تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     17-05-2018

نا اہلی کی معراج

حالات خرابی کی طرف صرف جا نہیں رہے بلکہ پہنچ چکے ہیں۔ وزیر اعظم نے قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں اعلامیے سے اتفاق کیا اور باہر آ کر صاف مکر گئے۔ ایک عدد ایسی پریس کانفرنس فرمائی جس کا کہیں کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں۔ جس بیان کی میاں شہباز شریف تاویلات اور وضاحتیں دے رہے اسے میاں نواز شریف نے نا صرف قبول کیا ہے بلکہ اس پر باقاعدہ اکڑ گئے ہیں۔ اسی بیان کی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے مکمل حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ ساتھ ہی یہ فرمایا کہ وہ استعفیٰ ہرگز نہیں دیں گے‘ اور اکتیس مئی تک حکومت چلائیں گے۔
شاہ جی کو عجیب و غریب سوالات کرنے کا چسکا ہے۔ پوچھنے لگے: آخر وزیر اعظم نے یہ بیان کیوں دیا ہے؟ کیا ان سے کسی نے استعفیٰ مانگا ہے؟ اگر نہیں مانگا تو اس بیان کی وجہ کیا ہے اور اگر مانگا ہے تو کس نے مانگا ہے؟ سوال کافی مزیدار بھی ہے اور شرپسندانہ بھی۔ تاہم شاہ جی کے سوال سے زیادہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا بیان شر پسندانہ ہے کہ انہوں نے ہر دو صورت میں ایک تیر سے کئی شکار کئے ہیں۔ سوال نمبر ایک یہ ہے کہ اگر ان سے کسی نے استعفیٰ مانگا ہی نہیں تو اس بیان کی کیا ضرورت تھی؟ صاف ظاہر ہے وہ بین السطور کسی کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ کون ہے جسے خراب کیا جانا مقصود ہے؟ ظاہر ہے یہ میں یا آپ تو ہو نہیں سکتے۔ یہ وہی ہوں گے جن پر آج کل ہر طرف سے انگلی اٹھائی جا رہی ہے۔ جب ہر بات کا آخری سرا ان پر جا کر ٹھہرایا جا رہا ہے اور ہر بات کی آخری تان انہی پر جا کر توڑی جا رہی ہے تو ایسے میں اس الزام کی اہمیت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ وزیر اعظم کا صرف یہ کہہ دینا کہ وہ استعفیٰ نہیں دیں گے‘ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انہیں کسی نے مستعفی ہونے کے لئے کہا ہے۔ ایسے موسم میں صرف اتنا الزام کافی ہے۔ اس کی مزید وضاحت کی ضرورت ہی نہیں کہ وہ یہ بیان قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے فوراً بعد دے رہے ہیں جس میں چیئرمین چیف جوائنٹس آف سٹاف کمیٹی، تینوں فورسز کے چیفس، آئی ایس آئی اور آئی بی کے ہیڈز اور مشیر قومی سلامتی کونسل شریک تھے۔ اب ایسے وقت پر اس بیان سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ انہیں استعفیٰ دینے کا کس نے کہا ہے‘ جبکہ اصل صورتحال یہ ہو کہ انہیں ایسا کہا ہی نہیں گیا ہے۔ یہ ایک صورت تھی جس کا تجزیہ کیا گیا ہے۔
دوسری صورت یہ ہو کہ انہیں واقعتاً استعفیٰ دینے کے لئے کہا گیا ہو اور انہوں نے انکار کر دیا ہو۔ اور نہ صرف انکار کر دیا ہو بلکہ باہر آ کر ایک نا معلوم قسم کی پریس کانفرنس میں اس کا اعلان بھی کر دیا ہو کہ وہ مستعفی نہیں ہوں گے۔ اب اس صورتحال کے بھی دو پہلو ہیں۔ پہلا یہ کہ انہیں مستعفی ہونے والی بات قومی سلامتی کمیٹی کے بھرے اجلاس میں تو نہیں کہی گئی ہو گی۔ اگر ایسی بات ہوتی تو حکومتی وزیروں نے یہ بات ضرور فرما دی ہوتی۔ اب دوسری صورت یہ ہے کہ انہیں یہ بات کسی نے اکیلے میں کی ہے؟ اگر ایسی بات ہے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ایسی صورتحال کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہوں کہ کسی نے اکیلے میں ان کو استعفیٰ دینے کا مشورہ دیا ہو اور وہ اس کا علی الاعلان اظہار کر کے اندر کی بات سر عام کرنے کی جرأت کر سکیں کہ ان سے یہ بات کسی صوبیدار نے نہیں کہی ہو گی۔
اصل بات یہ ہے کہ اجلاس کے اندر ان کے پاس اس بیان کے حق میں کہنے کے لئے کچھ تھا ہی نہیں۔ لہٰذا انہوں نے اجلاس میں سب کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے اعلامیے پر دستخط بھی فرمائے ہوں گے تاہم باہر آ کر میاں صاحب سے وفاداری بھی نبھانی تھی اور انہی اجلاس کے اندر والی بزدلی پر کچھ پردہ بھی ڈالنا تھا سو انہوں نے دستخط بھی فرما دیئے اور باہر آ کر بیان بھی جاری فرما دیا۔ صورتحال کچھ بھی ہو لیکن ایک بات طے ہے کہ سول ملٹری تعلقات خرابی اور بے اعتمادی کی آخری سطح پر ہیں۔ میاں صاحب کی بھرپور کوشش ہے کہ یہ خرابی کسی منطقی انجام کو پہنچے۔ وردی والوں کا صبر کا پیمانۂ لبریز ہو اور وہ کچھ ہو جائے جس کی خواہش وہ اس دن سے کر رہے ہیں جس دن سے وہ وزیر اعظم ہائوس سے بے دخل کئے گئے ہیں۔ ان کی بھرپور کوشش ہے کہ اگر وہ اقتدار میں نہیں تو سارا سسٹم لپیٹ دیا جائے۔ انہیں اداروں، پارلیمنٹ، جمہوریت اور اسی قبیل کی دیگر چیزوں میں رتی برابر دلچسپی نہیں۔ ان کی بلا سے۔ ملک کے ساتھ جو بھی ہو۔
ان کا بیانیہ یہ ہے کہ وہ منتخب وزیر اعظم تھے اور انہیں عدالتیں سزا نہیں دے سکتیں کہ ان کے ووٹوں کی تعداد پانچ ججوں سے کئی لاکھ گنا زیادہ ہے۔ ان کا فیصلہ عوام کریں گے۔ اگر ان کے اس بیانیے کو واقعتاً تسلیم کر لیا جائے تو یہ ملک اور معاشرہ ایک انارکی کی طرف چلا جائے گا‘ کیونکہ اسے تسلیم کرنے کے بعد عدالتوں کا کوئی جواز ہی باقی نہیں رہ جاتا اور ہر شخص عوامی فیصلے پر عمل کرنے کا مطالبہ کرے گا۔ ویسا ہی عوامی فیصلہ جیسا باچا خان یونیورسٹی چارسدہ میں مشال خان کے ساتھ ہوا۔ جیسا بارہ مئی کو کراچی میں ہوا اور بادامی باغ کے نزدیک عیسائیوں کی بستی میں ہوا تھا۔ عوام کو فیصلہ کرنے کا اختیار وہی ہے اور وہیں ہے جہاں آئین اجازت دیتا ہے تاہم عدل و انصاف کے معاملے دنیا میں کہیں بھی عوام پر نہیں چھوڑے جاتے۔ اس کے لئے مہذب معاشروں میں سینکڑوں سالوں سے عدالتوں کا نظام موجود ہے اور چل رہا ہے۔ یہ نظام دراصل بذات خود عوام کے فیصلوں کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا ہے کہ عوام اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں‘ یہ نمائندے قانون سازی کرتے ہیں۔ عدالتی نظام بناتے ہیں اور پھر عدل و انصاف کو بنائے ہوئے عدالتی نظام کے سپرد کر دیتے ہیں۔ ایک بار یہ نظام اپنا کردار سرانجام دینا شروع کر دے تو پھر اسے کوئی عوامی نمائندہ اپنے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد کو بنیاد بنا کر چیلنج نہیں کر سکتا۔ اس نظام کو چیلنج کرنے کے لئے بھی صرف وہی طریقہ کار ہے جو آئین میں درج ہے۔ اور دنیا کے کسی آئین میں عدالتی فیصلے کو چیلنج کرنے کا طریقہ کار جلسوں میں کی جانے والی تقاریر بہرحال نہیں ہیں۔ میاں نواز شریف نے اپنی سزا کو چیلنج کرنے کے لئے عوامی جلسوں کا انتخاب کیا ہے جو ایک سعی لا حاصل سے زیادہ اور کچھ نہیں۔
افواہیں ہر طرف ہیں۔ بے یقینی کا یہ عالم ہے کہ گدو اور تربیلا کے مقام پر ہونے والی تکنیکی خرابی کے باعث بجلی کے لمبے بریک ڈائون پر بھی لوگ یہ فرما رہے تھے کہ اسلام آباد میں کچھ ہو گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر آنے والے ایک دو دن کے بارے میں ایسی ایسی منظر کشی کی جا رہی ہے کہ خدا کی پناہ۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ میاں نواز شریف، اور اس کی جنگجو برگیڈ (طبلچی برگیڈ کو آج کل اپنی پڑی ہوئی ہے) میں شامل ہر شخص نے ہاتھ میں سرخ رومال پکڑا ہوا ہے اور وہ بیل کے سامنے یہ سرخ رومال لہرا رہا ہے کہ ان کے قائد کی اپنی نا اہلی کے بعد صرف اور صرف ایک ہی خواہش ہے کہ اگر میں نہیں تو پھر کچھ بھی باقی نہیں رہنا چاہئے۔ وہ سارے سسٹم کو مکمل طور پر لپیٹنے کے لئے پورا زور لگا رہے ہیں مگر وہ الحمدللہ اتنے نا اہل ہیں کہ یہ کام بھی نہیں کر پائیں گے۔ اسے ان کی نا اہلی کی معراج سمجھیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved