تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     12-05-2018

’’وہ‘‘ کہیں پیچھے نہ رہ جائیں!

جو ذہن بناچکے ہوں، طے کرچکے ہوں کہ کچھ نہ کچھ کرنا ہے، کچھ نہ کچھ بن کے دکھانا ہے اُنہیں اپنے پورے وجود اور ماحول کو تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ یہ ناگزیر مرحلہ ہے۔ کسی مکان کو گرائے بغیر اُس جگہ نیا مکان تعمیر کرنا ممکن ہے؟ آپ کا جواب نفی میں ہوگا۔ یہی معاملہ زندگی کا بھی ہے۔ جو زندگی آپ بسر کر رہے ہیں اُس کے ہوتے ہوئے نئے ڈھنگ کی زندگی بسر کرنا ممکن نہیں۔ جس قدر بھی جی چاہیے جائزہ لے کر دیکھ لیجیے کہ کامیابی اُسی کو ملی ہے جس نے پہلے اپنے آپ کو تبدیل کیا ہے۔ اپنے وجود کو بدلے بغیر اپنے ماحول اور پھر دوسروں کے ماحول کو تبدیل کرنا کسی طور ممکن نہیں ہوا کرتا۔ 
اپنی زندگی اور اپنے ماحول کو بدلنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان کے سیٹ اپ میں سبھی کچھ تلپٹ ہو جائے۔ کوئی بھی بڑا مقصد آپ کو عام ڈگر سے ہٹنے کی تحریک دیتا ہے۔ بڑا کام عمومی طرز کی زندگی بسر کرتے ہوئے نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا بھر کے کامیاب ترین انسانوں کے حالاتِ زندگی پر نظر دوڑائیے، اندازہ ہو جائے گا کہ غیر معمولی کام کے لیے غیر معمولی ماحول پیدا کیے بغیر کوئی کچھ نہ کرسکا۔ 
ماحول بدلنے سے کیا مراد ہے؟ یہ سوال ہر اُس انسان کے لیے بہت اہم ہے جو دوسروں سے ہٹ کر نئی راہ نکالنا چاہتا ہے، اپنے وجود کی صلاحیت کا لوہا منوانا چاہتا ہے۔ ہم جس ماحول کا حصہ ہوتے ہیں اُس میں بہت سی باتوں کے عادی ہوکر رہ جاتے ہیں۔ بہت سی سہولتیں اور آسائشات آسانی سے میسر ہوں تو ہم اُن سے دست بردار ہونے کے لیے آسانی سے تیار نہیں ہوتے۔ کم ہی لوگ ہیں جو کچھ سوچتے ہیں اور پھر اُسے عملی جامہ پہنانے کے لیے اپنے کمفرٹ زون سے نکلنے پر راضی ہو پاتے ہیں۔ کسی بھی انسان کو عام ڈگر سے ہٹ کر کچھ کرنے پر کوئی اور راضی نہیں کرتا اور کر بھی نہیں سکتا۔ یہ فریضہ اُسے خود انجام دینا پڑتا ہے۔ کمفرٹ زون میں رہتے ہوئے کوئی بھی ایسا کام کرنا ممکن نہیں ہوتا جسے لوگ نوٹ کریں، سراہیں۔ ہم جو زندگی گزار رہے ہوتے ہیں اُس میں بہت سے معاملات میں، اپنی سہولت کی خاطر، سمجھوتہ بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ اِسی کا نام کمفرٹ زون ہے۔ اگر ہمیں اپنی صلاحیت یا وقعت سے کچھ کم بھی مل رہا ہو تو معاملات کو چلتا رکھنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ عمومی سطح پر ہم اِس بات کو اہمیت دیتے ہیں کہ ایک قدم آگے جاکر کچھ کرنا نہ پڑے۔ اگر کچھ زیادہ نہ کرنے کی ضرورت میں تھوڑا کم بھی مل رہا ہو تو ہم گزارا کرلیتے ہیں۔ اِسی کیفیت کو جمود بھی کہا جاتا ہے۔ 
کمفرٹ زون سے نکل کر زیادہ محنت کرنے کا ذہن بنانا ایک دشوار گزار مرحلہ ہوا کرتا ہے۔ کم لوگ ہی اِس کے متحمل ہو پاتے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے، لگی بندھی زندگی کو خیرباد کہتے ہوئے مشکلات کو گلے لگانا کسی کسی کو اچھا لگتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا بھی پڑتا ہے۔ لوگ کچھ کھوئے بغیر بہت کچھ پانا چاہتے ہیں۔ اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ معاملات جس طور چل رہے ہیں اُسی طور چلائے جاتے رہیں۔ 
اب سوال یہ ہے کہ کمفرٹ زون میں رہنا انسان کو اِتنا ہی پسند ہے تو پھر کسی نئے کام کی گنجائش کیونکر پیدا ہوتی ہے۔ جب کسی میں غیر معمولی صلاحیت پائی جاتی ہے اور وہ اُن صلاحیتوں کو پروان بھی چڑھا چکا ہو تو زیادہ کام کرنے کی، بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی گنجائش پیدا کرنا لازم ہو جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ انسان ہمیشہ ہی کچھ نیا کرنے یا زیادہ کرنے سے گھبراتا ہے۔ لوگ وقفے وقفے سے کچھ نہ کچھ نیا ضرور کرتے ہیں۔ ایسا نہ ہو تو زندگی کا دریا ٹھہرے ہوئے کیچڑ مائل پانی سے بھرے گڑھے یعنی جوہڑ میں تبدیل ہو جائے۔ انسان اپنی عقل کے مطابق کام کرتا ہے اور قدرت کا اپنا نظام ہے۔ دنیا کا کارخانہ اِسی طور چلتا رہتا ہے۔ لوگ صلاحیتوں کو پروان چڑھاتے اور اُنہیں بروئے کار لانے کے سرگرداں رہتے ہیں۔ ہر شعبے میں تنوع اِسی روش سے ممکن ہو پاتا ہے۔ 
جب کوئی یہ طے کرتا ہے کہ کمفرٹ زون سے نکل کر کچھ کرنا ہے تو وہ بہت کچھ چھوڑتا ہے۔ اپنے معمولات اور عادات میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ تعلقات کی نوعیت بدلنے پر بھی توجہ دینا پڑتی ہے۔ انسان کے پاس وقت کم ہے اور مقابلہ سخت ہے۔ بیک وقت بہت کچھ دیکھا اور کیا نہیں جاسکتا۔ بہت سوں کو ایک ساتھ خوش رکھنا ممکن نہیں۔ معاشی اور غیر معاشی زندگی کے فرق کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ دونوں کے درمیان توازن رکھنا بھی ناگزیر ہے۔ یہ کام خاصا مشکل سہی، ناممکن ہرگز نہیں۔ 
ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ لوگ کیریئر میں بہت آگے جانے کے لیے جن لوگوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیتے ہیں اُن میں اہلِ خانہ نمایاں ہوتے ہیں! انسان بہت کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے تو کیا صرف اپنے لیے؟ بھرپور کامیابی میں یقیناً بہت کچھ اپنے لیے ہوتا ہے مگر سب کچھ اپنے لیے نہیں ہوتا۔ انسان بھرپور کامیابی اص لیے حاصل کرنا چاہتا ہے کہ اہلِ خانہ کو زیادہ سے زیادہ آسودگی میسر ہو، ان کے معمولات میں توازن اور استحکام پیدا ہو، ان کا معیارِ زندگی بلند ہو۔ عمومی مشاہدہ یہ ہے کہ لوگ جب بڑی کامیابی کے حصول کے لیے سرگرداں ہوتے ہیں تو اہلِ خانہ، رشتہ داروں اور احباب کو تقریباً نظر انداز کردیتے ہیں۔ بہت سے لوگ جب کیریئر کو اپنی اولین ترجیح میں تبدیل کرتے ہیں تو اپنے قریب ترین ماحول یا دائرے کے تمام افراد سے معاملات ختم کرلیتے ہیں۔ دن رات اپنی ذات اور اپنی دنیا میں گم رہنے والے اپنے ماحول سے کٹ کر رہ جاتے ہیں۔ یہ تبدیلی کسی بھی اعتبار سے پسندیدہ اور قابل قبول نہیں۔ 
ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ اپنی ذات سے بڑھ کر اپنوں کے لیے ہوتا ہے۔ ہماری بھرپور کامیابی یقینی بنانے میں ان کا بھی کردار ہوتا ہے اور اِس کامیابی سے اُنہیں بھی فیض یاب ہونا ہی چاہیے۔ ایسا اُسی وقت ممکن ہے جب اُن سے تعلق برقرار رکھا جائے، اُنہیں زندگی کے حصے کے طور پر اپنایا جاتا رہے۔ کسی کے لیے کوئی بھی کامیابی کچھ مفہوم نہیں رکھتی اگر وہ اپنے اہلِ خانہ، رشتہ داروں اور احباب کو نظر انداز کردے۔ 
بہت سے لوگ زندگی بھر محنت کرتے ہیں۔ یہ سفر اُن کے لیے کسی بہت بلند پہاڑی چوٹی تک پہنچنے جیسا ہوتا ہے۔ مگر جب وہ وہاں پہنچتے ہیں تو خود کو تنہا پاتے ہیں۔ بات اِتنی سی ہے کہ اُنہیں خیال ہی نہیں رہتا کہ سفر میں سب کو یاد رکھنا اور ساتھ رکھنا ہے۔ ایسی بھرپور کامیابی کس کام کی جس سے انسان کے اپنے ہی مستفید نہ ہوسکیں؟ اپنے شعبے میں بھرپور کامیابی کے لیے زندگی بھر تگ و دَو کرنا اچھا عمل ہے مگر اِس عمل کے دوران اپنے قریب ترین حلقے کے لوگوں کو نظر انداز کرنا سب کچھ داؤ پر لگادینے کے مترادف ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved