وور حاضر کی طاقتور اور جدید صنعتی ریاستیں ‘اس وقت دنیا پر چھائی ہوئی ہیں۔ کم و بیش چوتھائی صدی سے پسماندہ اور پچھڑی ہوئی قومیں ‘جو چھوٹی بھی ہیں اور بڑی بھی‘ باہمی تعاون کے ذریعے ‘ایک نئی دنیا تشکیل دی رہی ہے۔ان میں سب سے بڑی ریاست چین ہے‘ جو پرانی اور ترقی یافتہ ریاستوں سے مختلف ہے۔ اس تغیر پذیر دنیا میں سیاست‘ صنعت اور سماج کے نئے رشتے مرتب ہو رہے ہیں۔ میں کچھ دنوں سے قارئین کو‘ اس ابھرتی ہوئی دنیا کی طرف متوجہ کرتا آ رہا ہوں۔ میرا ندازہ ہے کہ ہمارا مستقبل چین کے زیر سایہ پروان چڑھے گا۔ اس سماج میں ہمارا بھی حصہ ہو گا۔جدید تبدیلی کے اس عمل میں ایشیا کی توانائی‘ کلچر‘ صنعتی ‘ تجارتی معاونت اور تہذیبوں کی ساجھے داری میں‘ ایک نیا معاشرہ پروان چڑھے گا۔ ایان مارلو کے اس مضمون میں‘نئے سماج کی تعمیر کی طرف اشارہ کیا گیاہے۔ملاحظہ فرمائیے۔
''وجیتھا گیمیج اور اس کے خاندان نے نئی بنی ہائی وے کی تپتی سطح پر تازہ کاٹی گئی دھان کے انبار لگا دئیے تھے۔ یہ ہائی وے سری لنکا کے جنوب میں واقع جنگل کے بیچوں بیچ سے گزرتی ہے۔ یہ بڑی سڑک چینی سرمائے سے بنائی گئی ہے۔ اس پر دھان سکھانے کے لئے اس خاندان کو ٹریفک کی راہ میں رکاوٹ نہیں ڈالنا پڑی ۔ اس پر 50 کلو گرام والی اتنی بوریاں پڑی تھیں جو کئی گاڑیوں میں پوری آ سکتی ہیں۔ انہوںنے بتایا کہ دھوپ سے سڑک اتنی گرم ہو جاتی ہے کہ دھان جلد خشک ہو جاتے ہیں‘ انہیں کئی دن انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ یہ شاہراہ سری لنکا میں ان متعدد پروجیکٹس میں سے ایک ہے ‘ جو چینی صدر ژی جن پنگ کے'' بیلٹ اینڈ روڈ انفراسٹرکچر انیشی ایٹو ‘‘کے تحت بنائے گئے ہیں یا بنائے جا رہے ہیں۔ جو ممالک 500 بلین ڈالر کے ان منصوبوں کی راہ میں کوئی رکاوٹ کھڑی کرنے کا سوچ رہے ہیں‘ ان کے لئے سری لنکا میں اس شاہراہ کی تعمیر میں بہت سے سبق پوشیدہ ہیں۔ سری لنکا کے سیاست دانوں‘ سرکاری حکام اور اقتصادی ماہرین سے‘ جب اس سلسلے میں تبادلہ خیال کیا گیا تو یہ تاثر ملا کہ مواقع کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کے لئے خطرات کو کم کر کے دیکھنا پڑتا ہے۔ 2009ء میں جب 25 سال سے جاری خانی جنگی کا خاتمہ ہوا تو سری لنکا کے پاس اقتصادی لحاظ سے چین کی طرف رجوع کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ چین نے بھی امداد اور ہتھیاروں کی کھیپ فراہم کرنے میں کسی قسم کے بخل کا مظاہرہ نہ کیا کیونکہ اس کے لئے میدان خالی چھوڑ دیا گیا تھا۔ امریکہ نے سری لنکا کو اسلحہ فراہم کرنا بند کر دیا تھا۔ یورپ نے بھی اپنی وہ فنڈنگ روک لی تھی‘ جو وہ ایک عرصے سے فراہم کر رہا تھا۔ اس طرح چین کو یہ موقع مل گیا کہ وہ فوری طور پر سری لنکا کو قرضوں اور سرمایہ کاری کی پیشکش کر سکے۔ صرف سری لنکا نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے بہت سے ممالک اسی صورتحال سے دوچار ہیں۔ میانمار اور ایران‘ مغربی ممالک کی جانب سے پابندیوں کا شکار ہیں جبکہ دہشت گردوں کی کارروائیوں کی وجہ سے سرمایہ کاروں نے پاکستان‘ افغانستان اور بنگلہ دیش میں سرمایہ لگانے سے ہاتھ کھینچ لئے ہیں۔ سری لنکا کی وزارت خزانہ کے ایک سابق افسر ‘ لکشمن سری وردھنے ‘ جو ان دنوں کولمبو کی'' پاتھ فائنڈنگ فائونڈیشن‘‘کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں‘ کا کہنا ہے کہ ''کوئی بھی سری لنکا میں سرمایہ کاری کو تیارنہیں تھا‘‘۔ چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ سری لنکا کا تجربہ اپنے اندر بہت سے بیش قدر سبق لئے ہوئے ہے۔آسانی سے حاصل ہونے والا سرمایہ سیاست دانوں کو آمادہ کر سکتا ہے کہ وہ ایسے قیمتی منصوبوں کی منظوری دیں جس سے محدود معاشی سرگرمی پیدا ہو۔ اس حوالے سے سری لنکا کے غنودہ جنوبی ضلعے ہیمبن ٹوٹا کی مثال دی جا سکتی ہے‘ جو سابق سری لنکن صدر مہندا راجا پکشا کا آبائی ضلع بھی ہے۔ یہاں چار لین والی اس شاہراہ کیت تعمیر کے علاوہ ایک بین الاقوامی ہوائی اڈا بھی بنایا گیا‘ جہاں سے روزانہ صرف ایک شیڈولڈ فلائٹ روانہ ہوتی ہے۔ اس علاقے میں ایک کانفرنس سینٹر بھی بنایا گیا ہے۔ اسی طرح ایک بندرگاہ بھی بنائی گئی‘ جہاں روانہ صرف ایک بحری جہاز پہنچتا یا روانہ ہوتا ہے۔
مختلف منصوبوں کی وجہ سے سری لنکا کو 25بلین ڈالر کا بوجھ برداشت کرنا پڑ رہا۔ سری لنکا پر قرضوں کا حجم بڑھتا جا رہا ہے۔ حکومت سرکاری ریونیو کا 80فیصد وہ قرضے ادا کرنے پہ صرف کر رہا ہے‘ جسے وزیر اعظم رانیل وکرماسنگھے نے ''بے مثل‘‘ قرضے قرار دیا ۔ گزشتہ برس وکرما سنگھے نے‘ جس نے راجا پکشا کے صدارت کھو دینے کے بعد یہ عہدہ سنبھالا ‘ یہ بندرگاہ ایک چینی فرم کو1.1 بلین ڈالر کے عوض فروخت کر دی تھی تاکہ ملک پر چڑھے قرضوں کے بوجھ میں کچھ کمی واقع ہو سکے۔ ایک مقامی بدھشٹ مندر کا ہیڈ مونک بیراگاما ویمالا بدھی تھیرو‘ اس بات سے خوف زدہ ہے کہ اگر ایسے منصوبے جاری رہے تو نئے منصوبوں کی وجہ سے گائوں والوں کو یہ علاقہ خالی کر دینا پڑے گا۔ اس صورتحال پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے رائے دی کہ ''اگر دوسرے ممالک بھی اسی طرح کی سرمایہ کاری حاصل کر رہے ہیں توانہیں سری لنکا والا طریقہ نہیں اختیار کرنا چاہئے‘ انہیں یہ کام منظم اور مرتب طریقے سے ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے کرنا چاہئے ‘‘۔
2015ء کے الیکشن کے دوران ‘راجا پکشا کو اس وقت ایک حیرت انگیز شکست کا سامنا کرنا پڑا ‘جب انہیں چیلنج کرنے والے میتھری پالا سری سینا نے اس کے (پکشا) چین کے ساتھ تنائو بھرے تعلقات کو تنقید کا نشانہ بنایا اور سری لنکا والوں کو خبر دار کیا کہ معاملات اگراسی طرح چلتے رہے تو ایک روز وہ غلام بنا لئے جائیں گے۔ اس کے تین سال بعد اب راجا پکشا‘ سری سینا کے چین کے ساتھ تعلقات کو ہدف تنقید بنا رہا ہے۔ راجا پکشا کا حامی اور مقامی سیاست دان‘ جو ہمبن ٹوٹا میں ایک سٹور چلاتا ہے‘ اس ساری صورتحال پر یوں اظہار خیال کیا ''چینی آکٹوپس کی طرح ہیںجب کوئی چیز ان کے قبضے میں آ جاتی ہے تو وہ اس کا سب کچھ نچوڑ لیتے ہیں‘ میرے خیال میں وہ تمام چھوٹے ایشیائی ممالک کو اپنے قابو میں کرنا چاہتے ہیں تاکہ ایشیا کا سب سے طاقتور ملک بن سکیں‘‘۔سری لنکا میں جہاں ایک طرف یہ بحث چل رہی ہے‘ دوسری جانب بہت سے لنکن چینی سرمائے سے فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں۔ سری لنکا کے دارالحکومت میں ان دنوں ہر طرف کرینیں ہی کرینیں نظر آتی ہیں جہاں چین کی سرکاری فرم کی ضمنی شاخ ‘چائنہ ہاربر انجینئرنگ کولمبو کو عالمی معیار کی بندرگاہ بنانے میں مصروف ہے۔چین تو سری لنکا میں سرمایہ کاری کر ہی رہا ہے‘ اس حوالے سے بھارت بھی کسی سے پیچھے نہیں رہا۔ بھارت سری لنکا کا دوسرا بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ لیکن وہ اس خوف میں مبتلا ہے کہ چین کسی روز ہمبن ٹوٹا کوفوجی مقاصد کے لیے بھی استعمال کر سکتا ہے۔ بھارت خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے معاشی اور اقتصادی اثرو رسوخ سے خوف زدہ ہے۔ سری لنکا نے یہ بات اب محسوس کرنا شروع کر دی ہے کہ ہر معاملے کی کوئی حد ہوتی ہے؟ سرخ لکیر کو کسی طور پار نہیں کرنا چاہئیے۔ اسی لئے اب سری لنکن وزیر اعظم نے بھارت اور جاپان سے سرمایہ کاری حاصل کرنے کا عندیہ دیا ہے‘ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں چین کی سرمایہ کاری کو اب بہرحال تنقید کا سامنا ہے۔ سری لنکا کے منصوبوں سے ملنے والا سبق یہ ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاری حاصل کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ آج کی دنیا میں دوسرے ممالک سے کٹ کر نہیں رہا جا سکتا‘ لیکن اس سرمایہ کاری کا درست منصوبوں کے لئے کیلکولیٹڈ استعمال بھی بے حد ضروری ہے‘ ورنہ لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں‘‘۔