تحریر : حافظ محمد ادریس تاریخ اشاعت     15-05-2018

رمضان کی عالمی برکات!

ماہ رمضان کئی سالوں سے شدید گرمی کے موسم میں آتا ہے۔ روزہ دار کے لیے ان دنوں میں مشقت اپنی جگہ بڑی صبر آزما ہوتی ہے مگر اس کا لطف بھی اپنا ہی ہوتا ہے اور پھر افطار کے وقت میں جو اجر اور خوشی ملتی ہے اس کا کیا بدل ہوسکتا ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں رمضان المبارک جب جولائی اگست کے مہینوں میں آتا تھا تو یورپ اور بالخصوص برطانیہ کے احباب اپنے ہاں مختلف دعوتی، تبلیغی اور تربیتی نشستوں کا اہتمام کرتے تھے۔ وہ اب بھی یہ سارے کام کرتے ہیں۔ مجھے خصوصی طور پر ان پروگراموں میں شرکت کی دعوت ملتی تھی۔ چند سالوں کے لیے میں رمضان کے بیشتر ایام احباب کیساتھ وہیں گزارتا تھا۔ دعوت اب بھی آتی ہے مگر ہمتِ سفر نہیں، بیرونِ ملک رمضان میں ہمیشہ وطن کی یادیں آتی رہتیں۔ ایک رمضان کا تذکرہ ڈائری میں دیکھا تو سوچا کہ اسے قارئین کی نذر کردوں۔ 
2؍ اگست منگل کے روز رمضان المبارک کا دوسرا دن تھا۔ طویل دن کے روزے موسم کے خوشگوار ہونے کی وجہ سے بہت آسان معلوم ہو رہے تھے۔ پاکستان کے روزے کا تصور ذہن میں آتا تو احساس ہوتا کہ اہلِ وطن روزہ دار شدت کی اس گرمی میں بجلی کی مسلسل لوڈشیڈنگ اور طویل دنوں کی وجہ سے کس قدر نڈھال ہوجاتے ہوں گے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ کہ جو مشقت اٹھاتے ہیں مگر اللہ اور اس کے رسول کے احکام پر کاربند ہونے کی سعادت سے محروم نہیں ہونا چاہتے۔ بد قسمت ہیں وہ لوگ جو تساہل، ایمان کی کمزوری، نفس کی اکساہٹ اور شیطان کے بہکاوے کا شکار ہو کر عارضی آرام کوشی کے لیے اللہ کے غضب اور دائمی عذاب کو دعوت دیتے ہیں۔ ماحول کا بھی انسانوں کے اعمال پر بڑا اثر ہوتا ہے۔ نیکی کے ماحول میں برائی کرنا مشکل اور نیک عمل آسان ہوجاتا ہے جبکہ ماحول میں برائی کا غلبہ ہو تو نیکی مشکل اور برائی آسان محسوس ہوتی ہے۔ 
یورپ میں یہ خوش نما منظر نظر آتا ہے کہ مسجدیں آباد ہیں۔ روزہ داروں کی بڑی تعداد اور مسجدوں میں نمازیوں کی چہل پہل سے بڑا حوصلہ ملتا ہے۔ بت کدے میں پیغامِ توحید خوش آئند اور امید افزا ہے۔ آج دوسرے روزے کے دن بھی ظہر کی نماز میاں لعل اختر صاحب کی معیت میں مسجد ابراہیم میں ادا کرنے کی سعادت ملی۔ نمازوں کے بعد نوجوان اسلامی تعلیمات کے لیے مختصر مجلس کا انعقاد اور انگریزی میں تذکیر کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ بہت مفید کاوش ہے۔ آج افطار کا پروگرام قریبی شہر بلیک برن کی مسجد نور میں تھا۔ اس مسجد کا آغاز تو یوکے اسلامک مشن کے ساتھیوں نے کیا تھا، لیکن بعد میں تبلیغی بھائیوں نے اس کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ البتہ رکن جماعت اسلامی مولانا ظہیر الدین شاہ صاحب کی شخصیت کا اب بھی اس مسجد کے معاملات میں مؤثرعمل دخل ہے۔ 
شاہ صاحب کا خانوادہ قدیم علمائے دیوبند سے تعلق رکھتا تھا۔ ان کے آباو اجداد ضلع گجرات میں ہمارے گائوں کے قریب ایک گائوں کسانہ میں مقیم ہوگئے۔ ہمارے بزرگوں سے ان کا قریبی تعلق و رابطہ تھا۔ ہمارے بزرگان ہی کی کاوشوں سے پورا گھرانہ جماعت اسلامی میں شامل ہوا۔ ہمارے ایک عزیز نوجوان جناب ادریس محمود خان بھی یہاں کچھ عرصے سے مقیم ہیں جو بہت فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ وہ جمعیت کے رکن رہے ہیں اور آج کل حلقہ احباب یو کے کے صدر ہیں۔ ادریس خان میرے دور طالب علمی کے دوست اور رکن جمعیت انجینئر محمود خان کے صاحب زادے ہیں۔ محمود صاحب حال ہی میں واپڈا سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ یو کے اسلامک مشن کی سالانہ کانفرنس میں محمود صاحب سے بھی ملاقات ہوئی تھی ،مگر اب وہ پاکستان جاچکے تھے۔ 
محمود بھائی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد کافی عرصہ بسلسلہ ملازمت لاہور میں مقیم رہے۔ اس دوران ان کی رہائش منصورہ یا قریب کی آبادیوں میں رہی۔ ادریس خان اس زمانے میں سکول کا طالب علم اور ہمارے بچوں کا دوست تھا۔ ترانے بہت اچھے پڑھتا تھا۔ اللہ نے اسے بہت خوش الحان آواز اور لہجہ عطا فرمایا ہے۔ محمود بھائی کو ہم پختون رواج کے مطابق بے تکلفی سے جب بلایا کرتے تھے تو محمودا کہہ کر بلاتے تھے۔ بعض ظریف الطبع دوست تو ندائے الف کو تائے تانیث میں بدل دیتے اور محمودا کے بجائے محمودہ پر ہی اکتفا کر تے تھے۔ محمود بھائی اتنے خوش اخلاق اور ہنس مکھ تھے کہ وہ ہر حال میں ہمیشہ مسکراتے ہی پائے گئے۔ 
بلیک برن میں افطار کا پروگرام ادریس خان نے ہی منظم کیا تھا۔ عصر سے مغرب تک مسجد نور میں خطاب رکھا گیا تھا، جس کی مقامی طور پر کافی تشہیر ہوئی۔ بلیک برن ہی میں جماعت کے ایک اور رکن، صدارتی انعام یافتہ مصنف اور سابق نائب قیم جماعت اسلامی ضلع گجرات محمد شریف قاضی بھی مقیم ہیں۔ بلیک برن کے سفر پر مولانا اقبال صاحب اور میاں عبد الحق کے ساتھ مجھے نکلنا تھا۔ نماز ظہر کے بعد طے شدہ شیڈول کے مطابق ہم لوگ نکلے اور عصر کی نماز کے وقت بلیک برن پہنچ گئے۔ پہلے بھی بلیک برن کو دیکھا تھا، مگر آج زیادہ ہی خوب صورت محسوس ہوا۔ بارش ہو رہی تھی اور پہاڑوں اور وادیوں میں بسائے گئے اس شہر میں روشنیاں جل اٹھی تھیں، عجیب دل ربا منظر تھا۔ سڑک نیچے اترتی ہوئی کہیں بہت گہرائی میں چلی جاتی ہے اور کہیں اوپر جاتی ہوئی بلندیوں کو چھونے لگتی ہے۔ پورے شہر میں یہی منظر ہے۔
ایک سادہ سے مکان کی طرف دوستوں نے اشارہ کیا کہ یہ برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ مسٹر جیک سٹرا (Jack Straw) کا گھر ہے۔ جس ملک میں وزیر اعظم کی رہائش10 ڈائوننگ سٹریٹ لندن، چند کمروں پر مشتمل ہو اور وزرا کے گھر بھی ایکڑوں میں پھیلے ہوئے شاہی محلات کے بجائے معمول کی رہائش گاہوں پر مشتمل ہوں، وہاں عوام ان مشکلات سے بچ جاتے ہیں، جن کا شکار ان ملکوں کی آبادیاں ہوتی ہیں، جن کے اصحاب اقتدار اسی جنون میں مبتلا رہتے ہیں کہ کیسے زیادہ سے زیادہ دولت لوٹیں اور لوگوں پر اپنی بڑائی اور دولت کا رعب جمائیں۔ پاکستان کے بد قسمت لوگوں کا المیہ یہی ہے کہ امیر ملک میں رہتے ہوئے حکمرانوں کی لوٹ مار اور کرپشن کی وجہ سے وہ غربت کا شکار ہیں اور آدھی آبادی خط افلاس سے بھی نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ برطانیہ اپنے ماضی کی نسبت آج کل فی الحقیقت ایک غریب ملک ہے، مگر یہاں کے عوام کو تمام بنیادی سہولیات حاصل ہیں۔ کرپشن کے واقعات بلاشبہ برطانیہ میں بھی سامنے آتے رہتے ہیں، مگر کسی افسر یا سیاست دان کی کرپشن کا اشارہ بھی مل جائے ،تو وہ شخص کسی منصب پر فائز رہنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا جبکہ ہمارے ہاں کی سیاست و معاشرت کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ یہاں قیادت کے لیے معیار ہی کرپشن ہے۔
عصر سے مغرب تک تربیتی نشست میں سوال و جواب بھی ہوئے۔ سوالوں میں اسلامی معیشت اور اس کی امکانیات، جمہوریت اور اس کے اسلامی و غیر اسلامی ہونے کا سوال، نیز رمضان کے روزے اور حج کے مختلف پہلوئوں کے بارے میںسوال پوچھے گئے۔ پروگرام سوالوں کی وجہ سے زیادہ دلچسپ ہوگیا۔ ادریس خان اور ان کے ساتھی تو افطار کے انتظام میں مشغول تھے۔ انہوں نے ما شاء اللہ اس کا بہت اچھا اہتمام کیا۔ ادریس خان کے بیوی بچے بھی یہاں مقیم ہیں اور ان کی بیوی بطور ڈاکٹر یہاں بہت اچھی جاب پر ہیں۔ روزہ افطار ہونے کا اعلان ہوا تو ساتھ ہی یہ اعلان بھی ہوا کہ نمازِ مغرب کھانا کھانے کے بعد ادا کی جائے گی۔ دسترخوان پر افطار کا سامان سجا ہوا تھا۔ حاضرین افطار میں مصروف تھے اور منتظمین ساتھ کھانا لگا رہے تھے۔ امام صاحب نے قدرے عجلت میں جماعت کھڑی کردی، جو لوگ جماعت میں شریک ہوسکے، ہوگئے۔ باقی لوگوں نے دوسری جماعت کرائی۔ ادریس خان اور ان کے ساتھی پروگرام کے انعقاد سے بہت خوش اور مطمئن تھے۔ 
نماز سے فارغ ہوکر ہم لوگوں نے رخصت چاہی، سب دوستوں نے بڑی محبت و اپنائیت سے رخصت کیا۔ منزل پر پہنچ کر مولانا اقبال صاحب نے مجھے ریڈلے میں اتارا، پھر تیزی سے اپنی مسجد کی جانب روانہ ہوگئے۔ عشاء کی نماز کا وقت ہوگیا تھا۔ میرے نمازی بھی گھر میں تیار تھے، مگر ہمیں یہ آزادی حاصل تھی کہ ہم کافی کا کپ پی کر جماعت کھڑی کرسکتے تھے۔ مولانا اقبال صاحب کو تو وقت پر جماعت کھڑی کرنا تھی، اس لیے وہ ہماری کافی کی پیشکش کا شکریہ ادا کرکے رفو چکر ہوگئے۔ آج ہماری تیسری تراویح تھی۔ ہم نے طے کر رکھا تھا کہ کبھی آٹھ تراویح پڑھیں گے کبھی بیس۔ دو اڑھائی پارے آٹھ تراویح میں پڑھتے ہوئے قیام خاصا لمبا ہوجاتا تھا ،مگر اللہ کا شکر ہے کہ یہ نمازی جنہیں میں سہل انگار سمجھتا تھا، خاصے سخت جان اور مضبوط ثابت ہوئے۔ نماز کے بعد جب میں پوچھتا کہ کون کون تھکا ہے تو سب کی طرف سے جواب آتا کوئی نہیں۔ الحمد للہ آج ہمارے پونے چھ پارے ہوگئے۔ ہم ہر روز اپنی منزل میںاضافہ کر رہے تھے تاکہ مختصر دنوں میں تکمیل تلاوت ہوجائے۔ تراویح کے بعد خواب خرگوش! اللہ بھلا کرے الارم کا کہ وہ ٹھیک وقت پر اٹھا دیتا تھا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved