تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     09-05-2018

اگر مقابلہ عمران سے نہیں تو۔۔۔۔؟

''خدا کی قسم اٹھا کر کہتا ہوں کہ میرا مقابلہ عمران خان سے نہیں، وہ تو میرے سامنے کوئی شے ہی نہیں ہے‘‘ میاں نواز شریف ان الفاظ کو آج کل اپنی ہر تقریر اور ہر تقریب میں بڑئی گھن گرج کے ساتھ سنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ممکن ہے کہ اُن کا یہ دعویٰ درست ہو اور واقعی تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان ان کے مقابلے میں کوئی وقعت ہی نہ رکھتے ہوں، لیکن میاں نواز شریف صاحب! اگر آپ کیلئے عمران خان کوئی خطرہ نہیں، اُس کی حیثیت آپ کے سامنے نہ ہونے کے برا بر ہے اور چونکہ آپ یہ دعویٰ خد اکی قسم کھاتے ہوئے کر رہے ہیں، تو میرے جیسا ایک عام شخص آپ سے اتنا تو پوچھنے کی ہمت کر ہی سکتا ہے کہ جناب، پھر ارب ہا روپے سے ہر کالج اور یونیورسٹی کے طالب عالم کو مفت میں لیپ ٹاپ دینے کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے ؟آپ کو یاد ہو گا کہ عمران خان کے تیس اکتوبر کے مینار پاکستان کے جلسہ سے پہلے آپ کی زبان پر نوجوانوں کا نام ہی نہیں آتا تھا۔ آپ کو اپنے ہر دور حکومت میں کبھی یہ احساس ہی نہیں ہوا تھا کہ اپنے خاص ورکروں کے علا وہ پاکستان میں کسی کو روزگار کی ضرورت ہو سکتی ہے ؟آپ کے کسی بھی ترقیاتی پروگرام میں نوجوانوں کیلئے قرضوں کا ذکر ہی نہیں ہوتا تھا؟ زرعی فصلوں کی جان ‘کھاد'اس قدر مہنگی ہو رہی تھی کہ آپ کو تو یہ بھی یاد نہیں آتا تھا کہ کسانوں کیلئے کھاد میں کوئی سبسڈی بھی دینی ہوتی ہے ؟آپ کو تو یہ بھی احساس نہیں ہوتا تھا کہ لوگ لوڈ شیڈنگ سے مر بھی جاتے ہیں؟آپ کو تو یہ بھی یاد نہیں رہتا تھا کہ ملک میں کوئی سکول یا ہسپتال نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے ، جس میں ڈاکٹروں کے علا وہ ادویات اور آلات جراحی کی ضرورت ہوتی ہے ؟وغیرہ وغیرہ۔
میاں نواز شریف صاحب آپ کا کہنا درست ہو سکتا ہے کہ عمران خان آپ کے سامنے کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا ۔اُس کا آپ سے کیا مقابلہ کہ اُس کے پاس تو ایک مرلہ کی خراد مشین بھی نہیں۔ اُس کے پاس تو کوئی برف خانہ یا کولڈ سٹوریج بھی نہیں جبکہ آپ تو تیس سے زائد فیکٹریوں اور کارخانوں کے مالک ہیں ۔آپ کے پاس تو دنیا بھر میں بہترین محلات ہیں جبکہ عمران خان کے پاس تو دنیا کے گئے گزرے کونے میں بھی کوئی ایک مرلہ جگہ نہیں، اگر آپ کا عمران خان سے کوئی مقابلہ نہیں، تو پھر آپ کو اس کے خلاف پراپیگنڈہ مہم چلانے کیلئے کسی بڑے اخباری دفتر جیسی میڈیا ٹیم تشکیل دینے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے ؟اگر عمران خان آپ کیلئے خطرہ نہیں، تو آپ کو اور مریم صفدر کو اس کے خلاف سوشل میڈیا ٹیم کے تنخواہ داروں کا ہجوم اکٹھا کرنے کی ضرورت کیوں پڑ گئی؟میاں صاحب آپ ہی اپنی تقریروں اور بیانوں پر ذرا غور کریں، اگر کچھ عرض کیا تو شکایت ہو سکتی ہے کہ آنکھ کھلتے ہی آپ کا نشانہ عمران خان ،دن ڈھلتے ہوئے آپ کا نشانہ عمران خان اور رات سونے سے پہلے آپ کی جماعت اور حکومت کے ایک ایک فرد کا نشانہ عمران خان کیوں بنتا ہے ؟آپ مولانا فضل الرحمان سے نہ چاہتے ہوئے اتحاد کرتے ہیں ،تو ساتھ ہی عمران خان کا مقابلہ کرنے کیلئے آپ محمود خان اچکزئی اور اسفند یار ولی خان کو اپنے گلے لگاتے ہوئے مشیر خاص مقرر کرتے ہیں، کبھی عمران خان کا مقابلہ کرنے کیلئے آپ منظور پشتین کو ہلا شیری دیتے ہوئے خیبر پختونخوا میں اس کے مقابلے میں آگے لاتے ہیں ،تو کبھی عمران خان کا توڑ کرنے کیلئے آپ آفتاب شیر پائو کو ڈھیروں لالچ دیتے ہوئے دوستی کیلئے اس کے آگے پیچھے کیوں بھاگتے دیکھے جاتے ہیں ؟ عمران خان کے خلاف کبھی عائشہ گلالئی اور کبھی ریحام خان کا سہارا کیوں لیتے ہیں؟ نہ جانے کس طرح پھر بھی آپ ڈائس پر کھڑے ہو کر ہاتھ بلند کرتے ہوئے خد اکی قسم کھاتے ہوئے کیسے کہہ دیتے ہیں کہ آپ کا عمران خان سے مقابلہ ہی نہیں ،وہ تو آ پ کے سامنے کوئی شے ہی نہیں؟وہ جو بقول آپ کے کوئی شے ہی نہیں، تو پھر سوچئے کہ اگر عمران خان کوئی شے ہوتا، تو پھر نہ جانے آپ کیا کرتے ؟پھر آپ اپنے ہر ایم این اے کو پچاس پچاس کروڑ روپے نہیں بلکہ پانچ پانچ ارب روپے بطور ترقیا تی فنڈ دیتے !!!
کچھ حاسد لوگ کہتے ہیں کہ آپ تو عمران خان کے نام سے ہی الرجک ہیں کہ وہ بات جو گیارہ مئی2013 ء کے عام انتخابات کے تیسرے روز اُس وقت کے صدر پاکستان آصف علی زرداری نے لاہور بلاول ہائوس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہے تھی کہ ‘‘یہ انجینئرڈ انتخابات ہیں'' اس پر آپ پانچ سال تک خاموش رہے ، لیکن جیسے ہی وہ الفاظ عمران خان نے ادا کئے ، آپ نے ڈھونڈرا پیٹنا شروع کر دیا ہے کہ چیف جسٹس اس کے بیان کا نوٹس لیں؟یہی انکشاف حامد میر نے معرف سحافی محمد مالک کے پروگرام میں ایک بار نہیں کئی بار کیا ہے کہ 2013ء کے انتخابات نواز شریف کے حق میں افتخار چوہدری او رجنرل کیانی نے ہموار کرائے تھے ؟بلکہ حامد میر نے تو اپنے ایک نہیں کئی پروگراموں میں ڈنکے کی چوٹ پر کہے ہیں کہ25 سے چالیس تک آزاد اراکین پارلیمنٹ جنرل کیانی کے کہنے پر نواز لیگ میں شامل کرائے گئے تھے اور اب جو اراکین اسمبلی نواز شریف کو چھوڑ کر جا رہے ہیں، یہ وہی اراکین ہیں؟
عمران خان نے تحریک انصاف کے حامیوں اور سوشل میڈیا پر اس کیلئے بے لوث خدمات انجام دینے والوں کی مخالفت مول لیتے ہوئے حامدمیر صاحب کو انٹر ویو تو دے دیا، لیکن اب عمران خان دیکھ رہے ہوں گے کہ اسی انٹرویو کو بنیاد بناتے ہوئے حامد میر اوراُن کے گروپ کے لوگ اُن کے خلاف طوفان اٹھائے ہوئے ہیں۔وہ تو خیر سے تحریک انساف کا میڈیا سیل اور ان کا نیا سیکرٹری اطلاعات جس کے حامد میر سے عمران خان سے بھی زیا دہ تعلقات ہیں، حامد میر کو اُن کے یہ پروگرام اور حوالہ جات یاد نہیں کرا رہا کہ حضور جو عمران خان نے کہا، یہی کچھ تو آپ محمد مالک سمیت پاکستان کے کئی ٹی وی چینلوں پر خود بار بار کہہ چکے ہیں؟ اگر عمران خان نے سادگی میں یا آپ پر اعتماد کرتے ہوئے آپ کے کہے ہوئے الفاظ آپ کے ہی پروگرام میں اد اکر دیئے ہیں، تو اس پر ان کے گلے کا ہار کیوں بن رہے ہیں؟اگر کہا ہے تو مردانگی یا صحافت یہ ہے کہ اس پر قائم بھی رہا جائے ؟میاں صاحب لوگ جانتے ہیں کہ آپ کونسی نظر نہ آنے والی قوتوں کو للکار رہے ہیں ،عوام بھولی نہیں ، سب جانتے ہیں کہ ‘‘خلائی مخلوق'' کے خلاف آپ نہیں بول رہے بلکہ اس نظر نہ آنے والی‘‘ خلائی مخلوق'' کے سب سے بڑے دشمن نریندر مودی ، سجن جندال اور اجیت ڈوول بول رہے ہیں۔
'' توں نئیں بولدی تیرے اندر تیرا یار بولدا‘‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved