اپنے مستقبل کا فیصلہ اب سیاستدانوں کو کرنا ہے ۔ کوئی دن جاتا ہے کہ فیصلہ صادر ہو جائے گا۔یہ کاشت کا موسم ہے اور آدمی وہی کاٹتے ہیں ، جو وہ بویا کرتے ہیں ۔ 1970ء کے بعد یہ سب سے زیادہ خطرناک الیکشن ہیں ۔ ان لوگوں ،خاص طور پر شیخ رشید پہ رشک آتا ہے کہ ان حالا ت میں بھی ، وہ حسّ مزاح کا مظاہر ہ کر سکتے ہیں ۔ اس طرح ،جیسے کوئی تماشائی ۔ یہ کہہ کر خود کو تسلّی دینے کی کتنی کوشش کی جائے کہ تشکیل پذیر جمہوری معاشروں میں ایسا ہی ہوا کرتاہے ؟ کب تک ہم خود کو تماشا بنائے رکھیں گے ، آخر کب تک؟ بلوچستان میں یہ فیصلہ ابھی باقی ہے کہ قوم پرست جماعتیں الیکشن میں شریک ہو ں گی یا نہیں ، جہاں بھارتی اور امریکی سازشوں کا سلسلہ کم تو ہوا ہے مگر تحلیل ہو نے کے آثار دور دور تک نہیں ۔ قبائلی علاقے اور پختون خوا میں کتنے حلقے ہیں ، جہاں انتخابی مہم چلانا مشکل ہوگا۔ کراچی بارود کے ڈھیر پر رکھا ہے ۔عسکری قیادت پُرامید ہے کہ انشاء اللہ کوئی بڑا حادثہ نہ ہوگا مگر حالات غیر یقینی ہیں ۔ ایم کیو ایم کو پیارا ہونے سے پہلے برادرم نبیل گبول سے پوچھا کہ ازراہِ کرم کیا وہ میرے ساتھ لیاری جا سکتے ہیں ،تو بے ساختہ انہوںنے کہا : بالکل نہیں ، پھر اپنے روایتی اعتماد اور مسکراہٹ کے ساتھ بتایا کہ مشکل سیاستدانوں کو ہے، اخبار نویسوں کا وہاں خیر مقدم کیاجاتا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ڈیڑھ سو خود کُش حملہ آور طالبان نے تیار کر رکھے ہیں اور اس پر بھی ان سے مذاکرات کا مطالبہ ہے ۔ کنپٹی پر پستول رکھ کر مذاکرات؟ دلیل سننے سے انکار کر دیا جائے تو پھر تاویل باقی رہ جاتی ہے۔بانجھ تاویل ، جس کے بطن سے انصاف کبھی پھوٹ نہیں سکتا۔ انصاف ، جس کے بغیر امن کا حصول ممکن نہیں اور امن کے بغیر استحکام کا کیا سوال؟ امریکہ بہادر اور اس کے پوڈل برطانیہ کے بارے میں تو ہم سب جانتے ہیں کہ ہمیشہ کی طرح وہ اثر انداز ہونے کی کوشش کریںگے مگر اب کی بار عرب ممالک بھی معمول سے زیادہ سرگرم ہیں اور سب جانتے ہیں کہ کس کی تائید میں ۔ سرمایے کا طوفان چلا آتا ہے ۔ اوّل شیخ الاسلام نے کم از کم 40، 50کروڑ روپے جھونک دئیے ، پھر’’ کبھی نہ ڈرنے والے ‘‘جنرل پرویز مشرف نے ،القاعدہ ، طالبان ، لشکرِ جھنگوی اور سپاہِ صحابہ جن کی جان کے درپے ہیں ، طلال بگٹی نے ، جن کے سر کی قیمت مقرر کر رکھی ہے ۔الیکشن کمیشن کو داخلی جھگڑوں اور علالت سے فرصت ہو تو پارٹیوں سے پوچھنا چاہیے کہ ان کے وسائل کا سرچشمہ کیا ہے ؟ سوال یہ نہیں کہ بحران کتنا شدید ہے ۔ یہ دوسری عالمگیر جنگ میں لندن پر پیہم بمباری سے بڑا ہرگز نہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایک معاشرہ بحران کاسامنا کرنے پر آمادہ ہے یا نہیں ۔ اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے کہ کسی پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جاتا۔ آدمی کو اس خاک داں میں بھیجا ہی اس لیے گیاکہ آزمایا جائے ۔ آخری تجزیے میں زندگی امتحان اور کشمکش کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ خالقِ کائنات نے حیات کو خیرہ کن تنوّع اور لامتناہی کشمکش کے لیے تخلیق کیا اور دائم وہ ایسی ہی رہے گی ۔ فرد ہو یا قوم ، دیکھنا یہ ہوتاہے کہ ابتلا کی ساعت میں وہ کس طرح بروئے کا ر آتے ہیں ۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ قومیں اسی وقت زندہ ہوتی او رنشوو نما پاتی ہیں ،جب ان کا وجود خطرے سے دوچار ہو ۔ خطرہ ، ابتلا میں نہیں ، ابتلا کے ہنگام حواس اور اصول کھو دینے میں ہوتا ہے ۔ 84سالہ چیف الیکشن کمشنر کے بعد ، ہم نے ایک 85سالہ نگران وزیر اعظم کا انتخاب کیا ہے ۔حکمران سیاسی جماعتوں کے خوف زدہ اور بانجھ ذہن جو فیصلہ کرنے سے گھبراتے ہیں ۔ جس کا کام، اسی کو ساجھے۔ دنیا کے شاید ہی کسی ملک میں ججوںکو اس طرح کے انتظامی فرائض سونپے جاتے ہوں ۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے کہ اللہ جو کام بندے سے لینا چاہتا ہے ، وہ اس کے لیے سہل کر دیا جاتاہے ۔ ہر آدمی کا ایک وصف اور ہنر ہوتا ہے ، جس کے بل پر وہ زندگی کرتا ہے ۔ شاذ ہی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی جج انتظامی صلاحیت سے بہرہ ور ہو ۔ ان کی کائنات دو کمروں تک ہوتی ہے ۔ ایک خوف زدہ سوسائٹی مگر اسی طرح فیصلے کیا کرتی ہے ۔ آگے بڑھ کر پہل قدمی کی بجائے ، دفاعی ذہنیت کے ساتھ مجبوری کے اقدامات۔ چیف الیکشن کمشنر سے حسنِ ظن پایا جاتاہے مگر الیکشن کمیشن اب تک ناکام ہے ۔ گر بہ کُشتن روز اوّل۔ ضمنی الیکشن میں اس نے عدل اور جرأت کے ساتھ اختیارات استعمال کیے ہوتے تو دھاندلی کی خوگر سیاسی جماعتیں شایدمحتاط ہو جاتیں ۔ اب یہ آشکار ہے کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل خفیہ مفاہمت پہ استوار ہوئی ۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی سودے بازی سے ۔ ادراک کرنے میں میڈیا ناکا م رہا ۔ حکمران پارٹیوں کے کارندے گرد اڑا کر منظر کو ڈھانپنے میں کامیاب رہے ۔ نگران وزیر اعظم پر لے دے بہت ہوئی اور ایسا لگتا تھا کہ گویا آزادانہ الیکشن کا انحصار اسی پر ہے ۔ نو آزاد میڈیا کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک قضیے میں اُلجھ جاتاہے تو بڑی تصویر دیکھنے سے گریز کرتا ہے ۔ الیکشن صوبوں کو کرانے ہیں ، مرکز کو نہیں ؛اگرچہ وفاقی حکومت کا ایک کردار ہے اور اس سے بھی زیادہ الیکشن کمیشن کا ۔ معاملہ مگر صوبے کے چیف سیکرٹری اورآ ئی جی کے ہاتھ میں ہوگا۔ اگر ان کی ہمدردیاں کسی پارٹی کے ساتھ ہیں اور وہ بد دیانتی پر تُلے ہوں تو خرابی پیدا کر کے رہیں گے ۔ بتایا گیا ہے کہ پختون خوا میں مولانا فضل الرحمٰن اور اے این پی نے سرکاری مناصب باہم بانٹ لیے ہیں۔ بلوچستان اور سندھ میں کیا ہوا؟ پنجاب میں تو نون لیگ من مانی کرنے کی پوری کوشش کرے گی ۔ اس باب میں اس کا تجربہ وسیع اورماضی تابناک ہے ۔حالات ایسے ہیں کہ ذمہ داری میڈیا ، عدالتِ عظمیٰ اور افواج ِپاکستان کی قیادت پر آپڑی ہے ۔ میڈیا پر نون لیگ کی گرفت مضبوط ہے ۔ کم از کم تین اخبارات شریف خاندان کی جیب میں پڑے ہیں ۔ مالدار طبقات نے شریف خاندان کی قیادت میں عوام کے خلاف ایک مضبوط محاذ مرتّب کر لیا ہے ۔امکان کے دو چراغ روشن ہیں ، فروغ پذیر سوشل میڈیا اور بیدار رائے عامہ ، جو دانش فروشوں کو پہچانتی ہے ۔ اکثریت سچ اور جھوٹ میں امتیاز کر سکتی ہے ۔ جماعتِ اسلامی اور تحریکِ انصاف میں مفاہمت کی خبر خوش کن ہے۔ اگر یہ دونوں پارٹیاں تہیہ کر لیں تو ملک کے بڑے حصے میں آزادانہ الیکشن کاامکان پید اہوجائے گا۔ سب سے زیادہ ذمہ داری مگر افواجِ پاکستان کی ہے ۔ آئینی طور پر وہ جواب دہ نہیں ۔ حالات مگر ایسے ہیں کہ بنیادی کردار انہی کو ادا کرناہوگا۔معیشت پہلے ہی برباد ہے ، قومی سلامتی بھی خطرے میں پڑ ے گی ۔جنرل کیانی پر سول انتظامیہ کو اطلاع دینا لازم ہے کہ الیکشن شفاف ہوں گے ۔ بڑے پیمانے کی دھاندلی اگر برپا ہوئی تو انجام وہی ہوگا ، جو 1977ء میں ہوا تھا ۔ لیڈر اور جماعتیں نہیں ، آخری فیصلہ اس پر ہوا کرتا ہے کہ حالات کا دھارا کون سے رُخ پر بہتا ہے ۔ سیاستدانوں نے شرر بوئے تو آگ کی فصل کاٹیں گے ۔ 2013ء کے الیکشن میں سیاست اور جمہوریت کے سرخرو ہونے کا آغاز ہوگا یا ایک ہولناک انارکی وہ جنم دیں گے ۔ اپنے مستقبل کا فیصلہ اب سیاستدانوں کو کرنا ہے ۔ کوئی دن جاتا ہے کہ فیصلہ صادر ہو جائے گا۔یہ کاشت کا موسم ہے اور آدمی وہی کاٹتے ہیں ، جو وہ بویا کرتے ہیں ۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved