سوات کے مولوی نے کہا: میںسپریم کورٹ کو تسلیم نہیں کرتا ۔ جس جلسے میں یہ اعلان کیا اس کی لائیو کوریج تک نہ ہوئی ۔ پھر بھی ریاست حرکت میں آگئی ۔ ملزم گرفتار ہوئے ، بغاوت اور ملک دشمنی کے مقدمے بنے ۔ سال ہا سال جیل میں بند رہنے کے بعد رہا ہو سکے ۔
ایک اور بولا میں پارلیمنٹ کو تسلیم نہیںکرتا ۔ ریاستی اداروں نے اس کے خلاف بھی فوری ایکشن لیا ۔ یہ دونوں نان سٹیٹ ایکٹر ٹھہرائے گئے ۔ دوسری جانب ہے تین بار وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے والا لوکل گوربا چوف۔ ملک کی آخری عدالت نے اسے 4بار جُھوٹا دو مرتبہ نا اہل قرار دیا ۔ ذرا اس کے الفاظ سنیے : میں پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو نہیں مانتا ۔ ان تین ، چار ، پانچ ججز نے مجھے کیسے نکالا،کیوں نکالا ۔ میری اہلیت کا فیصلہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں نہیں بلکہ پٹواری جلسے کے میدان میں ہوگا۔ پھر کہا :میں پارلیمنٹ کے منتخب کردہ وزیراعظم کے فیصلے کو مسترد کرتا ہوں ۔ و ہ فیصلہ جوکیبنٹ کمیٹی آن نیشنل سکیورٹی نے کیا ۔ کرسی ِصدارت پربیٹھا وزیر اعظم بولا: جوائنٹ چیف آ ف سٹاف ، آرمی چیف، نیول چیف،ائیر چیف۔وزارتِ دفاع ، وزارتِ خارجہ کا متفقہ فیصلہ نہیں مانوں گا۔ سوات کے ملزم چھوٹے صوبے کے تھے فوراً پکڑے گئے ۔ یہ ملزم سرکاری خرچ پر چلنے والے اداروں کے زور پر دندناتا پھر رہا ہے ۔ نہ پکڑ ،نہ پوچھ گچھ، نہ ہی اسے کوئی نان سٹیٹ ایکٹر کا نام دے گا۔
اپنی جانب سے لوکل گوربا چوف نے انکشاف کا جو چھکا مار ا ہے ۔ آئیے ا س کا فرانزک آڈٹ کرتے ہیں۔ اس حوالے سے تین باتیںذہن میں رکھ لیں۔ پہلی : نواز شریف نے یہ بیان دینے کے لئے اس''ٹائمنگ ‘‘ کا انتخاب کیوں کیا ۔ اس کا واقعاتی ثبوت یہ ہے کہ F.A.T.Fکی جانب سے دہشت گردی کی عالمی واچ لسٹ گرے (GREY) میںشامل نہ کرنے کے لئے پاکستان کو 21فروری سے لے کر جاری ماہ مئی 2018ء تک تین مہینے کا وقت دیا گیا تھا۔ پاکستان کو گرے لسٹ میںنہ ڈالے جانے کی شرط ایک ہے۔ پاکستان اس عرصے میں ثابت کرے‘ اس کی سرزمین سے کوئی دہشت گرد گروپ کسی دوسرے ملک میںآپریٹ نہیں کرتا۔ ذرا غور فر مائیے 21مئی سے صرف 9دن پہلے نواز شریف کا بیان سامنے آیا۔ کہا: پاکستان نے ممبئی دہشت گر د حملوںکی اجازت دی۔ نتیجے میں 150ہندو ستانی شہری مارے گئے ۔ جواب آپ خود تلاش کر لیں۔ نوازشریف کا بیان بھارت کو فائدہ پہنچانے کے لئے دیا گیا یا پاکستان کو F.A.T.F کی گرے لسٹ میںشا مل کروانے کے لئے ۔ یہ بھی یاد رکھیے کہ گرے لسٹ میں جانے کے تین ماہ بعد (خدا نخواستہ ) اگلا مرحلہ بلیک لسٹ میںشمولیت کا آئے گا۔ جس کا سیدھا مطلب ہے پاکستان، لیبیا ، ایران ، یمن اور شام کی صف میں دھکیلا جا سکتا ہے۔ بین الاقوامی پابندیاں اور وہ سب کچھ جس کیلئے بھارت 70 سال ترستا آیا‘ عین ممکن ہو سکے گا۔ اس پالیسی پر بھی غور کریں جس کے نتیجے میں لوکل گوربا چوف نے چار سال سے زیادہ وزارت ِ خارجہ کا قلم دان خالی رکھا۔ مودی کے ساتھ وَن آن وَن ملاقات اور کان میں گفتگو کی ڈپلومیسی چلائی ۔ ان ملاقاتوںسے وزارتِ خارجہ کو باہر کیا۔ ساتھ وزیر اعظم کے باوردی عملے اور ملکی سلامتی کی ذمہ دار ایجنسیوں کو ان گفتگوئوں سے دور رکھا ۔ ظاہر ہے یہ سب کچھ حب الوطنی تھی ناں ۔ اگر یقین نہ آئے تو اس لانگری بٹالین سے پوچھ لیں‘ جس میں شامل ایک لشکری بھی ایسا نہیں جس کو دوسے کم تنخواہیں ملتی ہوں ۔ جی ہاں آپ درست سمجھے سرکار ی خزانے اور قومی بجٹ سے۔ جو کنفر م کرناچاہے‘ دس دن بعد یکم جون کو اے۔ جی۔ پی۔ آر سے پوچھ لے ۔
لوکل گوربا چوف کے بھارت نواز بیان میںفرانزک آڈٹ کا دوسرا نکتہ ہے اجمل قصاب پاکستانی تھا ، پنجاب میں پیدا ہوا۔ قصاب نے ایسی پنجابی بولی جو نواز شریف کو سمجھ آگئی اور یہ بھی پتا چل گیا کہ پاکستانی پنجاب میں اس کا گھر کہا ں واقع ہے۔ فرانزک آڈٹ کا تیسرا نکتہ یہ ہے کہ اجمل قصاب جہادی شدت پسند تھا۔ پاکستان سے ریاستی سرپرستی میںبھارت گیا۔ جہاں زندہ گرفتار ہوا ۔ پھانسی سے پہلے اعترافی بیان بھارتی پولیس افسر نے ویڈیو پر ریکارڈ کر لیا ۔
اس ویڈیو نے سوشل میڈیا پر دھوم مچا رکھی ہے۔ وکالت نامہ پڑھنے والے ویڈیو ضرور دیکھیں۔ 2منٹ 35سیکنڈ کی گفتگو سن کراجمل قصاب کے بارے میںفیصلہ دیں کیا وہ پنجابی زبان بول رہا تھا۔ یہ لہجہ پنجاب کے کس ضلع کا ہے۔کوئی شدت پسند جہادی فدائی مرنے سے پہلیـ'' اللہ ‘‘کو یا د کرے گا یا ''بھگوان ‘‘کو پکارے گا ۔ (گفتگو یہ ہے)
اجمل قصاب : پتہ نہیں 2-2 1/2میگزین تھا۔ انڈین افسر : 2 1/2میگزینوں میں کتنے لوگوں کو مارا؟
اجمل : پتہ نہیں بس ایسے چلاتے رہے ۔ ۔۔۔ بس چلاتے رہے ۔
افسر :کس کو مارنے کیلئے بتایا تھا ؟
اجمل : لوگوں کو ۔
افسر: لوگوں میں سے کسی Specificکا نام بتایا تھا۔؟ اس کو مارو۔ ادھر جائو ۔
اجمل: نہیںنہیں ۔
افسر : ابھی ، یہ آج کتنے بجے تک کام کرنے والے تھے؟
اجمل : نہیں نہیں ، وہ بولتا تھا جب تک زندہ رہو مارتے رہو ، مارتے ہو۔
افسر : کتنے لوگ آئے تھے؟
اجمل : ہم کو دو کا پتا ہے ، اور بھی تھے لیکن ہماری آنکھوں پہ پٹی تھی، ہم دو کو علیحدہ اتار دیا بس۔
افسر: اچھا کتنے لوگ تھے وہ ؟
اجمل: باقی کا پتہ نہیں ۔
افسر : کیوں؟ یہ تو بتانا پڑیگا ناںتم کو یار ابھی تم کو ۔
اجمل : بھائی نہیںپتہ ، میں کیسے بتائوں گا تم کو، جب پٹی بندھی ہے ناں ، کہتے ہیں راز ہوتا ہے کوئی ، تو راز دوسرے کو نہیں بتاتے ، یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں ، تو آنکھوں میںپٹی باندھ دیا ، ہم دونوں کو، ہم نے دیکھا صرف جب ہم کو اس لانچ میں بٹھا رہے تھے ناں انڈیا والی کی،
افسر : کہاں ؟ کہاں پہ اس لانچ پے بٹھا یا ؟
اجمل: جدھر انڈیا اور پاکستان کی لانچیں مکس ہوتی ہے۔ ادھر۔
افسر: اچھا وہ لانچ انڈیا کی تھی؟
اجمل : ہاں وہ تھی ۔
افسر: کیانام تھا ان کا جو انڈین لانے والے تھے؟
اجمل: نہیں جانتے ۔
افسر: اور ادھر کون انڈیاکا تھا جس نے سپورٹ کروایا آپ کو؟
اجمل : پتہ نہیں بھائی جان۔
افسر : ابھی رہنے کا ، کھانے کا، وغیرہ ، وغیرہ ۔
اجمل : پتہ نہیں ان کا ، ان کا ایسا کون بتائے گا۔ وہ ۔
افسر: نہیں دیکھو، تم تو Perfectٹریننگ لیاہے۔ تم تو ابھی یہ سب
کرنے کے بعد مرنے والے ہی توہو ۔برابر ہے کہ نہیں ۔
اجمل : ہاں ،ہاں ۔
افسر : یعنی یہ کہ ٹریننگ تو بہت اچھا لیا تم لوگوں نے، برابر ہے، جہاد کرنے کو آئے ہے۔ ناں تم لوگ ہے کہ نہیں ۔
اجمل ؛ کیا جہاد ہے صاحب ؟
افسر : نہیں ابھی ،ابھی او۔کے ، ٹھیک ہے رونے سے کوئی فائدہ نہیں جو بھی پوچھا ہے صحیح بتانا ہے۔ برابرہے کہ نہیں ۔
اجمل: کیسے سمجھائوں تم کو ۔ چلو کہو۔
افسر : ابھی روکر کوئی فائدہ ہے کیا؟ ابھی اگر صحیح صحیح بتائے گا تو ابھی جوجانیں ضائع ہو چکی ہیں ۔ غریب لوگوں کی، وہ تو جانے تمہارے وجہ سے لوگ مر گئے ناں ابھی ۔
اجمل: ''بھگوان مجھے نہیں معاف کرے گا۔‘‘
اجمل ایسا جہادی تھا ،جو بھگوان کو جانتا تھا جہاد کو نہیں۔نجانے کیوں نواز شریف کی تقریر کا جُملہ یاد آیا۔''یہ جو تمہارا بھگوان ہے اس کی ہم بھی پو جا کرتے ہیں‘‘۔
نعوذباللہ من ذَلِک۔