تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     13-05-2018

سات ارب منفرد انسان

جیسا کہ کل لکھا، دنیا میں موجود سات ارب انسانوں میں سے ہر ایک منفرد ہے ،uniqueہے ۔ اس کے ماں باپ ، ماں باپ میں سے ایک یا دونوں سے اس کی قربت ، ان کی شخصیات سے اس کا متاثر ہونا ، اس کے دوست ، اس کی تکلیفیں ، اس کی آسائشیں دوسروں سے بالکل مختلف ہیں ،ہر ایک کو پیش آنے والے حالات منفرد ہیں ۔ حتیٰ کہ دو سگے بھائیوں کی ذہنی صلاحیت، ان کے خوف ، ان کی inspirationsاوران کا مزاج ایک دوسرے سے مختلف ہوتاہے ۔ ہر شخص کی شخصیت دوسرے سب انسانوں سے مختلف ہوتی ہے ۔ اسی طرح زندگی میں ہر شخص کو پیش آنے والی آزمائشیں دوسروں سے مختلف ہیں ۔ہر شخص کو پیش آنے والے حادثات دوسروں سے مختلف ہوتے ہیں ۔ہر شخص کو زندگی میں ملنے والے اساتذہ مختلف ہوتے ہیں ۔ہر شخص کی صلاحیتیں دوسروں سے مختلف ہیں ۔دو بھائیوں میں سے ایک جو کہ پڑھنے لکھنے میں دوسرے سے کہیں بہتر ہے، زمینوں اور جانوروں کی خرید و فروخت کے معاملات میں وہ با آسانی دھوکہ کھا جاتاہے ۔ہر شخص کو زندگی میں ملنے والے مواقع، Opportunitiesدوسروں سے مختلف ہیں ۔ ہر شخص کو اپنے uniqueحالات میں زندگی گزارنے کے لیے وہ فیصلے کرنے ہوتے ہیں ، جو کوئی اور نہیں کر سکتا۔ اسی لیے ایک بہت بڑے دانشور نے کہا تھا : Life is the most difficult exam. many people fail because they try to copy others, not realizing that everyone has a different question paper۔ زندگی سب سے مشکل امتحان ہے ۔ بہت سے لوگ دوسروں کو نقل کرنے کی کوشش کرتے اور ناکام ہو جاتے ہیں۔ انہیں یہ علم نہیں ہوتا کہ ہر شخص کے پاس موجود سوالیہ پرچہ دوسروں سے مختلف ہے ۔ اگر انسان اپنے uniqueحالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی زندگی کے uniqueفیصلے نہ کرے تو پھر وہ حالا ت کے رحم و کرم پر ہوتاہے ۔ پھر یا تو حالات اس کے لیے فیصلے صادر کرتے ہیں یا وہ دوسروں کے فیصلوں پر منحصر ہوتاہے ۔ 
زندگی میں سب سے زیادہ آسان کام دوسروں کے بارے میں رائے دینا ہے ۔ دوسروں پر judgement پاس کرنا ہے ۔ جب کہ خود کوئی کام کر کے دکھانا سب سے مشکل کام ہے ۔ جب تک انسان ایک کام کرنے کی کوشش نہیں کرتا، تب تک اسے اس کی مشکلات کا اندازہ بھی نہیں ہو سکتا ۔مثال کے طور پر ایک نیا کاروبار شروع کرنا۔ آپ کے پاس جو جمع پونجی ہے ، اسے ضائع کرنے کا خطرہ مول لینا ،یہ ایک ایسا خوفناک تجربہ ہے کہ زیادہ تر لوگ کبھی یہ خطرہ مول ہی نہیں لیتے بلکہ اکثریت نوکری کو ترجیح دیتی ہے ۔ ایک شخص جو کہ پہلے ایک منصوبہ بناتا ہے۔ پھر اس کے لیے سرمایہ اکھٹا کرتاہے ، جو کہ سب سے زیادہ مشکل کام ہے ۔ پھر وہ سامان خریدتا ہے ۔دکان لیتا ہے ۔ پھر ملازم رکھتاہے ۔ پھر لوگوں کے ساتھ لین دین، دکانداری شروع کرتاہے ۔اس کا سب کچھ دائو پر لگا ہوتاہے ۔ جب کہ جو شخص نوکری کر رہا ہے ، اس کا کچھ بھی دائو پر نہیں لگا ہوتا ۔ اسے ہر مہینے ایک مقررہ تنخواہ موصول ہوجاتی ہے ۔ جب کہ ناکامی کی صورت میں کاروبار شروع کرنے والے کی تمام تر جمع پونجی ہی نہیں جاتی ، اس کی سواری ، زیور اور تن کے کپڑے بھی چلے جاتے ہیں ۔پھر ناکامی کی صورت میں نقصان برداشت کرنا ۔ دوبارہ کوشش کرنا ، یہ انتہائی ہمت کا کام ہوتاہے اور بہت دل گردہ رکھنے والا شخص ہی یہ کر سکتاہے ۔ اکثریت تو خوفزدہ ہو کر ہمیشہ کے لیے تائب ہو جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کامیابی کی صورت میں پھر مالک کا منافع تمام ملازمین کی مجموعی تنخواہوں سے کہیں زیادہ ہوتاہے ۔ 
انسانی نفس کی جو تشکیل ہے ، اس میں حسد بہت نمایاں ہے ۔ حسد کیا ہے ؟ یہ دوسروں کو ملنے والی نعمت سے پیدا ہونے والا غم ہے ۔یہ دوسروں کو پہنچنے والے نقصان سے پیدا ہونے والی خوشی ہے ۔ دوست احباب، رشتے دار ، گائوں ، محلے، شہر اور ملک میں رہنے والے ان گنت لوگوںمیں ان گنت صلاحتیں موجود ہوتی ہیں ۔ کوئی ایک میدان میں اپنے جھنڈے گاڑ تاہے تو دوسرا دوسرے میدان میں ۔ ان سب لوگوں میں سے فضول ترین شخص وہ ہوتاہے ، جو خود توکچھ نہیں کر پاتا اور نہ ہی زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے اس کے پاس کوئی پلان ہوتاہے ۔یہ شخص دوسروں پر فوراً رائے دیتا، judgementپاس کرتا چلا جاتاہے ۔ دوسروں کو پہنچنے والے نقصان پر خوشی سے یہ تالیاں بجاتا ہے اور ان کی کامیابیاں اسے آزردہ کر دیتی ہیں ۔ یہ بدترین انسانی روّیوں میں سے ایک ہے۔ یہ لوگ کبھی بھی اس بات کو نہیں سمجھ سکتے کہ ان کے پاس موجود سوالیہ پرچہ اس شخص کے سوالیہ پرچے سے بالکل مختلف ہے ، جس پر وہ نظریں جمائے بیٹھے ہیں ۔ 
تعصبات انسان کو بالکل اندھا کر دیتے ہیں ۔ اس کی تجزیہ کرنے کی صلاحیت خاک میں مل جاتی ہے ۔مثال کے طور پر ہمارے پاس ایسے دانشور موجود ہیں ، جن کا کہنا یہ ہے کہ پاک فوج نے ہمیشہ جان بوجھ کر بھارت سے کشیدگی برقرار رکھی تاکہ ایک بڑا دفاعی بجٹ حاصل کیا جا سکے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاک فوج کا بجٹ کس قدر بڑ ھ سکتاہے ۔کیاآپ کو کوئی اندازہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کی فوجوں میں دفاعی اخراجات کا فرق کس خوفناک حد تک بڑھ چکا ہے ؟ پاکستان کا دفاعی بجٹ اس وقت اپنے عروج پر پہنچ کر 10ارب ڈالر سے کم ہے ۔ جب کہ بھارت کا دفاعی بجٹ 56ارب ڈالر ہے ۔ اب آپ اندازہ لگائیں کہ 10ارب ڈالر والی فوج نے جان بوجھ کر کشیدگی برقرار رکھی ہوئی ہے تاکہ 56ارب ڈالر والی فوج سے کشیدگی برقرار رکھی جائے ۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہ افغانستان پر سویت یونین اور پھر امریکہ کی یلغار میں بھی پاکستانی فوج کی رضامندی بلکہ خواہش شامل تھی ۔کیا''اکھنڈ بھارت ‘‘کا نعرہ اس کشیدگی کی وجہ نہیں ۔کیاتقسیم سے بھارتی لیڈروں کا انکار اس کشیدگی کی وجہ نہیں ۔کیابھارت نے کشمیر پر قبضہ نہیں کیا۔کیا بھارت نے ہمیشہ پاکستان کا وجود خطرے میں نہیں ڈالے رکھا۔ کیابھارت نے پہلے ایٹمی ہتھیار نہیں بنائے؟ لیکن جو شخص اپنی نفرت میں اندھا ہو چکا ہے ، اسے آپ کبھی بھی کچھ سمجھا نہیں سکتے بلکہ جو عینک اس کی آنکھوں پر لگی ہوئی ہے ، اس نے اسی سے سب کچھ دیکھنا ہے ۔ اسی طرح جب کسی شخص کو آپ نفرت کی عینک لگا کر دیکھیں گے تو کبھی بھی اس کی کوئی خوبی آپ کو نظر نہیں آ سکتی ۔
سرکارؐ نے فرمایا تھا: جب سے انسان اس دنیا میں آیاہے ، اس نے عافیت سے بہتر کوئی دعا نہیں مانگی ۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا: عافیت گمنامی میں ہے ۔ گمنامی نہ ہو تو تنہائی میں ۔ تنہائی نہ ہو تو خاموشی میں ۔ خاموشی نہ ہو تو صحبتِ سعید میں ۔ ہر شخص کے پاس عافیت میں رہنے کی آپشن موجود نہیں ہوتی ۔کچھ کو میدان میں اترنا پڑتاہے ۔ اپنے لیے ، اپنے بیوی بچوں کے لیے ، اپنے قبیلے اور اپنے ملک کے لیے اسے عافیت کے سائے سے باہر نکلنا پڑتا ہے ۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved