تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     18-05-2018

چنگ چی مارکہ رائے

نواز شریف صاحب کے بیان کی گرد ہے کہ بیٹھنے میں ہی نہیں آرہی تو اِس نے سیاسی میدان کو بھی خوب گرما رکھا ہے۔ کسی کے لیے نواز شریف کا بیان ملک دشمنی کے زمرے میں آتا ہے تو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سمیت بہت سے رفقائے کار سابق وزیراعظم کا دفاع کرنے میں مصروف ہیں لیکن فی الحال میاں صاحب کے بیان کو ملک دشمنی کے پلڑے میں تولنے والوں کا پلڑا ابھی تک تو بھاری دکھائی دے رہا ہے، اورتو اور ایسے کسی بھی موقع کی عین مناسبت سے نہ صرف غداری کے سرٹیفکیٹس بھی تقسیم ہوئے بلکہ ملک کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں تو،سول سوسائٹی،کی جانب سے بڑی تعداد میں بینرز بھی آویزاں کردئیے گئے ،، تحریر وہی مقبول عام،،مودی کا جو یار ہے ، غدار ہے غدار ہے۔ غالب گمان ہے کہ مطلوبہ نتائج حاصل ہونے تک یہ سلسلہ ابھی کچھ دیر تک چلتا رہے گا جس کے بعد ہرطرف اُڑتی ہوئی گرد بیٹھتے بیٹھتے کچھ اِس طرح سے بیٹھ جائے گی کہ سوائے فریقین کے کسی کو یاد بھی نہیں رہے گا کہ ایسا کچھ ہوا تھا، بالکل ویسے ہی جیسے اب تک کے سب سے بڑے سانحے کا بس اب 16دسمبر کو ہی تذکرہ ہوتا ہے، کچھ لوگوں کی لعن طعن کی جاتی ہے کچھ کی تعریف ہوتی ہے اور بس،یا پھر مطلوب ترین دہشت گرد کی۔ ہمارے ملک سے برآمدگی کے موقع پر جو شور اُٹھا تھا وہ بھی بھلا اب کس کی سماعتوں میں محفوظ ہو گا تو کہنے کا مطلب ہے کہ، ہوتا ہے شب و روز تماشہ مرے آگے ۔
ویسے بھی یہ پہلی بارتو ہوا نہیں کہ میاں نواز شریف کو 'انڈیا نوازی'اور 'مودی کے یار'جیسے الزامات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو لیکن اللہ تعالیٰ نواز شریف کی عمر دراز کریں،،آپ ہمیشہ خوش و خرم رہیں کہ اِن کی بدولت ملکی سیاست اور تبصروں کی دنیا میں جو گرما گرمی پیدا ہوئی ہے اُس نے بہتوں کابھلا کردیا ہے اور جس مقصد کے لیے یہ گرما گرمی پیدا کی گئی ہے وہ مقصد حاصل کرنے والے بھی اِسے حاصل کرکے ہی رہیں گے اور ویسے بھی اب تو اپنی اپنی جیت کے لیے فریقین کی طرف سے آخری حدوں تک جانے کے آثار پوری طرح سے واضح ہوچکے ہیں اور بقول میاں صاحب کے اب فیصلہ ہوہی جانا چاہیے کہ کون محب وطن ہے اور کون ملک دشمن ، اِس فیصلہ کن گھڑی میں میاں صاحب کے مخالفین کی طرف سے یہ ثابت کرنے کی بھرپورسعی کی جارہی ہے کہ تین بار ملک کی وزیراعظم رہنے والی شخصیت تو غدار ہے ، وہ تو اللہ تعالی کا شکر ہے کہ اُن کی وزارت عظمی کی تیسری ٹرم کے موقع پر اُن کی ملک دشمنی کی بابت معلوم ہوگیا ورنہ تو پتہ نہیں کیا ہوجاتا ، جو اُن کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اُن کی طرف سے میاں صاحب کے لیے دعائیں کیے جانے کے ساتھ ساتھ اُنہیں کافی مفید مشوروں سے بھی نواز جارہا ہے کہ اُنہیں اِس مشکل صورت حال سے نکلنے کے لیے کیا کرنا چاہیے اور ایسے میں تو مجھ جیسوں کی بھی نکل پڑی ہے کہ ہم بھی اُنہیں اپنے چنگ چی مارکہ مشوروں سے نواز سکیں، بالکل ویسے ہی جیسے چنگ چی رکشے میں ساتھ بیٹھا ہوا مسافر ڈنگ ٹپانے کے لیے ہونے والی گفتگو کے دوران کینسر کے علاج تک کا نسخہ بتا دے گا اور ساتھ میں ضد بھی کرے گا کہ اُس کے مشورے پر عمل کرنے میں ہی بھلائی ورنہ نقصان ہوسکتا ہے ، ، تربوز فروش بھی دھڑلے سے بتائے گا کہ جگر خراب ہوجائے تو کوار گندل کا رس نکال کر پیا کرو تو یہ سب کم از کم اتنی عقل تو رکھتے ہی ہیں کہ سابق وزیراعظم کو مشکل صورت حال سے نکلنے میں مدد فراہم کرسکیں‘ سو مخالفت بھی ہورہی ہے ، مفید مشورے بھی دیے جارہے ہیں، اور سچی بات تو یہ ہے کہ ویسے بھی محسوس کچھ ایسا ہی ہورہا ہے کہ جو کچھ بھی ہونا ہے اب ہو ہی جانا چاہیے ،باقی ماندہ بلی بھی تھیلے سے باہر نکل آنی چاہیے کیونکہ سابق وزیراعظم نے جس بات کا اختصار کے ساتھ تذکرہ کیا ہے بہت سے لوگ ماضی میں اس سے زیادہ وضاحت کے ساتھ کہہ چکے ہیں لیکن بھلا اتنے، نازک وقت پر تو کوئی ایسا نہیں کہتا، وہی نازک وقت جس سے ہمارا ملک روز اولین سے ہی گزر رہا ہے یا پھر وہ نازک وقت جب ماں دھڑ دھڑ کپڑے دھونے والے تھاپے سے مارتی بھی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہتی ہے کہ خبردار ،،تیرے منہ وچوں آواز وی نکلی،،لیکن جب چوں چوں کرتے رہنے کے بعد قوت برداشت جواب دے جاتی ہے، اُس کے بعد جو آواز نکلتی ہے وہ بہت دورتک سنی جاتی ہے ، جسے جوکوئی بھی چاہیے اپنی مرضی کا پہناوا پہنا لے ، یہ آواز سننے والوں کی مرضی ہے۔ وہ مرضی جس میں اپنے اپنے مفادات بھی پنہاں ہوتے ہیں ورنہ تو اس موقع پر نیویارک ٹائمز کے ایک کالم میں سابق صدر آصف علی زرداری کا لکھا ایک کالم بھی یاد آرہا ہے جس میں اُن کا کہنا تھا کہ ممبئی حملوں کا نشانہ نہ صرف بھارت بلکہ پاکستان کی نئی جمہوری حکومت اور اس کے ساتھ چلنے والا امن کا عمل بھی تھا کیونکہ غیر ریاستی عناصر نہیں چاہتے کہ پاکستان میں مثبت تبدیلیاں جڑ پکڑیں بلکہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں فساد کو ہوا ملے ،یا پھر اِس وقت ، سیاست کی بلندیوں ، کی طرف گامزن سیاسی شخصیت کا ڈیوڈ فراسٹ کو دیا گیا انٹرویو جس کا مطلوبہ حصہ یہاں نقل کرتے ہوئے پر جلتے ہیں لیکن تب اِن بیانات پر اتنا شدید ردعمل مقصود نہیں تھا،اور سچی بات تو یہ ہے کہ ہم تو ابھی تک یہی نہیں سمجھ پا رہے کہ میاں نواز شریف اِس بیان سے حاصل کیا کرنا چاہتے تھے یا کرنا چاہتے ہیں، ہماری چنگ چی مارکہ رائے کے مطابق وہ شاید یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ اُنہیں اور اُن کی جماعت کو پوری طرح گھیر لیا گیا ہے ، پہلے اُنہیں وزارت عظمی سے نااہل کیا گیا اور اُس کے بعد جماعت کی قیادت بھی اُن سے چھین لی گی تو پھر اُنہوں نے بھی آخری حد تک مزاحمت کرنے کا ارادہ کرلیا ہے لیکن یہ بات تو وہ بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ خربوزہ چھری پر گرے یا چھری خربوزے پر کٹنا تو خربوزے کو ہی ہوتا ہے لیکن پھر بھی، یاپھر اپنے نئے بیانیے سے وہ عالمی طاقتوں اور دوست ممالک کی حمایت حاصل کرکے موجودہ مشکل صورت حال سے نکلنا چاہتے ہیں یا پھر ہو نہ ہو وہ یہ چاہتے ہیں کہ اپنے جیل جانے سے پہلے پہلے اُن پر لگائے گئے بدعنوانیوں کے الزامات کی نوعیت تبدیل ہوکر اینٹی اسٹیبلشمنٹ معرکے کا سا رخ اختیار کرلے کیونکہ وہ اکثر جیل جانے کی باتیں کرتے رہتے ہیں جیسے اُنہیں خود بھی محسوس ہورہا ہوکہ اب اُن کا جیل جانا طے ہے۔ یا پھر وہ سچ میں یہ چاہتے ہیں کہ ملک میں سول بالادستی ہو، پارلیمنٹ اتنی مضبوط ہوجائے کہ اِس کے اندر ہونے والے فیصلوں کو ،تمام ادارے تسلیم کریں اور وہ اِسی کو جواب دہ ہوں لیکن اِن سب تمام ممکنات میں سے وہ ایک بات کو مدنظر نہ رکھ سکے کہ جہاں بھارت کا نام آئے گا وہاں یا تو حب الوطنی کی بات ہوگی یا پھر ملک دشمنی کی اور خدالگتی بات تو یہی ہے کہ اُنہیں احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے تھا ۔
قصہ مختصر یہ کہ اِس تمام معاملے میں فریقین کیا کھوتے ، کیا پاتے ہیں ، اُس کے لیے جاری جنگ تو ابھی کچھ دیر تک چلے گی لیکن یہ تو طے ہے کہ میاں نواز شریف کے متنازع بیان کو متعدد،طاقتور اور کمزور ممالک نے بھی کافی سنجیدگی سے لیا ہے اوراِس سے امریکہ، بھارت، افغانستان ، چین سمیت متعدد ممالک کے اِس بیانیے کو تقویت حاصل ہوئی ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف مزید سنجیدہ کوششیں کرنی چاہئیں،ہاں پر ایک بات ضرور ہے کہ نان اسٹیٹ ایکٹرز دنیا بھر میں ہوتے ہیں جنہیں حکومتیں اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں اور پاکستان تو بھارت کے اسٹیٹ ایکٹر کلبھوشن یادیو کو گرفتار کرچکا ہے جو واضح طور پر اِس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کررہا ہے لیکن معلوم نہیں پھر بھی دنیا ہمارا موقف تسلیم کیوں نہیں کرتی، نہ افغانستان کے حوالے سے نہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے حوالے سے اور اِسی تناظر میں میاں نواز شریف کے بیان کے باعث طاقتوروں کو کسی حد تک بیک فٹ پر تو جانا پڑا ہے لیکن اُن کے پاس جوابی وار کے لیے کارگر ہتھیاروافر تعداد میں موجود ہیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved