تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     11-05-2018

اصل ایشوز پر فوکس کریں…(2)

ہم اکثر نان ایشوز میں الجھے رہتے ہیں۔ سال کے آخری دن یعنی 31 دسمبر کی رات کو کسی اچھے سے گھر کے باہر بہت سی گاڑیاں کھڑی ہوں تو یار لوگ ان کے شیشے توڑنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ان کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ ویلنٹائن ڈے پر کوئی شخص اپنی بیوی یا محبوبہ کو پھول تک پیش نہ کرے۔ اے خدایا اس معاشرے کو کیا ہو گیا ہے۔ یہاں تو ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال اور سسی پنوں کے رومان زبان زدِ عام ہوتے تھے۔ ہمارے صوفی شاعر بابا بلھے شاہ، بابا فرید اور شاہ عبداللطیف بھٹائی ان رومانوی داستانوں میں عشقِ حقیقی تلاش کرتے تھے اور مجھے یقین ہے کہ آج اگر ہیر رانجھا زندہ ہوتے تو رانجھا ویلنٹائن ڈے پر اپنی ہیر کو گلاب کے خوبصورت پھول ضرور پیش کرتا۔ یہ تو وہ دھرتی ہے جہاں صدیوں سے خٹک ڈانس، لڈی، دھمال، بھنگڑا ‘ہے جمالو جیسے رقص ہماری ہر خوشی کی تقریب کا حصہ رہے ہیں تو پھر ڈانس پارٹیوں پر پولیس چھاپے کیوں؟ کیا پولیس کے پاس اس قدر وافر وقت ہے؟ کیا قتل اور ڈکیتی کے جرائم ختم ہو چکے ہیں۔
اس خود ساختہ گھٹن والے ماحول کا ہماری اشرافیہ کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ وہ گرمیوں کی چھٹیوں میں انگلینڈ، فرانس یا امریکہ میں ہوتے ہیں نیو ایئر نائٹ پر دبئی چلے ہیں۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا میں مسقط میں سفیر تھا۔ ایک بہت ہی متمول گھرانے کے سابق فیڈرل منسٹر اپنی بیگم کے ساتھ نیو ایئر ڈنر کے لئے وہاں ہر سال آتے تھے۔ دونوں میاں بیوی بہت ملنسار تھے۔ مسقط پہنچ کر مجھے ضرور فون کرتے۔ بات صرف اتنی تھی کہ وہ سکون کے ساتھ نئے سال کی خوشی اپنی نصف بہتر کے ساتھ منانا چاہتے تھے جو کہ عمان کے دارالحکومت میں ممکن تھا۔ یاد رہے کہ سلطنت عمان کے لوگوں کو میں نے بہت اچھے مسلمان پایا مگر وہ نیو ایئر نائٹ پر کسی ڈانس پارٹی پر حملہ کرنے کو معیوب سمجھتے ہیں۔ جیو اور جینے دو تمام مہذب معاشروں کا اصول ہے۔
بات عتیقہ اوڈھو کی بیرونی ملک سے لائی ہوئی شراب کی دو بوتلوں سے شروع ہوئی تھی۔ ہمارے ہاں عام خیال ہے کہ شراب پینے والی قومیں ترقی میں پیچھے رہ جاتی ہیں۔ اگر ایسا ہے تو فرانس کبھی کا برباد ہو چکا ہوتا کہ دنیا کی سب سے اچھی وائن وہاں بنتی ہے‘ جرمنی والے ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے ہوتے کہ شاندار بیئر وہاں بنتی بھی ہے اور پی بھی جاتی ہے۔ میرے کہنے کا یہ مطلب ہرگز نہ لیں کہ شراب کی اجازت یا فراوانی ترقی کا راستہ ہے یا یہ کہ پاکستان میں شراب نوشی کی ممانعت نہیں ہونی چاہئے۔ میرا مقصد صرف یہ ہے کہ شراب کا ایشو پاکستان کا پرابلم نمبر ون نہیں۔ ہمارا اصل مسئلہ غربت میں روز افزوں اضافہ ہے۔ ہمارا بڑا مسئلہ اچھی اور سستی سرکاری تعلیم کا زوال ہے۔ ہمارا بڑا پرابلم جہالت اور بڑھتی ہوئی بیماریاں ہیں۔ خوراک میں ملاوٹ ہمارے نوجوانوں کو کمزور اور پستہ قد بنا رہی ہے۔ ہمارے ہاں اب گاما پہلوان پیدا نہیں ہوتے۔ ہماری سب سے اچھی یونیورسٹی نسٹ ہے اور اس کا دنیا میں 501 واں نمبر ہے۔ ہمارے پڑھے لکھے نوجوانوں کو میرٹ پر جاب نہیں ملتی۔ غریب آدمی پر ظلم ہو تو وہ نہ پولیس کو رشوت دے سکتا ہے اور نہ ہی اچھا وکیل کر سکتا ہے لہٰذا وہ اپنا مقدمہ شروع ہونے سے پہلے ہی ہار جاتا ہے۔ ترکی کی بات ہو رہی تھی تو ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔ مصطفی کمال اتاترک نے زمامِ اقتدار سنبھالی تو پوری دنیا میں ان کی شخصیت اور قیادت کے حوالے سے تجسس تھا۔ دور دراز سے صحافی ان کا انٹرویو کرنے آتے تھے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ اتاترک شراب پیتے تھے۔ ان دنوں ٹرکش پارلیمنٹ کے چار سو ممبر تھے۔ ایک مغربی جرنلسٹ دوران انٹرویو تیکھا سا سوال کیا کہ سنا ہے آپ کے ملک کی پالیسی چار سو شرابی بناتے ہیں۔ اشارہ واضح طور پر اراکین پارلیمنٹ کی جانب تھا۔ اتاترک نے جواب دیا کہ آپ کی انفارمیشن غلط ہے در اصل ترکی کی پالیسیاں ایک ہی شرابی بنایا ہے اور وہ آپ کے سامنے بیٹھا ہے۔ اس واقعہ کے راوی کئی سال ترکی میں رہے ہیں۔ ترکی زبان بھی فر فر بولتے ہیں۔ جرنلسٹ اتاترک کی صراحت دیکھ کر خاصا حیران ہوا۔ اس واقعے سے یہ امر بھی عیاں ہے کہ اتاترک میں ریا کاری بالکل نہیں تھی۔
کالم کے پہلے حصے میں غلام عباس کے مشہور افسانے آنندی کا ذکر آیا تھا۔ اس افسانے میں ایک شہر کے سٹی فادرز یعنی میونسپل کمیٹی کے ممبران بازار حسن کے وجود سے سخت نالاں تھے۔ چنانچہ فیصلہ کیا گیا کہ بازار کو کوئی میل بھر شہر سے دور شفٹ کر دیا جائے اور اس فیصلے پر من و عن عمل ہوا مگر آہستہ آہستہ اس شعبے سے متعلق دوسرے دکاندار مثلاً پھولوں والے چائے پانی والے بھی وہاں شفٹ ہو گئے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نیا شہر پرانے سے بڑا ہو گیا۔ کہانی سے سبق یہ ملتا ہے کہ اس مکروہ کاروبار کو مکمل طور پر ختم کرنا تقریباً نا ممکن ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مسئلے کے اسباب کا حل پہلے تلاش کیا جائے۔ غربت کا ازالہ کیا جائے ان بد قسمت لڑکیوں کو ایسے ہنر اور دستکاری وغیرہ سکھائی جائے کہ وہ اپنی روزی روٹی کمانے کے قابل ہو سکیں۔
میں شہرِ اقتدار میں رہتا ہوں۔ اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری کا کل رقبہ ایک ہزارمربع کلو میٹر کے قریب ہے۔ آبادی ڈھائی ملین یعنی 25 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ یہاں بے شمار پولیس سٹیشن ہیں۔ آئی جی صاحب کے انڈر ڈی آئی جی، ایس ایس پی متعدد ایس پی اور ماتحت عملہ ہے لیکن ای الیون اور ایف الیون کے پوش سیکٹرز میں کئی گلیوں کے سرے پر بیریئر لگے ہوئے ہیں۔ رات کو یہ بیریئر بند کر دیئے جاتے ہیں۔ کسی پرائیویٹ کمپنی کا سکیورٹی گارڈ بیریئر کے پاس رات بھر بیٹھتا ہے اور آنے جانے والوں کو چیک کرتا ہے۔ یہ ہے عدم تحفظ کا احساس جس سے اسلام آباد کے شہری دو چار ہیں ۔ ایسے ہی بیریئر میں نے راولپنڈی کے پوش ایریا چکلالہ تھری میں بھی دیکھے ہیں۔ پولیس کا اصل کام شہریوں کے جان و مال کو تحفظ فراہم کرنا ہے‘ جس میں وہ ناکام نظر آتی ہے۔
یہ وہ پولیس ہے جو فیڈرل وزیر داخلہ کے اپنے علاقے میں ہونے والی کارنر میٹنگ میں مسلح اشخاص کو آنے سے نہیں روک سکتی‘ البتہ ہوٹلوں اور گیسٹ ہائوسز سے مرد اور عورتیں فحش حرکات کے الزام میں پکڑ کر اگلے روز اخبار میں خبر لگوا لیتی ہے تا کہ عوام کو پتا چلے کہ پولیس کس قدر مستعد ہے‘ کس قدر اخلاقیات کی پاسدار ہے۔
محکمہ پولیس یہ کہنے میں حق بجانب ہو گا کہ غربت، تعلیم، صحت وغیرہ کے حوالے سے جن بڑے بڑے قومی مسائل کا آپ نے ذکر کیا ہے انہیں حل کرنا ہمارا کام تو نہیں۔ تو جناب عرض یہ ہے کہ کسی بھی ملک میں سرمایہ کاری لانے کے لئے لاء اینڈ آرڈر بہترین ہونا بنیادی شرط ہے جو پاکستانی یا انڈین دبئی میں اربوں کی سرمایہ کاری کرتا ہے اسے سو فیصد یقین ہوتا ہے کہ اسے اغوا کرنے کی کوئی جرأت نہیں کرے گا۔ اسے بھتے کی پرچیاں نہیں ملیں گی۔
ہمیں پولیس کے نظامِ تربیت پر فوکس کرنا ہو گا۔ تفتیش اور پراسیکیوشن کو بہتر کرنا ہوگا اور ہر پولیس والے کو ذہن نشین کرانا ہو گا کہ دو بوتل شراب برآمد کرانے سے بہتر ہے کہ قاتل اور ڈکیٹ پکڑے جائیں‘ بڑے جرائم کی بیخ کنی کی جائے۔ شہریوں کو تحفظ کا احساس ملنا ضروری ہے۔فروکی ایشوز کو چھوڑیں اور اصل ایشوز پر فوکس کریں۔ (ختم)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved