تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     11-05-2018

ایک سچے نیازی کی نشانی

منیر نیازی نے کہا تھا: جس قبیلے کے سارے لوگ بہادر ہوں، وہ ہمیشہ رزم گاہ میں رہے گا۔ انہیں قرار کبھی نصیب نہ ہو گا۔نیازی سب بہادر ہیں‘ تو ایک سچا نیازی وہ ہے، جس کی تلوار ہمیشہ بے نیام رہے۔ 
کل صبح ایک نیازی دوست درپے رہے کہ عمران خان اور حفیظ اللہ برادران میں مصالحت کی کوشش کرو۔ عرض کیا: بھاری پتھر ہے۔ جن کی استعداد کہیں زیادہ تھی ، انہوں نے چوم کر چھوڑ دیا، ہم کس شمار قطار میں ہیں۔ نیازی وہ ہے ، نیند سے بیدار ہوتے ہی جو تلوار آویزاں کر ے۔ کسی حریف کو دیکھے تو اس کی چمک سے میدان کو بھر دے ۔ میانوالی میں نسبتاً ایک مرتّب نیازی سے پوچھا: ڈرائیوروں کے ساتھ ان کا روّیہ کیا کچھ ناہموار نہیں؟ بولا: ہاں! میرے والد صاحب کا بھی ۔ 
لکشمی بلڈنگ لاہور کے بالا خانے میں ہم مولانا عبدالستار نیازی کی زیارت کو جایا کرتے۔ یہ 49 برس پہلے کا قصہ ہے ۔ پہاڑ چہاڑ سے آدمی، شفقت فرماتے ۔ پگڑی پہن لیتے تو وجاہت بلائیں لیتی ۔ قائدِ اعظم کی صحبت نے نکھار دیا تھا۔ مطالعے سے مزاج میں اجالا ۔ اس پہ دلاور ایسے ، ایسی گرج دارآواز کہ پرندے بھی مؤدب لگتے ۔ مگر جہاں کوئی بات نا گوار ہوئی، لگتا کہ لائوڈ سپیکر کا دہانہ کھل گیا ہے ۔ آخر عمر میں صدا بلند نہ کرتے تھے۔ اس کے باوجود بھی ایسی ہیبت کہ در و دیوار تک سہمے نظر آتے ۔ منیر احمد منیرؔ نے آپ کا طویل سوانحی انٹرویو کیا تو اس کا عنوان ''میں‘‘ رکھا۔ 
سید ابوالاعلیٰ مودودی کے استاد بھی ایک نیازی تھے۔ کئی نسلوں سے دلّی میں مقیم مگر نیازی۔ ابوالخیر اور ابوالاعلیٰ کو تعلیم کے لیے ان کے ہاں بھیجا گیا۔ پہلی شرط یہ عائد ہوئی کہ نمازِ فجر کے فوراً بعد حاضر ہوا کریں ۔ اس کے باوجود تین دن تک دروازہ نہ کھولا۔ پھر آغاز کیا اور اس دل جمعی سے کہ دونوں بھائی جوانی کی دہلیز ہی پر اہلِ علم کی نظر میں آ گئے۔
1930ء کے عشرے میں دکن کے دارالترجمہ میں ابوالخیر دو ہزار روپے ماہوار تنخواہ پاتے ۔ انہی کے ہاں ابوالاعلیٰ مقیم تھے، جب وہ کتاب لکھی ''سلاجقہ ‘‘۔ ''الجہاد فی الاسلام ‘‘ اس سے پہلے رقم فرما چکے تھے ۔ 23 سال کی عمر میں‘ اپنے اخبار میں‘ مضامین کا سلسلہ شروع کیا اور تین سال میں کتاب چھاپ دی ۔ پچھلے دنوں بارِ دگر پڑھنا شروع کی۔ ایسی روانی کہ گویا چٹانوں سے اتر کر میدان میں داخل ہوتا دریا ۔ محض فصاحت ہی نہیں ، ایک کاٹ بھی ۔ میرؔ صاحب نے کہا تھا: 
گل ہو، مہتاب ہو، آئینہ ہو، خورشید ہو میرؔ
اپنا محبوب وہی ہے جو ادا رکھتا ہو 
کیا یہ ایک نیازی کی صحبت کا ثمر تھا یا سونے پر سہاگہ۔ سیّد صاحب میں جو بانکپن تھا، لگتا ہے کہ استادِ گرامی کا اعجاز بھی اس میں شامل ہوا۔ 
کہا جاتا ہے کہ ریاضی کا ایک ادق سوال لے کر ، دکن یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاء الدین خدمت میں حاضر ہوئے۔ سماع کے قتیل تھے۔ ایک خانقاہ میں ملے۔ باہر دیگوں کی قطار تلے بجھے ہوئے کوئلوں میں سے ایک کوئلہ اٹھایا‘ سوال سلجھا دیا۔ حیرت زدہ ڈاکٹر ضیاء الدین بولے : آپ کی جگہ تو نظام حیدر آباد کا دربار ہے۔ سر سے ایک بال اکھاڑ ا اور کہا : خدا کی قسم ، نظام کا دربار اس بال سے بھی حقیر ہے۔ 
افغانستان میں استعمار کا پہلا باغی بھی ایک نیازی تھا، عبدالرحیم نیازی۔ کابل یونیورسٹی میں طلبہ کی تنظیم بنائی ''جوانانِ مسلم ‘‘ ۔ انہیں ''بے طرف‘‘ کہا جاتا، یعنی غیر جانبدار ۔ وہ سوشلزم کے حریف تھے اور سرمایہ دارانہ نظام کے بھی ۔ گلبدین حکمت یار اس شام کا ذکر کریں تو لہجے میں گداز اتر آتا ہے۔ جمال الدین افغانی کے مزار سے متصل ایک کمرے میں وہ رازداری سے جمع ہوئے۔ چھاجوں برستا مینہ پردہ پوش تھا۔ کابل کی پُلِ چرخی جیل میں حکمت یار کو ایک دن عنان سونپ دی ۔ ٹائلٹ پیپر پر فوجی افسروں کے نام لکھے ، کار زار میں جو مددگار ہو سکتے ۔ عبدالرحیم نیازی بیمار ہوئے تو علاج کے لیے بھارت لے جائے گئے ۔ کہا جاتا ہے کہ وہاں انہیں زہر دے دیا گیا۔ 
جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے 
رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا 
پھر حفیظ اللہ خان نیازی سے واسطہ پڑا۔ ایک سر کشیدہ اور پُر عزم کھلاڑی کے سوا عمران خان کا کوئی تصور ذہن میں نہ تھا۔ اس تصویر میں حفیظ اللہ نے بہت سے رنگ بھر دئیے۔ کچھ سلیمان ذی شان اور کچھ ظہیرالدین بابر کے سے۔ شوکت خانم ہسپتال کا جادو جاگ رہا تھا۔ پارٹی بنانے کو عمران پا بہ رکاب تھے۔ حفیظ اللہ کی ترغیب دلانے پر پہلی بار ان سے ملے گیا ۔ بولا: آپ تو حفیظ اللہ سے ملنے آئے ہیں ناں؟ میں نے کہا : بلکہ قبلہ سے۔ایک بات سمجھ میں نہیں آتی‘ لفظ ''نیازی‘‘ کو شہبازشریف گالی بنانے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں۔
عمران اور حفیظ اللہ خان میں دانت کاٹے کی دوستی تھی ۔ سگے بھائی کی نہیں، وہ عمران خان کی انتخابی مہم میں شریک ہوتا۔ شریک کیا، نگران ۔ ہمیشہ اسے ''تم‘‘ کہہ کر مخاطب ہوتا۔ ظاہر ہے کہ عمران خان بھی ''تم‘‘ ہی کہتا مگر حفیظ اللہ خان کا ''تم ‘‘ پہ زور بہت ہوتا ۔ شروع شروع میں مجھے خوف محسوس ہوتا ، اب لڑے کہ اب لڑے۔ عمران خان اکثر تحمل کا مظاہرہ کرتا۔ کبھی کبھی تو حفیظ اللہ خان بھی ۔ ایسا لگتا کہ بھائی کے خلوص کا قائل ہونے کی بنا پر عمران نے صبر کا فیصلہ کر رکھا ہے ۔ موسمِ بہار کی ایک خوشگوار صبح، جب عمران بنی گالہ گھر کے صحن میں ورزش میں جتا تھا۔ حفیظ اللہ نے کہا : تمہاری پارٹی کے کچھ لیڈروں کی، میرے ہاتھ سے پٹائی ہو کر رہے گی ۔ عمران کا چہرہ سرخ ہو گیا لیکن خاموش رہا۔ شامت مجھ غریب کی آئی۔ بولا: اب ہارون ہی کو دیکھو ، مجھے احمق سمجھتا ہے ۔ میں اخبار پڑھتا رہا اور صرف یہ کہا : احمق نہیں، سادہ لوح ۔ عمران خان شہد، سلائس ، دہی اور پھل کھا چکا تھا، ڈٹ کر۔ میں نے چائے منگوائی ، ڈبل روٹی کے سکے ہوئے دو ٹکڑے ۔ ضروری خبریں پڑھ چکا تو اجازت چاہی۔ خدشے کو جھٹکنے کی کوشش کی لیکن ذہن پہ مسلط ہی رہا۔
ایک دن عارف کے سامنے عمران نے حفیظ اللہ خان کا ذکر کیا، برسبیلِ تذکرہ، مثبت نہ منفی۔ وہ بولے: حفیظ اللہ کا تجزیہ اکثر واضح نہیں ہوتا۔ اسے انہوں نے دیکھا نہ تھا۔ اب بھی نہیں دیکھا ۔ ذرا سا عمران خان چونکا لیکن پھر موضوع میں محو ہو گیا۔ ہر نیازی کے تین چار روحانی پیشوا ہوا کرتے ہیں... اور انہیں وہ نجومیوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ چھوٹے سے شلمان خیل قبیلے کا سردار خالی ہاتھوں سے شیر کے مقابل جا کھڑا ہوا تھا۔ میانوالی میں کسی اور نے تو کبھی لومڑی بھی نہ ماری۔پھر دوسروں کو اگر وہ کم پاتے ہیں تو تعجب کیا۔ ایک نیازی نے ایک دن مجھے مطلع کیا: میانوالی میں دو قومیں آباد ہیں ، ایک نیازی، دوسرے کمّی۔ ''خدا کا خوف کرو‘‘ میں نے کہا ''سادات بھی ہوں گے‘‘۔
تقدیر کا فیصلہ صادر ہواکہ ہر عمل کا ایک نتیجہ ہوتا ہے۔ ایک دن وہ الجھ پڑے۔ اشتعال اور صلہ رحمی کے باب میں تمام سنہری کتابوں کے سب ثقہ اقوال آپ انہیں سنا دیں، شاید ذرا سا اثر بھی نہ ہو گا۔ ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیں گے۔ غور کرنے پہ آمادہ ہوتے تو اس میں سبق تھا بلکہ کئی سبق لیکن غور و فکر کے وہ قائل نہیں۔ ان کا امتیاز جنگجوئی ہے ۔ ساڑھے چار سو برس ہوتے ہیں ، شیر شاہ سوری نے ان کے جدِّ امجد ہیبت خان کو ملتان کا گورنر بنایا تھا۔ تب سے وہ سارے کے سارے حاکم ہیں۔ منیر نیازی نے کہا تھا: جس قبیلے کے سارے لوگ بہادر ہوں، وہ ہمیشہ رزم گاہ میں رہے گا۔ انہیں قرار کبھی نصیب نہ ہو گا۔نیازی سب بہادر ہیں‘ تو ایک سچا نیازی وہ ہے، جس کی تلوار ہمیشہ بے نیام رہے۔ 
پس تحریر:جناب جسٹس شوکت صدیقی کا شکریہ۔ کوئی ایک تو ہے دینی حمیت رکھنے والا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved