تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     10-05-2018

باتوں سے نکلتی باتیں

سیانے کہتے ہیں کہ لسی کا اور لڑائی کا بڑھانا کچھ مشکل نہیں ہوتا کہ لسی میں پانی ڈالتے جائیں ، وہ بڑھتی جائے گی تو لڑائی میں غیر دانشمندانہ رویہ اور باتوں سے نکلتی باتیں اِس کی شدت میں اضافہ کرتی چلی جاتی ہیں،، ملکی سیاست کی صورت حال بھی آج کل کچھ ایسی ہے کہ ایک طرف سے ایک بات آتی ہے تو دوسری طرف سے اُس کا زیادہ شدت سے جواب آتا ہے ۔۔ ملکی سیاست میں پہلے مجھے کیوں نکالا کا غلغلہ مچا رہا تو اِس کے ساتھ ووٹ کو عزت دو کے نعرے نے بھی اپنی جگہ بنا لی جس کی مخالفت اور حمایت میں دلچسپ تبصروں نے سیاسی محاذ خوب گرم کیے رکھا تو عوامی سطح پر بھی نواز شریف کے اِس بیانیے نے توجہ ضرور حاصل کی کہ اِن پر تبصروں کاسلسلہ ہنوز جاری ہے۔ بیانیے کو ملنے والی اِسی پذیرائی کے پیش نظر ہی نواز شریف اپنی تمام قوت بازواپنے اِنہیں دونعروں پر مرکوز رکھے ہوئے ہیں جس کا بہرحال کسی حد تک،،فروٹ فل،،نتیجہ بھی برآمد ہورہا ہے ،،جس کے بعد ہی اب اُنہوں نے اِس کو اپنی سیاسی مہم کا سب سے بڑا ایشو بنا لیا ہے ،،،اِس میں اُن کی سنجیدگی کا یہ عالم دکھائی دیتا ہے کہ اُنہوں نے اپنے اُن سیاسی ساتھیوں سے بھی قطع تعلق کرلیا ہے جو اِس بیانیے سے اتفاق نہیں رکھتے کہ بقول نواز شریف صاحب کے وہ ، سول سپرمیسی، کو کسی بھی قیمت پر بحال کرائیں گے چاہے یہ قیمت سیاسی ساتھیوں کی صورت میں بھی کیوں نہ ہو،،اب یہ الگ بات کہ عملی طور پر مسلم لیگ ش کا روپ دھار لینے والی مسلم لیگ ن آئندہ عام انتخابات میں کامیاب ہو بھی پاتی ہے یا نہیں کہ اگر اِسی نے کامیاب ہونا ہے تو پھر یہ سب ، بکھیڑا ، بکھیرنے کی ضرورت ہی کیا تھی،،اور اگر یہ بات مجھے جیسے ناقص العقل لوگ بھی سمجھ آرہی ہے تو یہ کیونکر ممکن ہوسکتا ہے کہ مسلم لیگ ن صورت حال کا ادراک نہ کرپارہی ہو،،اُسے بالکل پوری طرح سے حالات کا ادراک ہے، کئی دہائیوں سے اقتدار میں رہنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ وہ جو کچھ کررہے ہیں ،اُس کے کیا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ، وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ آنے والا وقت اُن کے لیے مزید مشکلات لے کر آرہا ہے ، اِسی لیے پارٹی کے رہنماؤں اور ورکرز کو تفصیلی گائیڈ لائنز دی جاچکی ہے گویا بظاہر اُن کے نزدیک اب صورت حال کچھ ایسی ہی ہے کہ
کچھ فیصلہ تو ہو کہ کدھر جانا چاہیے
پانی کو اب تو سر سے گزر جانا چاہیے
وہ جانتے ہیں کہ اِس وقت اُن کے خلاف جس طرح سے کیسز کی بھرمار کردی گئی ہے، اُن پر عدالتی کارروائی تو چل ہی رہی ہے اور اب اُن کی قسمت کا فیصلہ عدالتوں میں ہی ہوگا تو پھر کیوں نہ اِس تمام صورت حال کو سیاسی فائدے کے لیے بھی استعمال کیا جائے ،اور ایسا ہی کیا جارہا ہے ،کیا ممکن ہے کہ جب نواز شریف عوامی جلسوں میں ہاتھ بلند کرکے یہ کہتے ہیں کہ مجھے بدعنوانی نہیں اقامے پر نکالا گیا ہے ، مجھے میرا قصور تو بتاؤ، مجھے پتہ توچلے کہ مجھے کیوں نکالا یا پھر جب وہ یہ استفسار کرتے ہیں کہ 20 کروڑ عوام کے نمائندے کو اِس طرح سے نکال دیا جانا عوامی مینڈیٹ کی توہین ہے ، تو کیا سننے والوں پر اِس کے اثرات مرتب نہیں ہوتے ہوں گے ؟اِس پذیرائی کے بعد ہی گویا یہ فیصلہ ہوچکا کہ اب جانا کدھر ہے لیکن اپنی منزل کی طرف قدم بڑھانے کے راستے میں جو مشکلات حائل ہیں اُن کی طرف بھی دھیان ہے اور اِن مشکلات میں اضافے کے پیش نظر ہی اُن کی طرف سے خلائی مخلوق کی ٹرم بھی متعارف کرائی جا چکی ہے ، جسے نہ صرف میاں صاحب خود بلکہ اُن کے وزرا اور مشیر بھی لے کر چل رہے ہیں، وزیراعظم خاقان عباسی تک یہ کہہ چکے ہیں کہ اگرچہ انتخابات خلائی مخلوق کرائے گی لیکن ہم پھر بھی انتخابات میں حصہ لیں گے تو وفاقی وزیراطلاعات مریم اورنگ زیب نے ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ خلائی مخلوق وہی ہے جو اب تک سترہ وزرائے اعظم کو گھروں کو بھیج چکی ہے ،باتوں سے ہی باتیں نکلتی ہیں کے مصداق اِس حوالے سے ن لیگ کے سیاسی مخالفین کی طرف سے بھی تبصروں کا سلسلہ جاری ہے ،اِس حوالے سے ایک دلچسپ تبصرہ آصف علی زرداری کی طرف سے بھی سامنے آچکا ہے جو قرار دیتے ہیں کہ خلائی مخلوق کے بارے میں پہلے میاں صاحب بتائیں کیوں کہ ان کے اپنے بھی خلائی مخلوق کے ساتھ قریبی تعلقات رہے ہیں اور یہ خلائی مخلوق ان کے ساتھ چلتی بھی رہی ہے لیکن ظاہر ہے کہ مسلم لیگ ن کی طرف سے اِس تبصرے کا کوئی جواب سا منے آنا تھا اور نہ ہی آیا۔
ایسے حالات میں جب میاں صاحب کو اقتدار کی کرسی سے الگ کرنے کے بعد پارٹی قیادت سے بھی نااہل کیا جاچکا ہے اور اُن کے خلاف متعدد کیسز کی سماعت بھی زوروشور سے جاری ہے تو وہ کھل کر آئندہ عام انتخابات کے لیے اپنے ، موڈ،کا اظہار کررہے ہیں جس سے اگر بڑی حد تک یہی تاثر واضح ہورہا ہے کہ وہ اپنے ووٹ بینک کو مستحکم رکھنے کی کوشش کررہے ہیں،وہ جہاں اپنے ووٹرز کو یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ وہ کسی ڈر اور خوف کے بغیر اپنی جگہ اور اپنے موقف پر مکمل طور پر قائم ہیں تو وہیں اِس بات کے امکانات بھی پوری طرح سے موجود ہیں کہ حصول ہمدردی کے لیے بات خلائی مخلوق کی ٹرم سے بھی آگے بڑھا دی جائے کہ الفاظ کی ادائیگی جتنی تندوتیز ہوگی، عوامی جذبات سے کھیلنے کا اُتنا ہی موقع ملے گا لیکن یہ بات دھیان میں رہنی چاہیے کہ بات جس کے خلاف بھی کی جائے گی، تو پھر اُس کی طرف سے آنے والے ، ری ایکشن، کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے ، باتوں سے بات نکلی تو مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی طرف سے خلائی مخلوق کے حوالے سے دئیے جانے والے بیانات کے تناظر میں الیکشن کمیشن کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے ، ادارے کے ترجمان کی طرف سے دئیے گئے بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ انتخابات کوئی خلائی مخلوق نہیں کروارہی، یہ بیان آئین کی روح اور الیکشن کمیشن کے مینڈیٹ کے خلاف ہے اور الیکشن کمیشن آئینی وقانونی ذمہ داریوں میں مکمل آزاد ہے ، اِس لیے ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے سیاستدانوں کو ایسے بیانات سے گریز کرنا چاہیے ،، ترجمان الیکشن کمیشن کی طرف سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسے بیانات محض قیاس آرائیوں اور مفروضوں پر مبنی ہوتے ہیں جو آئین کے منافی اور آئین کا تمسخر اڑانے کے مترادف ہیں اور اب تو یوں بھی الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابات کے لیے دومجوزہ تاریخیں بھی سامنے آگئی ہیں تو اِس کے بعد سیاسی ماحول کی گرما گرمی میں مزید اضافہ ہوگا اورانتخابی میدان میں کودنے کے لیے سیاسی جماعتوں کی طرف سے اپنی کسی ہی کمر کو مزید کسا جائے گا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر سیاسی جماعت اور اداروں کے درمیان ٹکراؤ کی نہج پر پہنچ جانے والے یہ حالات کب تک برقرار رہیں گے ؟؟کیا ملک طویل عرصے تک اِن حالات کا متحمل ہوسکتا ہے ؟ کیا سیاسی جماعتوں اور اداروں کا یہ سوچنا فرض نہیں بنتا کہ حالات کو مزید خرابی کی طرف لے جانے کی بجائے اِن میں بہتری کی کوئی سبیل کی جائے ؟یقینا سب کو سوچنا چاہیے لیکن بظاہر اب اِس سوچ بچار کی اب کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی کہ باتوں سے نکلتی باتوں کی شدت میں مزید تیزی ہی آئے گی۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved