کئی دنوں سے ملائشیا کے لیڈر مہاتیر محمد کا چرچا ہے۔ بانوے برس کی عمر میں پھر وزیر اعظم بن گئے۔ کئی زاویوں سے اس بڑی خبر کو دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی۔ ایک تو وہی زاویہ ہے، جو سب کو نظر آرہا ہے۔ مہاتیر نے کرپشن کے خلاف ایک نئی جنگ شروع کی۔ وزیر اعظم نجیب رزاق کی کرپشن کے خلاف سب نوجوان متحد ہوئے اور انقلاب برپا کر دیا۔ مجھے ملائشیا میں ہونے والی ان تبدیلیوں کو پڑھتے ہوئے ہالی وڈ کی خوبصورت فلم Vantage point یاد آئی جب ایک ہائی پروفائل قتل کو کئی زایوں سے دیکھا جاتا ہے۔ کمال فلم ہے۔
کہیں پڑھا تھا: انسان کی ایک بڑی خوبی بھولنا بھی ہے۔ لوگ اسے مرض کہتے ہیں۔ کم لوگ سمجھیں گے‘ بھولنا انسان کے لیے کتنا ضروری ہے۔ اگر انسان بھولنے کے مرض میں مبتلا نہ ہوتا تو کب کا پاگل ہو چکا ہوتا۔ وقت سب سے بڑا حکیم ہے، جو ہر زخم کو بھر دیتا ہے۔
اگر آپ پرانی بات بھولیں گے نہیں، تو پھر نئی بات آپ کے ذہن میں کیسے جگہ بنائے گی؟ یہ ساری فلاسفی اس لیے یاد آرہی ہے کہ ملائشیا کے لوگ اگر نہ بھولتے ہوتے، تو شاید مہاتیر محمد کی اس ڈیل کو قبول نہ کرتے جو انہوں نے اپنے بڑے دشمن اور جیل میں قید سابق ڈپٹی وزیر اعظم انور ابراہیم کے ساتھ کی۔ انور ابراہیم نے جب پر پرزے نکالنے شروع کیے تو مہاتیر نے اسے جیل بھیجا اور نیا لیڈر پیدا کیا، جس کا نام نجیب رزاق تھا۔ آج نجیب رزاق کو گرانے کے لیے انور ابراہیم کو ساتھ ملا لیا۔ اب اس میں کس کا قصور ہے؟ مہاتیر محمد کا، جس نے دو دفعہ ایسے ساتھیوں کو ملک کے بڑے عہدے دیے، جنہوں نے بعد میں ملائشیا کے عوام کو دھوکے دیے اور کرپٹ نکلے یا پھر انور ابراہیم اور نجیب کا‘ جنہوں نے مہاتیر کی ریٹائرمنٹ کے بعد عوام کے اعتماد کو دھوکا دیا؟ انور ابراہیم اگر اخلاقی مجرم نکلا تو نجیب مالی طور پر کرپٹ۔ تو کیا مہاتیر سے بھی بندوں کے انتخاب میں غلطی ہوئی؟ پہلے مہاتیر کا لگایا ہوا ڈپٹی وزیر اعظم انور ابراہیم غلط نکلا، تو اب وزیر اعظم نجیب رزاق۔ سیاست بھی عجیب داستان ہے۔ پتا نہیں چلتا کب آپ دوست تھے اور کب دشمن۔ کبھی کبھار آپ کو دو دشمنوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ ایک طرف سانپ تو دوسری طرف اژدھے کو اپنے ساتھ بستر پر سلانے میں سے ایک آپشن ہوتا ہے۔
مہاتیر کی عجیب سی کہانی ہے۔ جب اقتدار میں تھا تو اسے سخت گیر کہا گیا۔ چوبیس برس تک سخت ہاتھ سے ملائشیا پر حکومت کی۔ بلاشبہ ملائشیا کو اپنے پائوں پر کھڑا کیا۔ ترقی دی۔ عوام کا اعتماد جیتا اور پھر اپنے ہی ڈپٹی وزیر اعظم انور ابراہیم کے ساتھ اختلافات ہوئے۔ اسے جیل میں ڈالا۔ انور ابراہیم کا پتا صاف کرنے کے لیے نجیب رزاق کو آگے کیا۔ دو تین برس پہلے نجیب سے اختلافات ہوئے، جو شدید ہوتے گئے تو بوڑھے گرو کو خیال آیا کہ نجیب بھی دوسرا انور ابراہیم نکل آیا ہے۔
اب کیا آپشن تھا؟ کسی تیسرے پر ہاتھ رکھا جاتا اور نیا دھوکا کھایا جاتا؟ یا چپ چاپ ریٹائرمنٹ کی زندگی گزاری جائے۔ مہاتیر کو محسوس ہوا اس نے نجیب پر اعتماد کرکے غلطی کی تھی۔ ایک سکینڈل آیا تو پتا چلا نجیب نے قریباً سات سو ملین ڈالرز کے قریب اپنے بینک اکاونٹ میں ٹرانسفر کرایا تھا۔ نجیب نے اپنی فلاسفی مہاتیر کو بتائی کیش از کنگ۔ نجیب نے سب کو خرید لیا۔ پیسے کی طاقت استعمال کی اور روز بروز طاقتور ہوتا گیا۔ مہاتیر تک یہ سب خبریں پہنچ رہی تھیں۔ مہاتیر کو محسوس ہوا اس کے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔ اسے بانوے برس کی عمر میں اب کفارہ ادا کرنا تھا۔
مہاتیر اور اس کے پرانے دشمن انور ابراہیم کے درمیان رابطے شروع ہوئے۔ وہی انور جسے مہاتیر نے جیل بھیجا تھا۔ انور اور مہاتیر نے ماضی کو بھول جانے کا فیصلہ کیا۔ راتوں رات دونوں میں ڈیل ہوئی کہ اگلا الیکشن اکٹھے لڑا جائے۔ ڈیل کے مطابق مہاتیر پہلے دو سال وزیر اعظم رہیں گے۔ وہ شاہی فرمان کے ذریعے انور ابراہیم کو معافی دلا کر اسے دو برس بعد وزیر اعظم بنائیں گے۔ دونوں کا مشترکہ دشمن اب نجیب رزاق تھا۔
آپ غور کریں تو پاکستان میں بھی یہی کچھ ہوتا آیا ہے۔ یہاں بھی سیاست کے رنگ بدلتے رہتے ہیں۔ زیادہ پیچھے نہ جائیں۔ آپ اگر نواز شریف کے بینظیر بھٹو بارے خیالات سنیں یا جو کچھ انہوں نے فاروق لغاری کے بارے میں جا کر چوٹی زیریں کہا تھا کہ یہ انگریزوں کے کتے نہلانے والے لوگ ہیں اور بعد میں ان سب نے ایک دوسرے سے کمپرومائز کیے، تو آپ حیران ہوں گے۔ بینظیر بھٹو انیس سو ننانوے میں پاکستان نواز شریف کی وجہ سے چھوڑ گئی تھیں۔ نواز نے ہی جسٹس قیوم کو فون پر حکم جاری کرکے بینظیر بھٹو اور زرداری کو سات برس سزا کا حکم لکھوایا تھا۔ پھر کیا ہوا؟
دو برس بعد بینظیر بھٹو اور زرداری اسی نواز شریف سے ملنے جدہ سرور پیلس مسکراتے ہوئے کیمرے کے سامنے پوز دے رہے تھے۔ بی بی کو بھی مہاتیر والی صورت حال کا سامنا تھا۔ جنرل مشرف اب مشترکہ دشمن تھا۔ بعد میں لندن میں نواز شریف اور بی بی نے میثاق جمہوریت کے نام پر ایک معاہدہ سائن کیا۔ بی بی کو پتا تھا کہ وہ جنرل مشرف پر دبائو بڑھا کر ڈیل لے سکتی ہیں۔ نواز شریف کو یہ معلوم تھا کہ وہ بی بی کا دبائو ڈال کر اپنے لیے کچھ فیورز لے لیں گے۔
بی بی نے امریکہ کی مدد سے جنرل مشرف سے ڈیل لی تو نواز نے سعودی عرب کی مدد سے۔ پھر دونوں واپس لوٹے۔ بی بی کے قتل کے بعد زرداری اور نواز کی ڈیل ہوئی۔ ایک دن ہم نے دیکھا زرداری رائے ونڈ بیٹھے ستر ڈشز کھا رہے ہیں‘ جبکہ شہباز شریف کہتے تھے میں زرداری کو لاہور کی گلیوں میں گھسیٹوں گا۔ دونوں نے ایک دوسرے کی نسلوں تک دوستی اور تعلق نبھانے کے دعوے کیے۔ آج کل زرداری اور نواز شریف کے ایک دوسرے بارے خیالات آپ سب جانتے ہیں۔ صرف چند برس قبل ان کی جدہ سے جاری تصویریں یا لندن کے دنوں میں پی پی پی، نواز لیگ کے معاہدے کے وقت دانت نکالے فوٹو دیکھیں، تو آپ کو یقین نہ آئے کہ اس دنیا میں یہ کچھ بھی ہوتا ہے۔
جن سیاستدانوںکو نواز شریف جنرل مشرف کا ساتھ دینے پر برا بھلا کہتے تھے، وہ اب ان کے دائیں بائیں ہوتے ہیں۔ اس وقت مشاہد حسین سے جب کوئی پوچھتا: آپ نے جنرل مشرف کا ہاتھ تھام لیا؟ نواز شریف کو دھوکا دیا، تو وہ آگے سے چڑچڑے ہوکر جواب دیتے تھے کہ جناب دھوکا تو نواز شریف نے دیا تھا، وہ جدہ بھاگ گئے تھے، ہم سب کو اکیلا چھوڑ کر۔ آج دوبارہ ایک جان بن چکے ہیں۔
دوسری طرف یہی کچھ ہم نے عمران خان میں دیکھا۔ اس نے بھی دوست اور دشمن بدلنے میں دیر نہیں لگائی۔ جن قوتوں کے خلاف وہ کھڑا ہوا، آخر ان کے ساتھ ہی الحاق کر لیا۔ اگرچہ عمران خان کو ہمیشہ شک کا فائدہ ملتا رہے گا کہ وہ ابھی پی پی پی اور نواز لیگ کی طرح تین تین بار حکومت میں نہیں رہا اور نہ ہی وہ وزیر اعظم بنا ہے۔ لوگ بھی اس کی سیاسی قلابازیاں اور کمپرومائز اس لیے نظرانداز کیے جا رہے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں‘ اسے ایک چانس ملے۔ لیکن ڈر وہی رہتا ہے ،جن لوگوں نے نواز اور زرداری کو لوٹ مار میں مدد دی‘ وہ عمران خان کی کیسے مدد کر سکتے ہیں؟
یہ بات طے ہے کہ یہ سیاسی لیڈرز خوش قسمت ہیں، عوام کی بھولنے کی صلاحیت بہت تیز ہے۔ اگر یہ عوام ان سیاستدانوں کی صرف ذاتی مفادات پر کیے گئے، کمپرومائزز کو یاد رکھتے، ان کے احمقانہ فیصلے، دعوے اور وعدے یاد کرتے تو آج یہ سب سیاستدان تاریخ کا حصہ بن چکے ہوتے۔
ان چالاک سیاسی لیڈروں نے انسان کی اس خوبی کہیں یا خامی سے فائدہ اٹھایا ہے کہ لوگ بھول جاتے ہیں۔ لوگ ملائشیا میں بھی بھول گئے کہ انور ابراہیم کو جیل مہاتیر نے ہی بھیجا تھا جسے وہ معافی دے کر اب ڈپٹی کی بجائے پورا وزیر اعظم بنائے گا۔ لوگ بھول گئے کہ شہباز شریف نے زرداری کو لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹنا تھا اور عمران خان نے کرپٹ ٹولے کو ساتھ ملانے کی بجائے ان کا احتساب کرنا تھا۔
مہاتیر کو بھی کفارہ ادا کرنا تھا۔ ڈپٹی وزیر اعظم انور ابراہیم کو جیل بھیجنا تھا تو مہاتیر محمد نے اخلاقیات کا سہارا لیا۔ اب وزیر اعظم نجیب کو ہرا کر جیل بھیجنا تھا، تو کرپشن کا نعرہ لگایا۔
لوگ ملائشیا میں بھی بھول جاتے ہیں، لوگ پاکستان میں بھی بھول جاتے ہیں!