میں آزادی کے بعد کی بات کر رہا ہوں۔ پاکستان بنتے ہی جس مسلم لیگ نے اقتدار سنبھالا‘اس کے بعد وہ کبھی یکجا نہیں رہی۔جس خاندان میں گئی‘ اس میں جھگڑے شروع ہو گئے۔ جس حکومت میں گئی ‘ وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی۔ پرانا مسلم لیگی یاد کر کے بتائے کہ کوئی بھی مسلم لیگی کبھی ایک ہی پارٹی یا خاندان میں رہا ہو؟ ایک مسلم لیگی یاد ہے‘ وہ ہے چوہدری ظہور الہٰی کا گھرانہ اوراس سے وابستہ ہونے والے آپ کو بہت سے مسلم لیگی دکھائی دیں گے۔ ان میں سیالکوٹ کے خواجہ محمد صفدر تھے اور اسی سے وابستہ ان کا خاندان رہا ۔ یہ اور بات ہے کہ ان کا صاحبزادہ ہے تو مسلم لیگی ‘لیکن اقتدار والی مسلم لیگ میں ہے۔موجودہ مسلم لیگ کا نام تو وہی ہے لیکن پہچان کے لئے کئی برانڈ زکے کام لئے جاتے رہے۔ سچ پوچھئے تومسلم لیگ کو اقتدار میں رکھنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ وہ حسب ضرورت اقتدار میں رہنے کے لئے اپنے اپنے برانڈ کے ناموں سے اپنی پہچان بناتی رہے۔میں ناموں کا بستہ تو کھول کر بیٹھ گیا ہوں لیکن سچی بات یہ ہے کہ مجھے کچھ یاد نہیں رہا کہ کون سی مسلم لیگ کی حکومت کب تھی؟ مرکز میں تھی یا صوبے میں؟ بہت سالوں سے پاکستان وفاق میں بدل چکا ہے۔اب وفاق یا صوبائی ناموں کا راج ہے۔مسلم لیگ جس گھرمیں بھی گئی‘اس میں بھی ٹوٹ پھوٹ پڑ جاتی ہے۔آج آپ کو جتنی مسلم لیگیں ملے گی ‘ وہ اب ایک ملک یا ایک خاندان میں نہیں رہتی۔ اگر موجودہ وفاق پاکستان میں ہی گنتی کر کے دیکھیں تو یہ خدا کی بندی‘ ایک گھر میں صلح صفائی سے نہیں ر ہتی ۔ یاداشت کے مطابق پرانے مسلم لیگی میاں ممتاز محمد خان دولتانہ تھے۔ان کے مقابلے میں نواب ممدوٹ کی مسلم لیگ مقابلے میں اتری۔ان دونوں پرانے دوستوں نے نئی نئی مسلم لیگیں بنائیں اور کہیں نہ کہیں بنتی رہیں۔سندھ میں مسلم لیگ تھی تو پنجاب میں کوئی اور پارٹی بن گئی۔ پنجاب میں مسلم لیگ بنی تو سندھ میں بھی کوئی اور پارٹی بن گئی۔
فوجی بیرکوں سے ایک جنرل صاحب صدر مملکت بنے تو انہیں بھی مسلم لیگ کی ضرورت پڑی اور اس نے اپنا نام کنونشنل لیگ رکھ لیا۔ مگر وہ مسلم لیگ ہی کیا؟ جس کا نام کہیں ٹک جائے؟ ادھر کنونشن بنی تو مقابلے میں کونسل لیگ آگئی۔ ادھر ادھر کے گھرو ں میں چکر لگاتی ہوئی ریپبلکن پارٹی بن گئی۔آزادی کے فوراً بعد کئی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ کے نام سے سیاست میں رہیں۔ ہمارے بلوچستانی رہنمائوں نے بہت سی پارٹیاں بنائیں۔ بہت سے خاندانوں میں گئیں۔ کبھی کئی قبیلوں کو اکٹھا کر کے ایک پارٹی بنی اور اگر اختلاف ہوا تو واپس اپنے اپنے قبیلوں میں جا کر اپنی اپنی پارٹی بنا لی۔ آج بھی مجھے یاد نہیں کہ بلوچستان کی صوبائی اسمبلی میں کتنی پارٹیاں اکٹھی ہیں؟ مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ بلوچستان کی موجودہ حکومت میں کتنی پارٹیوں نے مخلوط حکومت بنا رکھی ہے؟ مگر ہیں بہت سی۔آج ہی میں ٹی وی پر بلوچستان اسمبلی کے ہال میں بھگدڑ مچی دیکھ رہا تھا۔ کوئی باہر کی طرف لپک رہا تھا۔ کوئی اس کے پیچھے۔ کوئی تیز تیز قدموں سے چل رہا تھا۔کسی کو حکومتی رکن ‘ دوڑ کے پکڑ رہا تھا تو کسی کو ایوان اقتدار کی کرسیوں میں جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ یہ بڑا تماشا تھا۔ مگر آخر میں ہمارے بلوچ بھائیوں نے لمبی چوڑی بھاگ دوڑ کے بعد جو نتیجہ نکالا‘ وہ یہ تھا کہ سب اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ جائیں۔ لیکن یہ بھاگ دوڑ کیوں ہوئی؟ اس کا اندازہ تو شاید وہاں کے رپورٹروں کو بھی نہ ہو۔
ہماری پنجاب اسمبلی بھی کسی سے کم نہیں۔ا قتدار میں ایک ہی پارٹی ہے۔ پارٹی کے رہنما بھی ایک ہی پارٹی سے ہیں۔لیکن چولہے الگ الگ ہیں۔ خاندان کے سربراہ‘ میاں نوازشریف ہیں۔ چھوٹے میاں کی حکومت صوبے میں ہے لیکن چھوٹا شیر بہت غصے والا ہے ۔ اپنی پوری کابینہ یا کنبے کو خوب اچھی طرح ڈسپلن میں رکھتا ہے۔ لیکن بڑے بھائی کے سامنے بھیگی بلی بن کے رہتاہے۔ چند روز پہلے بڑے میاں نے اپنے کنبے کو دبائو میں رکھنے کی کوشش کی توکئی اراکین بدھک گئے۔ ہر کوئی اپنی اپنی وزارت کا برانڈ بنا کر پالیسیاں چلانے لگا۔ایک خواجہ آصف صاحب تھے‘ وہ پہلے چھوٹے میاں کے ڈسپلن میں تھے لیکن تھوڑے ہی دنوں کے بعد وہ بڑے میاں کے گروپ میں شامل ہو گئے۔ لیکن بڑا خواجہ اپنی ٹیم میں ٹکنا چھوڑ گیا۔کبھی عرب ملک میں کھاتہ کھول لیا۔کبھی لندن میں بڑے لنگر میں اپنی پلیٹ رکھوالی۔دل چاہا تو لاہور میں اپنا کچن کھول لیا۔ کبھی ہوٹل میں جا کر دو پلیٹیں رکھوا لیں توکبھی سیالکوٹ والے گھر میں جا کے ایک پلیٹ میں تسلی کر لی۔
آج کل خاندان کی سربراہی کا اختیار ڈھیلا پڑ گیا ہے۔خاندان میں چھوٹے چھوٹے دسترخوان بن گئے ہیں۔ چوہدری نثار علی خان اپنا کھانا الگ پکواتے ہیں۔ الگ کھاتے ہیں۔ اور کبھی نہیں بھی کھاتے۔بیگم صاحبہ چند ہفتوں سے علیل ہیں۔ اس لئے میاں صاحب نے اپنی بیٹی کو سیاسی سرگرمیوں میں مصروف کر دیا ہے۔ جب سے بیٹی نے سیاست میں دلچسپی لینا شروع کی ہے‘ پارٹی میںالگ الگ ٹیمیں بننے لگی ہیں۔ بیٹی نے سہیلیوں کا سیاسی گروپ بنا رکھا ہے اور والد صاحب نے اپنے ساتھی بنا رکھے ہیں۔لیکن بڑے میاں صاحب کو یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ ان کے گروپ میں کون ہے؟ اور کب ان کا وفادار؟امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے ایران اور سعودی عرب دونو ں کے کان پکڑ کر حکم دیا ہے کہ'' امریکہ کا دماغ درست کرو‘‘۔