سزا ہوئی تو معافی مانگوں گا نہ رحم کی اپیل: نواز شریف
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''سزا ہوئی تو معافی مانگوں گا‘ نہ رحم کی اپیل کروں گا‘‘ جبکہ اس کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہو گا کیونکہ رحم کی اپیل کی سمری وزیراعظم بھیجتا ہے اور نگران وزیراعظم یہ سفارش کر ہی نہیں سکتا جبکہ الیکشن کے بعد ایسی حکومت کے برسر اقتدار آنے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ ''زمینی مخلوق خلائی مخلوق کو شکست دے گی‘‘ اور زمینی مخلوق یہ کام جیل میں رہ کر کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ''چیئر مین نیب منصب کا جواز کھو چکے‘‘ کیونکہ اگر میں اپنا منصب کھو چکا ہوں تو نیب چیئر مین کس باغ کی مولی ہیں، ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''پارٹی رہنمائوں کو مقدمات میں الجھایا جا رہا ہے‘‘ جبکہ انہیں عوام نے منتخب کیا ہے اور اگر عوام کو ان کی جملہ حرکات و سکنات پر کوئی اعتراض نہیں ہے تو نیب کا ادارہ پوچھنے والا کون ہوتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ''نیب کا متعصب چہرہ بے نقاب ہو چکا ہے‘‘ جبکہ ہمیں اور ہمارے لوگوں کو آج تک کسی نے نہیں پوچھا تھا کہ تمہارے منہ میں کتنے دانت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''نیب کا ادارہ ختم ہونا چاہئے‘‘ لیکن نیب کی بجائے مجھے ختم کیا جا رہا ہے حالانکہ میرے پلّے تو پہلے ہی کچھ نہیں ہے۔ ماسوائے ان تقریروں کے جو میں خلائی مخلوق کے بارے میں کرتا رہتا ہوں لیکن شہباز صاحب نے یہ کہہ کر کھوتا ہی کھوہ میں ڈال دیا ہے کہ خلائی مخلوق کا کوئی وجود ہی نہیں ہے اور اس طرح میرے سارے بیانیہ کا بیڑہ ہی غرق کر دیا ہے بلکہ نیب سے زیادہ وہ مجھے نقصان پہنچا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''کیا مجھ پر قیامت تک کیس چلانے ہیں؟‘‘ حالانکہ چند ہفتوں تک میں اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائوں گا اور کسی مزید کیس کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ ''یہ احتساب نہیں انتقام ہے‘‘ حالانکہ سپریم کورٹ پر حملے کو اتنے برس بیت چکے ہیں اور یہ گڑا مردہ ابھی تک اکھاڑا جا رہا ہے جبکہ گائے بھی گائے کا پیچھا چھوڑ دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ایسا گھٹیا الزام ناقابل برداشت ہے‘‘ جبکہ معقول اور مناسب الزامات کا مقدمہ پہلے ہی بھگت رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ''چیئر مین نیب ثبوت دیں یا استعفیٰ‘‘ کہ آخر اس کی کوئی منی ٹریل بھی ہو گی۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
جنوبی پنجاب صوبے کا نام لے کر سیاست
کرنیوالوں کو کچھ نہیں ملے گا: بلاول
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''جنوبی پنجاب صوبے کا نام لیکر سیاست کرنیوالوں کو کچھ نہیں ملے گا‘‘ البتہ روٹی ، کپڑا اور مکان کے نعرے پر سب کچھ ملے گا۔ کیونکہ اسے ہم نے جھاڑ پونچھ کر پھر سے اہم کر دیا ہے۔ اگرچہ اس پر کافی حد تک عمل درآمد ہو بھی چکا ہے کہا کہ لوگ اب روٹی بھی کھاتے ہیں اور کوئی ننگا بھی آج تک میں نے نہیں دیکھا۔ جبکہ وہ مکانوں میں رہ بھی رہے ہیں وہ اپنے ہوں یا کرائے کے جبکہ جھونپڑیوں میں رہنے والے زیادہ آسودہ حال ہیں کیونکہ انہیں کرایہ بھی نہیں دینا پڑتا۔ انہوں نے کہا کہ ''نواز شریف اور عمران کو غریبوں کی فکر نہیں‘‘ اور صرف ہمیں ہے کیونکہ حکومت ختم ہونے کے بعد ہم خود غریب ہو گئے ہیں اور پچھلی جمع پونجی مالِ حلال بود بجائے حلال رفت کے مطابق ختم ہو چکے ہیں اور اب صرف چند ارب کے اثاثے ہاتھ رہ گئے ہیں۔ وہ بھی باقی رہیں گے یا نہیں۔ آپ اگلے روز لیہ میں جلسہ عام سے خطاب کر رہے تھے۔
نیب عیب کے سوا کچھ بھی نہیں ہے: مخدوم جاوید ہاشمی
مستقل بزرگ لیڈر مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ ''نیب عیب کے سوا کچھ نہیں ہے‘‘ کیونکہ اس سے بڑا عیب اور کیا ہو سکتا ہے کہ مجھ سے ایک کروڑ ستر لاکھ کی انکوائری کرنا چاہتی ہے۔ حالانکہ اسے اچھی طرح سے معلوم ہے کہ روپیہ پیسہ ہاتھ کا میل اور سب کچھ یہیں پڑا رہ جائے گا۔ کیا سارا پیسہ میں اپنے ساتھ قبر میں لے جائوں گا ۔ جبکہ میں ان پیسوں کی وصولی سے انکار بھی کر چکا ہوں لیکن میری بزرگی کے باوجود اسے تسلیم ہی نہیں کیا جا رہا جبکہ عیب جوئی ایک قابل نفرت فعل ہے اور عیب پوشی کا حکم دیا گیا ہے۔ پتا نہیں ان لوگوں کو اپنی عاقبت کی فکر کیوں نہیں ہے جبکہ نواز شریف بے چارے کو 35 لاکھ کے لئے ذلیل کیا جا رہا ہے حالانکہ 35 ارب ہوتے تو کوئی بات بھی تھی کیونکہ ان پر اربوں سے کم کا الزام لگانا ویسے بھی ان کی توہین کے مترادف ہے۔ آدمی کو کم از کم آداب کا تو خیال رکھنا چاہئے۔ آپ اگلے روز ملتان سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
اور اب آخر میں اقتدار جاوید کی نظم:
پکا ہوا پھل
طبع مری عطار کا مرقد؍ جسم مرا صوفی کی بغچی؍ اک خشخاش جو اس کا مالک؍ کیا ڈھیری سے جڑ پائوں گا؍ جو کچھ طبع عطا کرتی ہے؍ وہ اشکال بنا لیتا ہوں؍ جس شے سے مٹی چھنتی ہو؍ دونوں ہاتھوں کو پھیلا کر؍ اس پر آہستہ سے رکھ کر ؍ پاک پو تر ہو جاتا ہوں؍ نہیں بہانہ کوئی بہانہ؍ جس کی خاطر اپنے آپ سے اوپر اٹھ کر؍ چھان پھٹک کرتے کرتے؍ چھلنی سے نیچے گر پائوں؍ حکم الٰہی سر ماتھے پر؍ یہ سرنامہ آنکھ کا تارا؍ نیند کا ریشم، صبح کی ٹھنڈک؍ ظہر کی گرمی سر ماتھے پر؍ وقت وسیلہ پائوں کے نیچے؍ جن باتوں کی یک رنگی کا رونا روکے؍ عمریں کچھ نہیں؍ جس یک رنگی کی تہہ کھودی؍ اس یک رنگی پر میں قرباں؍ اس سے نکلیںمخمل جیسی دن کی کرنیں؍ اس سے پھوٹا؍ ٹھنڈی روشنیوں کا ابد ابد جگمگ فوارہ؍ یہ فوارہ حکم الٰہی؍ ست رنگوں کا روشن دھارا؍ فرض کیا ہے جو کچھ میں نے اوپر ؍ اولیٰ، واجب؍ میں اس فرض پہ فرحاں شاداں؍ آپ لڑوں گا جنگ میں اپنی؍ میری چاروں سمتوں میں جو فوج کھڑی ہے؍ میں اس فوج کی کرچی کرچی کرتی؍ تلواروں کو دیکھوں گا؍ پکے ہوئے پھل کی صورت؍ اس جھولی میں گر جائوں گا؍ جس جھولی میں چھید بہت ہیں۔
..................
خموشی میں دراڑیں پڑ گئی ہیں
بھلا ہو یار تیرے قہقہے کا
مجھے آزاد کرنا ہے کسی کو
مرے زندان کی چابی کہاں ہے
آمد ورفت مکینوں کا ڈیرہ ہے زمانؔ
در و دیوار تو ہجرت نہیں کرنے والے
آج کامطلع
جو بھی شجر تھے برگ و ثمر کے بغیر تھے
خود مالک ِمکان بھی گھر کے بغیر تھے