ہوں گے۔ جتنا قریب سے میں نے انہیں دیکھا ہے، اس کے بعد مجھے شک نہیں رہا، یہ دونوں طبقات جلدی ٹھیک نہیں ہوں گے۔ بیوروکریسی کا جو کردار ہونا چاہیے تھا، وہ نہیں رہا۔ فوجی حکمران آئے، تو پہلے ایک دو سال انہوں نے بڑے دعوے کیے۔ انقلابی نکات دیے کہ پاکستان کو چاند ستارے لا کر سجا دیں گے، لیکن دو تین سال بعد ہی وہ فوجی آمر بھی سیاستدان بن گئے اور پھر 'چراغوں میں روشنی نہ رہی‘۔ سیاستدانوں نے تو خیر یہ تکلف بھی کرنے کی کوشش نہیں کی۔ پہلے نوے دن تو ہر حکومت ایسے ایسے دعوے کرتی ہے کہ اب پاکستان درست سمت چل پڑا ہے اور پھر نوے دن بعد وہی کرتوت شروع، جس کی وجہ سے پہلی حکومت ختم ہوئی تھی۔ پچھلے دس برسوں میں جو بڑا نقصان ہوا، وہ سیاستدانوں کا کرپٹ ہونا نہیں ہے۔ میرے لیے ٹریجڈی یہ ہے کہ پہلی دفعہ پاکستانی سیاسی ورکر بھی کرپٹ ہو گیا ہے۔ یہ کام اگرچہ بہت پہلے شروع ہو چکا تھا، جب نواز شریف نے وزیر اعلیٰ بنتے ہی ہر طبقے کو کاروباری انداز میں کرپٹ بنانے کا کام شروع کیا تھا۔
پچھلے دنوں لاہور میں تھا۔ عمران منیر‘ جنہوں نے خود صحافت میں بڑا عرصہ کام کیا اور آج کل یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں، نے اس حوالے سے کچھ چونکا دینے والی باتیں کیں۔ سیاست میں کرپشن پر بات ہو رہی تھی تو وہ بتانے لگے: جب نواز شریف وزیراعلیٰ بنے تھے، تو انہوں نے سب سے پہلے یہ کام کیاکہ لاہور کے صحافیوں کی فہرست بنا کر انہیں حکومت کے کالجوں میں لیکچررز لگا دیا تھا۔ یوں وہ سب شریف خاندان کے ایک طرح سے ذاتی ملازم بن گئے۔ ان کا کام تھا کہ تھوڑی دیر کے لیے کالج جائیں اور باقی سارا دن صحافت کے نام پر شریف خاندان کا نام اونچا کرنے کا کام کریں۔ اسی طرح ڈھونڈ کر غنڈے اور موالی پولیس میں اے ایس آئی بھرتی کیے گئے۔ وکیلوں کو ہزاروں کی تعداد میں پلاٹ دیے گئے۔ یوں ہر طبقے کو اس کام پر لگا دیا کہ سیاست کا مطلب ذاتی فائدہ ہوتا ہے۔ یوں انیس سو ستر کی دہائی کے ورکر‘ جو نظریاتی ورکر تھا، کو نظریات سے ہٹا کر اس کام پر لگا دیا گیا کہ یہ نظریات کیا ہوتے ہیں‘ اصل بات تو یہ ہے آپ روزانہ کتنا مال کما کر گھر جاتے ہو۔ تم اگر سارا دن سیاسی لوگوں کے نعرے مارتے ہو، تو تمہیں بھی ذاتی فائدہ ہونا چاہیے۔ یوں دھیرے دھیرے سیاست کا نام ذاتی مفاد ہونا شروع ہوا، جو جتنا چالاک نکلا اور جتنا بڑا مال بنا سکتا تھا، اسے بڑا سیاستدان مان لیا گیا، جو بڑا فراڈ کر سکتا تھا، وہ بڑا سیاستدان بنا۔
میں بولا: بات تو آپ ٹھیک کررہے ہیں۔ پہلے ایک ٹرینڈ تھا، سیاست میں تو پھانسی بھی چڑھنا پڑتا ہے۔ سیاست کا وہ امیج بدلنا شروع ہوا۔ پہلے یہ ٹرینڈ تھا کہ گھر کا کوئی بندہ سی ایس ایس افسر یا فوج میں کیپٹن ہونا چاہیے‘ پھر نیا ٹرینڈ ابھرنے لگا کہ نہیں ایک بچہ سیاست میں بھی گھس جائے، تو بلے بلے۔ ایک ہی گھر میں سی ایس ایس، کیپٹن ہو اور اوپر سے سیاسی تڑکہ لگ جائے، تو کیا ہی بات ہے۔ جن سیاسی گھرانوں میں سی ایس افسر یا کیپٹن نہ تھا، انہوں نے اپنے بچوں کے رشتے ان افسران سے کرنے شروع کر دیے۔ سیاست اور سول ملٹری طاقت چند گھرانوں میں اکھٹی ہونے لگی اور یوں ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ شروع ہوا۔ اب اس میں ایک نیا ٹرینڈ شامل ہو گیا ہے کہ گھر میں ایک لڑکا یا لڑکی ٹی وی اینکر ہو تو کیا ہی بات ہے۔ سول ملٹری، سیاست دان اور میڈیا... ایک ہی گھر کی چھت تلے اکٹھے ہو جائیں، تو کیا ہی بات ہے۔ یوں اختیارات اور اثر و رسوخ بڑھنا شروع ہوا۔ جہاں یہ سہولت میسر نہ تھی، وہاں انہوں نے بیوروکریسی اور صحافت کو کرپٹ کرکے کام نکالنے کی راہ ڈھونڈ لی۔ پھر ایک دوڑ شروع ہو گئی۔ پہلے لیڈروں نے مال بنانا شروع کیا۔ ابھی ان دنوں کچھ شرم حیا باقی تھی، لہٰذا یہ سوچا گیا کہ اگر اتنی دولت پاکستان میں دکھانے کی کوشش کی، تو لوگ شک کریں گے۔ لہٰذا سوچا گیا کہ باہر جائیدادیں خرید لیں، آف شور کمپنیاں بنا لیں یا سوئس بینکوں میں پیسہ رکھ لیں۔ آج سے تیس سال قبل کس نے سوچا تھا کہ ایک دن دنیا گلوبل ولیج بن جائے گی۔ انٹرنیٹ، گوگل، واٹس ایپ کا دور ہو گا اور ایک لمحے میں سب کا کچا چٹھا کھل کر سامنے آ جائے گا۔ اس وقت یہ سوچا گیا کہ سب کچھ خفیہ رہے گا۔ نواز شریف خاندان نے کب سوچا تھا کہ انیس سو ترانوے میں خریدے گئے خفیہ فلیٹس دو ہزار سولہ میں بے نقاب ہوں گے اور پورا خاندان نہ صرف اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے گا بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی ایک بدنامی کی وراثت چھوڑ کر جائے گا۔ انیس سو ترانوے چھوڑیں، مریم نواز تو چند برس پہلے تک بڑی پرامید تھیں کہ اب بھی اس دور میں لوگوں کو بیوقوف بنانا آسان ہے، لہٰذا انہوں نے بڑے دھڑلے سے ٹی وی پر کہہ دیا: میری لندن میں تو چھوڑیں پاکستان تک میں کوئی پراپرٹی نہیں۔ پتا نہیں یہ کہاں سے ڈھونڈ کر لے آتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ اب بھی وہی لا علمی والا دور ہے۔ لوگوں کو کیا پتا کہ لندن میں ماربل آرچ میں موجود اربوں روپوں کے فلیٹس کس کے ہیں اور کہاں سے آئے تھے؟ مریم نواز صاحبہ کا 'لندن چھوڑیں پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں‘ والا کلپ دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ ہمارے حکمران اور ان کی اولادیں کیسے اعتماد سے زندگی گزارتی ہیں کہ وہ جب بھی چاہیں لوگوں کو بیوقوف بنا سکتے ہیں اور مزے کی بات ہے، لوگ بن بھی جاتے ہیں۔ معاشرے کے رول ماڈل اب کرپٹ لوگ بن چکے ہیں۔
لٹیروں اور لٹنے والوں میں مضبوط بانڈ اور رشتہ قائم ہو چکا ہے، جسے توڑنا شاید آسان نہیں رہا! سونے پر سہاگہ یہ کہ جن سیاستدانوں نے پہلے معاشرے اور ورکرز کو کرپٹ کیا، وہی سب کچھ تباہ کرکے فرماتے ہیں: اب تو نواز شریف خود ایک نظریہ بن چکے ہیں۔ اس سے زیادہ انتقام اس معاشرے سے نہیں لیا جا سکتا تھا۔ پہلے سیاسی نظریات کا مذاق اڑائو، اعلیٰ اخلاقیات پر مبنی نظریات کو پھانسی دو‘ معاشرے کے ایک ایک فرد، سیاسی ورکر اور ریاستی ادارے کو کرپٹ کرو اور پھر خود ہی تیس سال بعد ''نیک پروین‘‘ اور ''نظریاتی‘‘ بن کر انہی لوگوں کو چڑائو!
ویسے ناجائز دولت پہلے کمانے اور پھر چوک پر سرعام رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر اسے بچانے کے لیے بھی انسان کو کیا کیا ڈرامے کرنے پڑتے ہیں باس! نظریات کے قاتلوں کو بھی نظریاتی چوغہ اور عبا پہننا پڑتا ہے۔