تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     15-05-2018

ممبئی حملے : جواب حاضر ہے (آخری قسط)

7:۔ممبئی کے شیوا جی ریلوے اسٹیشن میں 26/11 کو کل38 سی سی ٹی وی کیمرے نصب تھے جن سے اسٹیشن کے ہر حصے کے تمام مناظر اور اس کے تمام داخلی دروازوں کی مکمل منظر کشی ہوتی ہے‘ اب سوال یہ ہے کہ وہاں نصب کیمروں نے اجمل امیر قصاب اور اسماعیل خان کی شیوا جی ٹرمینس میں موجودگی کی فلم کیوں نہیں بنائی؟ وہاں نصب 16CCTVکیمروں کی فلمیںکہاں ہیں؟ پچیس نومبر تک درست کام کرنے والے ان سولہ کیمروں نے 26/11کے دن ہی کام کرنا کیوں چھوڑا؟ حملہ آور تو رات9 بجے کے بعد وہاں پہنچے سارا دن یہ کیمرے کیا کرتے رہے؟ کیونکہ یہی وہ سولہ کیمرے تھے جن کی حدود میں52 افراد کو قتل کیا گیا ان سولہ کیمروں کی مدد سے حملہ آوروں کی شناخت اور فائرنگ کی نشاندہی ہوجانی تھی۔
8:۔ شیوا جی اسٹیشن پر نصب16 کیمرے تو اچانک''خراب‘‘ ہو گئے، لیکن ان دیکھے ہاتھوں نے سب سے حیران کن واردات جو کی وہ یہ ہے:
مسافروں کی آمدو رفت کے لئے اسٹیشن کے دو داخلی دروازوںپر نصب کئے گئے دونوںکیمروں کے زاویے کس نے او رکیوں تبدیل کئے؟کیا ان کیمروں کی سکیور ٹی کو مانیٹر کرنے والا عملہ سویا ہوا تھا ؟کیا اس دن ان کیمروں کو مانیٹر کرنے والوں کو چھٹی پر بھیج دیاگیا تھا ؟ ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ان کیمروں کو مانیٹر کرنے والے عملہ کو چند منٹ کے لئےCCTVکی یہ فلم نظر نہ آئے اور وہ اس کا نوٹس نہ لیں؟کیا بھارت کا کوئی ایک فرد بھی یہ نہیں جانتا کہ شیوا جی اسٹیشن کے ان دو داخلی دروازوں جہاں یہ کیمرے نصب کئے تھے وہیں پر اسلحہ اور بارودی مواد کی نشاندہی کرنے والے METAL DETECTOR دروازے نصب ہیں۔۔۔ اسی دن ان دروازوں پر نصب کیمروں کے زاویے کس نے تبدیل کرائے؟ 
9:۔شیوا جی اسٹیشن جہاں52 افراد کے قتل کااجمل قصاب پر الزام ہے وہاں نصب38کیمروںمیں سے وہ 16 کیمرے جہاں دہشت گرد حملہ آوروں نے کارروائی کی اس دن خراب ہو گئے، لیکن باقی22 کیمرے جو اس حملے کی کارروائی سے بہت دور تھے بالکل ٹھیک حالت میں کام کرتے رہے۔۔۔کیا یہ جان بوجھ کر کیا گیا یا اتفاقاًہوا؟۔۔۔ ایسا ہی ایک اتفاق اس سے پہلے بھی ہوچکا ہے جب احمد آباد اور سورت کے مسلم علاقوں میں بم دھماکے ہوئے تھے اس دن بھی تلساری ٹال پلازہ کے ناکے سے احمد آباد شہر میں دہشت گردی کے لئے داخل ہونے و الی گا ڑی کی فوٹیج حاصل نہیںہو سکی تھی کیونکہ اس دن اور اس وقت وہاں نصبCCTV بھی اچانک خرا ب ہو گئے تھے؟۔ اور احمدآباد بم دھماکوں کے بارے میں سب سے اہم ترین سوال '' HAYWOOD ''نامی امریکن کو ہندوستان سے جانے کی اجازت کیوں دی گئی جس کے کمپیوٹر سے E-MAILکے ذریعے احمد آباد بم دھماکے کی اطلاع دی گئی تھی جبکہ اس کے ملک نہ چھو ڑنے کے احکامات جاری ہو چکے تھے؟۔
10:۔ممبئی کرائمز برانچ کی طرف سے سپیشل عدالت میں پیش کی گئی چارج شیٹ کے مطا بق 70گھنٹوں تک جاری رہنے والی اس دہشت گردی میں حملہ آوروں نے موبائل سے کل 284 کالز وصول کیں جن میں سے41کالز تاج ہوٹل سے62موبائل کالز اوبرائے اور ٹرائیڈنٹ ہوٹل سے اور181کالز نریمان ہائوس میں وصول ہوئیں۔بمبئی کرائمز برانچ کی عدالت میں پیش گئی چارج شیٹ کو سچ مانتے ہوئے اجمل قصاب کو جج تہلیانی نے سزائے موت دی ہے، لیکن کیا وجہ ہے کہ مارے جانے والے حملہ آوروں کو تو پاکستان سے مبینہ فون کالز موصول ہوتی ہیں، لیکن انتہائی معمولی زخمی زندہ بچ جانے والے اجمل قصاب کو ایک بھی موبائل کال پاکستان سے موصول نہیںہوتی؟۔ 
11۔ ڈی سوزا کی '' اتاری‘‘ ہوئی اجمل قصاب کی وہ پہلی تصویر جو دنیا بھر کے اخبارات اور ٹی وی چینلز پر پھیل چکی تھیں اس کے متعلق بعد میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ اخبار ممبئی مرر کے فوٹو گرافر ڈی سوزا نے شیوا جی ٹرمینس پر اتاری تھی اور اسماعیل خان کی تصویر بارے کہا گیا کہ یہ ممبئی کے شیوا جی ٹرمینس پر نصب کیمروں سے حاصل کی گئی ہے،۔اگر یہ سچ ہے تو اول:۔ ان سی سی ٹی وی کیمروں کی باقی تصاویر کہاں ہیں؟۔دوم۔ڈی سوزا کے ڈیجیٹل کیمرے سے اتاری گئی تصویر پر درج تاریخ اور وقت کہاں ہے؟۔بار بار پوچھنے پر یہ ڈیجیٹل تصویر سامنے کیوں نہیں لائی گئی تھی؟۔ 
12۔ کرائمز برانچ ممبئی کی طرف سے2مارچ2009 کوآفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات3,5,7کے تحت بھارت کے ٹی وی چینلNDTV,IBN-7,AAJ TAK TV,TV9 کے خلاف مقدمات درج کراتے ہوئے الزام لگایا گیا کہ ان چینلز نے کمشنر ممبئی پولیس کی طرف سے اس آپریشن میں شامل پولیس افسران سے وائر لیس پر ہونے والی گفتگو کے کچھ حصے سنائے تھے ۔یہ عتاب اس لئے نازل کیا گیا تھا کیونکہ ان رپورٹس سے 26/11 کو ممبئی پولیس کی آپریشنل موومنٹ کے اصل پوائنٹ اورا ہداف سامنے آنے سے پولیس کی شیواجی اسٹیشن،CAMA HOSPITAL, , RANGABHAVAN LANE پر تیار کی گئی تمام کہانیاں جھوٹی ثابت ہو گئی تھیں۔
14 ۔ ممبئی کرائمز برانچ نے اور نہ ہی آج تک بھارتی حکومت کے کسی بھی ادارے نے یہ نہیں بتایا کہ سکوڈا کار نمبر MH-01-BA-5179 میں پولیس فائرنگ سے ہلاک ہونے والے دو افراد کون تھے؟۔ان دو افراد کی ہلاکت کے بارے میں پولیس کنٹرول وائر لیس پر اسسٹنٹ کمشنر پولیس جرگم ڈویژن پولیس اور سائوتھ کنٹرول کی مراٹھی میں کی گئی بات چیت ملاحظہ فرمائیں ''دونوں آدمی ماردیئے گئے ہیں اور ان کی لاشیں نائر ہسپتال پہنچا دی گئی ہیں ان میں سے ایک نے پولیس پر فائر بھی کیا تھا‘۔۔ اب یہ سوال اگر بھارتی میڈیا سے کیا جائے تو وہ وہی کچھ کہے گا جو اسس کے ملک کی ایجنسیاں اسے فراہم کریں گی یا سمجھائیں گی لیکن بھارتی عوام اور خاص طور پر ممبئی کے لوگ اور میاں نواز شریف تو جانتے ہیں کہ ولی پارلی فلائی اوور اور شیواجی اسٹیشن کے درمیان کتنا فا صلہ ہے؟ 
15 ۔ ممبئی پولیس کے کمشنر( کوڈ نام۔۔۔کنگ) اور ممبئی کرائمز برانچ کے درمیان پولیس کنٹرول وائر لیس پر10.45 p.m to11.30pm ہونے و الی گفتگو کا وہ حصہ پیش خدمت ہے جس میں پولیس کمشنر ممبئی پولیس کے دہشت گردی سکواڈ کے چیف آنجہانی ہیمنت کرکرے( کوڈ نام۔۔۔وکٹر) اور اشوک کامتے ایڈیشنل کمشنر پولیس ایسٹ ریجن کے بارے میں پوچھتے ہیں۔۔۔۔۔''کنگ (کمشنر ممبئی پولیس)۔۔۔۔وکٹر ( ہیمنت کر کرے )کہاں ہیں؟ جائنٹ کمشنر ممبئی پولیس اطلاع دیتے ہیں کہ وکٹر چترپاٹھی اسٹیشن میں ہیں اور اشوک کامتےSBI آفس آ رہے ہیں ۔۔۔۔اب 26/11 کے ممبئی حملوں کا الزام پاکستان پر لگانے والے نواز شریف سے گزارش ہے کہ وہ 26/11 کو ممبئی پولیس کے افسران اور ممبئی پولیس کے کنٹرول روم کے درمیان وائر لیس پر ہونے والی گفتگو کی آڈیو ٹیپس اور سی ڈیز کے علا وہ ممبئی پولیس کے افسران اور خصوصی طور پر انصاف کے نام پر جان قربان کرنے والے ممبئی پولیس کی دہشت گردی سٹاف کے چیف ہیمنت کرکرے کے موبائل فونز کا مکمل ریکارڈ دنیا بھر کے میڈیا کے سامنے سنوانے کیلئے اپنے دوست اور محسن نریندر مودی کو کہیں ۔۔ساتھ ہی انڈین سول سروس کے اعلی افسر بھوشن گجرانی کے ڈرائیور ماروتی فید جس نے ہیمنت کرکرے، سالسکر اور اشوک کامتے کو ہلاک کرنے والے حملہ آوروں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اس کے اس وقت کے بیان کو بھی سامنے رکھیں۔۔۔تاکہ 26/11 کے اصل کردار سب کے سامنے آ سکیں۔۔۔۔ نواز شریف صاحب ممبئی حملوں کے بھارتی ڈرامے کا ایک چھوٹا سا پوسٹ مارٹم آپ کے سامنے رکھ دیا ہے اس کے با وجود کہ میرے جیسے ایک عام آدمی کا سچ خزاں رسیدہ پتوں کی طرح ہوتا ہے جسے آپ جیسا ہر طاقتور اپنے پائوں تلے روندتا ہوا نکل جاتا ہے لیکن ایک دن جیت اسی روندے گئے سچ کی ہوتی ہے !!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved