تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     25-03-2013

’’فنڈنگ‘‘ اللہ کی طرف سے ہو تو اچھا!

اقوام متحدہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار کو اسلامی دُنیا کے پس ماندہ مُلک سُوڈان بھیجا گیا۔ مقصود صرف یہ معلوم کرنا تھا کہ شدید پس ماندگی کے عالم میں اہل سُوڈان کی گزر بسر کیسے ہوتی ہے۔ انہوں نے یومیہ تجارت پیشہ، اُجرت پانے والے اور تنخواہ دار سُوڈانیوں سے پوچھا: گزارا کیسے ہوتا ہے؟ جواب ملا مہنگائی زیادہ ہے، تنخواہ، اُجرت یا کِسی اور شکل میں ملنے والی آمدن تو تیسرے ہفتے ہی میں ختم ہو جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کے عہدیدار نے پوچھا: پھر باقی سات آٹھ دن گزارہ کیسے ہوتا ہے؟ جواب آیا اللہ کریم! ہر طرف سے یہی جواب پایا تو اُس عہدیدار نے اپنے افسران بالا کو لکھا: ’’سُوڈان میں بہت غربت ہے۔ لوگ اپنی آمدن میں بمشکل تین ہفتے گزارہ کر پاتے ہیں۔ کوئی ’اللہ کریم‘ ہے جو مہینے کے آخری عشرے میں سب کے لیے ’فنڈنگ‘ کا اہتمام کرتا ہے‘‘ جو لوگ اللہ کریم سے لَو لگاتے ہیں اور اُسی ذات سے کرم کی بھیک مانگتے رہتے ہیں وہ یونہی برکت پایا کرتے ہیں یعنی گزارہ مشکل ہو تب بھی شُکر گزار رہتے ہیں۔ اور ایک ہم ہیں کہ جہان بھر کی نعمتیں پاکر بھی اللہ کے شُکر گزار بندوں میں شمولیت کا اعزاز پانے کی کوشش تک نہیں کرتے۔ جن چند محاوروں کو پاکستانیوں نے اپنے ذہن سے کھرچ کر پھینک دیا ہے اُن میں ’’چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا‘‘ بھی شامل ہے، بلکہ نُمایاں ہے۔ چادر دیکھے بغیر پاؤں پھیلانے کی روش پر گامزن رہنے ہی کا یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ اب ہم ساری دُنیا کے سامنے جھولی پسارے رہتے ہیں۔ زلزلہ آئے یا سیلاب، ہاتھ پھیلانے میں دیر نہیں لگائی جاتی۔ اللہ کریم سے آس لگانے والوں کو تھوڑے میں بھی بہت مِلتا ہے۔ وہ کم کھاکر بھی سیری کا احساس پاتے اور اللہ کا شُکر بجا لاتے ہیں۔ اور جنہیں شُکر ادا کرنے کے آداب سِکھائے ہی نہ گئے ہوں وہ جتنا کھاتے ہیں اُس کا دُگنا یا تِگنا کچرے کے ڈھیر پر پھینک کر اللہ کے غضب کو دعوت دیتے ہیں۔ کِسی گھر میں کِتنا پکنا چاہیے؟ ظاہر ہے اُتنا جتنا اُس گھر کے لوگ کھاتے ہیں۔ بھارت زیادہ دور نہیں، ہمارے پڑوس میں ہے۔ وہاں آج بھی بُھوسی ٹکڑے والے خال خال دِکھائی دیتے ہیں۔ گھر والوں کو جتنی روٹیاں درکار ہوں اُتنی بلکہ اُس سے ایک دو کم ہی پکائی جاتی ہیں۔ جب روٹی بچے گی ہی نہیں تو پھینکنے یا بیچنے تک نوبت کیسے پہنچے گی؟ سُوڈانی عقل مند ہیں کہ تین ہفتوں میں کمائی ختم ہونے پر معاملہ اللہ کے حوالے کردیتے ہیں۔ اور جب معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہو تو خرابی کی کوئی گنجائش نہیں۔ ہماری حالت یہ ہے کہ جو تنخواہ ابھی ہاتھ میں نہ آئی ہو یا بینک اکاؤنٹ میں نہ پہنچی ہو اُسے دَھڑلّے سے خرچ کر بیٹھتے ہیں۔ مہمان آ جائیں اور گھر میں کچھ زیادہ سامان نہ ہو تو فکر کی کوئی بات نہیں۔ گلی کا دُکاندار حاضر ہے، جی بھر کے اُدھار لیجیے۔ تنخواہ آئے گی تو دیکھا جائے گا۔ اور پُوری تنخواہ بھی اُدھار چُکانے میں کَھپ جائے تو کوئی غم نہیں۔ نیا مہینہ اور نیا اُدھار۔ تنخواہ جب آئے گی تب آئے گی، دُکاندار کہیں بھاگا تھوڑی جارہا ہے۔ وہ اُدھار کی گنگا بہاتے رہنے پر آمادہ ہے۔ آپ اشنان فرماتے رہیے۔ ؎ بُری یا بھلی سب گزر جائے گی یہ کشتی یونہی پار اُتر جائے گی لُطف اِس بات کا نہیں کہ اُدھار پر زندگی بسر ہو رہی ہے بلکہ لطیفہ یہ ہے کہ جی بھر کے اُدھار کھاتے پیتے رہنے کے باوجود خوش گمانی یہ ہے کہ ’’ہم ہیں پاکستانی، ہم تو جیتیں گے!‘‘ ہر محاذ پر شکست سے دوچار ہوکر، مُردوں کی طرح جئے جانے پر بھی خوش فہمی یہ ہے کہ ہم زندہ قوم ہیں، پائندہ قوم ہیں۔ ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی سے نشر ہونے والے مِلّی نغموں نے ایسا فُسوں پھونکا ہے کہ ہَما شُما کی تو اوقات کیا، ہم امریکا کو بھی پیروں تلے روندنے کا عزم رکھتے ہیں۔ عمل چاہے دو ٹکے کا نہ ہو، خوش فہمی اور خوش خیالی کی دُنیا آباد ہے۔ دُنیا ہے کہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور ہم اپنی پس ماندگی کی مارکیٹنگ پر تُلے ہوئے ہیں۔ زندگی بھر اُدھار کے سہارے ’’اِیک گونہ بے خودی‘‘ کا اہتمام کرنے والے مرزا غالبؔ نے کہا تھا ع رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن غالبؔ کی فاقہ مستی رنگ لاکر رہی۔ قدرت نے ہمیں بھی استثنیٰ نہیں دیا۔ ہماری فاقہ مستی بھی رنگ لاچکی ہے اور رنگ بھی ایسا پَکّا کہ چُھٹائے نہ چُھٹے۔ ایک دُنیا ہے کہ دیکھ دیکھ کر حیرت کے سمندر میں غوطے کھا رہی ہے۔ پاکستانی قوم کِسی کی سمجھ میں نہیں آ رہی۔ معاشرے میں ہر طرف خرابیاں ہیں اور اِن خرابیوں کے تدارک پر غور کرنے کے بجائے لوگ اِن سے محظوظ ہو رہے ہیں۔ روز مرہ اعمال اور معاشی تگ و دَو کے صِلے میں برکت مانگنے کے بجائے لوگ چیل کوّوں کی طرح پنجہ مار کر سب کچھ اپنے دامن میں ڈال لینے پر کمربستہ ہیں۔ رات دن حرام کھانے والوں کی شامتِ اعمال دیکھ کر بھی کوئی سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔ حرام اور حلال کا فرق سمجھنے اور نتائج دیکھنے کے باوجود لوگ حرام کو گلے لگانے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ تماشا یہ ہے کہ لوگ حلال کی طرف جانے سے صاف گریز کر رہے ہیں اور جب اُلٹے سیدھے ذرائع سے بہت کچھ جمع ہو جاتا ہے تو اُسے اللہ کا فضل قرار دینے پر تُل جاتے ہیں۔ دیدہ دلیری کی انتہا یہ ہے کہ ناجائز ذرائع سے کمانے والے بھی جب تین چار منزلہ عمارت کھڑی کرتے ہیں تو اُس کی پیشانی پر ’’ہٰذا مِن فَضل رَبّی‘‘ لِکھوکر اپنی بد اعمالیاں اللہ کریم کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ یہ سب دیکھ کر اللہ کریم کے جلال کا کیا عالم ہوتا ہوگا، اِس کا اندازہ ہم سب بخوبی لگا سکتے ہیں۔ اے کاش ہم سُوڈان اور دیگر پس ماندہ مسلم ممالک کے لوگوں سے کچھ سیکھیں۔ وسائل کی کمی کو اللہ کی برکت سے پورا کرنا ہی دانش کا تقاضا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے بھی ہماری یہ کمی پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اِس کے جواب میں وہ ہم سے غیرت، حمیت، اخلاص، وطن دوستی، فیصلہ کرنے کی صلاحیت … سبھی کچھ لے اُڑتے ہیں۔ جب معاملات اللہ کے حوالے کیے جاتے ہیں تو جواب میں کوئی conditionality اطلاق پذیر نہیں ہوتی۔ اللہ کریم ہر حال میں ہمارا بھلا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے کرم کے عوض ایسی کوئی شرط عائد نہیں کرتے جس کی تعمیل میں ہمیں اپنی غیرت اور حمیت سے محروم ہونا پڑے یا ہمارے وجود کی سرحد تبدیل ہو۔ ضرورت پڑنے پر فنڈنگ کِسی سے بھی کرائی جاسکتی ہے۔ مگر اللہ کریم کی فنڈنگ میں پوشیدہ شرائط نہیں ہوتیں۔ عالمی بینک ہو، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یا کوئی اور ادارہ، ضرورت کے وقت فنڈنگ تو کرسکتا ہے مگر کریم نہیں ہوسکتا‘ جو ہماری ضرورت بھی پوری کرے اور کریم بھی ثابت ہو‘ وہ تو صرف اللہ کی ذات ہے۔ جو ایک سے نہیں مانگتے وہ سب سے مانگتے رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ جو ایک دَر کے نہیں ہوتے وہ دَر دَر کے ہو رہتے ہیں! رہے نام اللہ کا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved