تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     15-05-2018

جمہوریت پر پھر بُرا اور کڑا وقت

جمہوریت پر ایک بار پھر بُرا اور کڑا وقت آن پڑا ہے۔ مسلسل دوسری منتخب حکومت کسی نہ کسی طور اپنی معیاد پوری کرنے والی ہے۔ اس حکومت نے کیا دیا اور کیا نہیں دیا۔ اس پر بحث ڈھائی تین سال سے ہو رہی ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ گزشتہ انتخابات کے نتیجے میں حکومت کی تشکیل کے ساتھ ہی مخالفین نے تنقید کے نام پر تنقیص شروع کردی تھی۔ دھرنے کے ذریعے ابتدائی مرحلے ہی میں حکومت کا ناطقہ بند کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ ایک مرحلے پر ایسا محسوس بھی ہوا کہ شاید نئی حکومت سنبھلنے سے پہلے ہی گر جائے گی۔ خیر گزری کہ ایسا نہ ہوا۔فرمائشی پروگرام ناکامی سے دوچار ہوا اور جیسے تیسے جمہوریت کا سفر جاری رہا۔ 
اب پھر انتخابات کا مرحلہ ہے۔ ایک بار پھر جمہوریت منہ چھپائے کھڑی ہے۔ جمہوریت کو منہ اس لیے چھپانا پڑ رہا ہے کہ جو اُس کے نام پر بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں وہ معمولی سے درجے میں بھی شرمندہ ہونے کو تیار نہیں۔ چند روز پہلے ہی کی بات ہے۔ خیبر پختونخوا میں کہیں خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے معمولی سے بھی خوفِ تردید کے بغیر کہا کہ جس کسی کو ترقی دیکھنا ہو وہ سندھ چلے! یہ ایک جملہ بتارہا ہے کہ سید خورشید شاہ کے ''حوصلے‘‘ کی انتہا کیا ہے! 
سندھ کا شمار اُن صوبوں میں ہوتا ہے جو گورننس کے اعتبار سے شرم ناک مقام پر ہیں۔ سندھ کے دیگر علاقوِں اور شہروں کی بات تو جانے ہی دیجیے، کراچی کو دیکھ لیجیے کہ اس کا حال کیا ہوا ہے۔ دیہی اور شہری کی کشمکش نے کراچی کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کر رکھا ہے۔ قومی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والا شہر بنیادی سہولتوں کو اب تک ترس رہا ہے۔ شہر اور صوبے کے اسٹیک ہولڈرز کے آپس کے جھگڑے ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ اور اب تو مزید خرابیوں کی راہ ہموار ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ کراچی کے نام نہاد اسٹیک ہولڈرز ایسی کمزور حالت میں ہیں کہ آئندہ عام انتخابات کے نتیجے میں ابھرنے والی صورتِ حال کے بارے میں سوچ سوچ کر شہریوں کے دلوں میں ہَول اٹھ رہے ہیں۔ 
ہم سمجھ نہیں پائے کہ سندھ میں ایسا کیا ہے جسے دیکھنے کی دعوت خورشید شاہ نے باقی اہلِ پاکستان کو دی ہے۔ ہم تو صرف اس قدر عرض کریں گے ؎ 
تم ذکرِ وفا کر تو رہے ہو مگر اے دوست! 
مجھ کو بھی دکھا دو جو زمانے میں کہیں ہے 
اور کچھ نہ سہی، صرف تھر کی صورتِ حال کا جائزہ لیں تو سَر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ ایک معمولی سے علاقے میں بچوں کی اموات کا سلسلہ ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ اگر صوبائی حکومت نے تھوڑی سی بھی توجہ دی ہوتی تو تھر میں غذا یا غذائیت کی کمی سے نومولود اموات کی شرح یقینا قابو میںلائی جاسکتی تھی۔ ڈھائی تین سال سے اموات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے مگر متعلقہ اتھارٹیز کچھ بھی کرنے کو تیار نہیں۔ چند ایک غیر سرکاری تنظیموں نے اپنے طور پر کچھ کرنے کی کوشش کی ہے مگر اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ یہ سارے کام حکومت کے کرنے کے ہیں۔ محکمہ صحت نے اب تک یہ ثابت نہیں کیا کہ تھر کا علاقہ اُس کے راڈار پر اہم نکتے کی حیثیت سے موجود ہے۔ اور اس غفلت شعاری کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ غریبوں کی مشکلات کم نہیں ہوئیں، بچوں کی اموات کا سلسلہ جاری ہے۔ 
یہ تو ہوا محض ایک علاقے کا معاملہ۔ سندھ میں مجموعی طور پر تعلیم کا معاملہ درست ہے نہ صحتِ عامہ کا۔ نظم و نسق کا گراف بُری طرح گرا ہوا ہے۔ سرکاری فنڈز کی بندر بانٹ رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ سڑکوں کا معیار بلند ہو رہا ہے نہ پُلوں کی مرمت کی جارہی ہے۔ سندھ کے اندرونی علاقوں میں ترقیات کے حوالے سے جو کچھ بھی دکھائی دیتا ہے وہ کسی بھی اعتبار سے ایسا نہیں کہ فخر کے ساتھ بیان کیا جاسکے۔ لوگوں کو پینے کے صاف پانی جیسی انتہائی بنیادی ضرورت کی چیز بھی ڈھنگ سے میسر نہیں۔ تعلیم کے نام پر کیے جانے والے اقدامات اتنے ناقص اور ناکافی ہیں کہ اُن کا تذکرہ کرتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے۔ سرکاری اسکولز کی کارکردگی کا گراف شرم ناک حد تک گِرا ہوا ہے۔ محض دعوے کرنے سے صورتِ حال تبدیل نہیں ہوسکتی۔ معاملات کو درست کرنے کے لیے اسٹیک ہولڈرز کو بہت کچھ کرنا ہوتا ہے۔ سندھ کے بیشتر اضلاع میں صحتِ عامہ کا معیار بھی ایسا گِرا ہوا ہے کہ اُس کے اٹھنے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ سرکاری اسپتالوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں۔ پانی کے ذخائر بُری حالت میں ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام پر سرکاری گرفت نہ ہونے کے برابر ہے۔ لوگوں کو چند کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنے کے لیے اچھی خاصی رقم خرچ کرنا پڑتی ہے۔ سرکاری مشینری کا بھی ایسا ہی حال ہے۔ لوگوں کو معمولی نوعیت کے کام کرانے کے لیے بھی دفاتر کے دھکّے کھانا پڑتے ہیں، مٹھی گرم کرنا پڑتی ہے۔ اگر مٹھی گرم نہ کیجیے تو سڑتے رہیے، دھکّے کھاتے رہیے۔ 
کراچی بھی سندھ ہی میں ہے۔ اس شہر کو جس بُری طرح نظر انداز کیا گیا ہے اور اسٹیک ہولڈرز کی آپس کی لڑائی کی نذر ہونے دیا گیا ہے اُسے دیکھتے ہوئے صرف شرم ہی محسوس کی جاسکتی ہے۔ دیہی اور شہری کی کشمکش نے کراچی اور حیدر آباد کو باقی صوبے سے الگ، امتیازی حیثیت دے رکھی ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد بیشتر معاملات صوبائی حکومت کے ہاتھ میں جانے سے معاملات مزید خراب ہوئے ہیں۔ پہلے مقامی ادارے مقامی منتخب قیادت کے ہاتھ میں ہوا کرتے تھے۔ اب یہ سب کچھ صوبائی حکومت کے ہاتھ میں چلا گیا ہے۔ نہ اُنہیں کچھ پروا تھی نہ اِنہیں کچھ خوفِ خدا ہے۔ اور کہیں نہ سہی، کراچی ہی میں معاملات درست کردیئے جائیں، لوگوں کے بنیادی مسائل حل کردیئے جائیں تو صوبے میں اس کے خوش گوار اثرات پھیلنے اور محسوس کرنے میں دیر نہیں لگے گی۔ مگر یہاں کس کو پڑی ہے؟ سب اپنی مستی میں مست ہیں۔ معاملات کو گھسیٹ گھسیٹ کر چلایا جارہا ہے۔ شہریوں کے صبر کا امتحان یوں لیا جارہا ہے کہ اُن پر جاں کُنی کا سا عالم طاری ہے۔ 
ہم تو سمجھ نہیں پائے کہ خورشید شاہ نے سندھ میں جس ترقی کے دیکھنے کی دعوت دی ہے وہ کہاں ہے۔ اگر ہمارے قارئین میں سے کوئی کچھ جانتا ہو تو ہم اُس کے مقدر پر ضرور رشک کریں گے۔ کم و بیش تین چار سال سے کراچی کا یہ حال ہے کہ ڈھنگ سے صفائی کی جاسکی ہے نہ لوگوں کو بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اسپرے ہی کیا گیا ہے۔ اچھا خاصا شہر کھنڈر جیسا دکھائی دیتا ہے۔ جب کراچی جیسے کماؤ پوت کو یوں نظر انداز کیا جاتا رہا ہے تو سوچا جاسکتا ہے کہ اُن علاقوں پر کتنی توجہ دی گئی ہوگی جن محض کھاؤ پُوت ہیں، کچھ دینے کی پوزیشن میں نہیں! اب اس نکتے پر نئے سِرے سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا واقعی جمہوریت ہر حال میں ہمارے لیے بہترین آپشن ہے۔ ٹھیک ہے، جمہوریت سے گلو خلاصی نہیں ہونی چاہیے مگر جمہوریت کے نام پر جو لوگ ہمارے نصیب میں لکھ دیئے گئے ہیں اُن کا محاسبہ تو ہونا ہی چاہیے۔ ایک بار پھر انتخابات سر پر ہیں۔ عوام ووٹ کے ذریعے طے کرسکتے ہیں کہ خود کو پُرانے سوراخ سے ایک بار پھر ڈسوانا ہے یا نئے، پُرعزم اور پُرامید لوگوں کو آزمانا ہے۔ تمام تعصبات سے بالا رہتے ہوئے ہمیں ایسے لوگوں کو سامنے لانا ہے ،جو ڈلیور کرسکیں، ہماری زندگی کا معیار کسی نہ کسی حد تک بلند کرسکیں۔ ترقی کے دعوے کرنے والے کافی نہیں۔ آگے انہیں لایا جائے جو کچھ کر دکھانے کی حقیقی لگن بھی رکھتے ہوں۔ عوام سوچ سمجھ کر صرف اُنہیں منتخب کریں جو جمہوریت کے نام پر ڈینگیں مارنے کے بجائے کچھ کرکے بھی دکھائیں۔ ایسا نہ ہوا تو یہ سہی سہی، برائے نام جمہوریت بھی ہاتھ سے جاتی رہے گی۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved