یہ دنیا کیا ہے ؟ کن اصولوں پر یہ قائم ہے ؟ زندگی کیا ہے ؟ انسان یہاں کیا کر رہا ہے اور اسے شعور کی یہ آنکھ کیونکر عطا ہوئی؟ خوشی اور غم پہنچانے والی چیزیں کیا ہیں اور کیوں ہمیں بار بار ان سے واسطہ پڑتا ہے ؟ یہ وہ سوالات ہیں، ہر انسان پہ جن کا جواب ایک قرض ہے۔صرف انسان پہ یہ فرض عائدہوتا ہے کہ باقی مخلوقات تو غور کرنے اور جواب دینے کے قابل ہی نہیں۔
انسان اگر نہ ہوتا تو تخلیق کی یہ پوری داستان جنگل میں مور ناچا، کس نے دیکھا کے مصداق ضائع چلی جاتی ۔ ہوا یہ کہ ایک دھماکے کے نتیجے میں ہائیڈروجن گیس پیدا ہوئی ۔ اس ہائیڈروجن گیس سے سورج بنے ، جن میں سے ایک ہمارا سورج بھی ہے ۔ہم اپنے اس سورج کے گرد گھوم رہے ہیں۔ ہمیں یہ بہت بڑا اورروز صبح کے وقت مشرق سے طلوع ہوتا ہوا نظر آتاہے ۔ جب کہ دوسرے سورج بہت دور ہیں اور اس فاصلے کی وجہ سے چھوٹے اور ٹمٹماتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ ہمارا اپنا سورج زمین پر زندگی کو درکار حرارت اور توانائی فراہم کرتاہے ۔ ایک بہت بڑے عرصے تک انسان کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ آسمان پر جو دور ٹمٹماتے ہوئے ستارے نظر آتے ہیں ، ان میں سے ہر ایک بھی اپنی جگہ ایک مکمل سورج ہے ۔ ان کے گرد بھی زمینیں اسی طرح گھوم رہی ہیں ، جیسا کہ ہمارے سورج کے گرد زمین اور دوسرے سیارے گھوم رہے ہیں ۔
ان سورجوں کے اندر ہائیڈروجن گیس کو بطور خام مال استعمال کرتے ہوئے دوسرے عناصر پیدا ہونے شروع ہوئے۔ ان عناصر کی کل تعداد 92تھی۔ ان 92عناصر میں سے ایک کا نام لوہا ہے ۔ ان میں سے ایک کا نام آکسیجن ہے اورایک کاکیلشیم ۔ جب یہ 92عناصر ایک دوسرے سے ملے تو ان کے ملنے سے عجیب و غریب چیزیں بنیں ۔دو چیزیں جو جلنے والی ہوتیں ، ان کے ملنے سے بجھانے والی چیز بن گئی۔ ہائیڈروجن گیس دھماکے سے جلتی ہے ، آکسیجن جلنے میں مدد دیتی ہے ۔ ان دونوں کے ملنے سے پانی بن گیا ، جو بجھاتا ہے۔ اسی طرح آکسیجن جب ایک عنصر کے ساتھ ملی تو اسے کچھ بنا دیا ، دوسرے عنصر کے ساتھ ملی تو اسے کچھ سے کچھ کر دیا۔ یوں یہ 92عناصر زمین و آسمان کی ہر وہ چیز بناتے ہیں ، جو ہم دیکھ سکتے ہیں ۔
ان 92عناصر سے بننے والی چیزوں میں جاندار بھی شامل ہیں ۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک نیلے سیارے پر ، جسے کرّئہ ارض کا نام دیا گیا (انسان کی طرف سے)اس پر ان 92میں سے کچھ کے ملنے سے جاندار پید اہوئے ۔ ایک زمین پر کچھ عناصر کے ملنے سے زندہ چیزوں کا پیدا ہونا، یہ ایک ایسی حیرت ہے کہ سوچنے سمجھنے والے ذہن ہمیشہ اس پر حیران ہوتے رہیں گے۔سائنسدان یہ کہتے ہیں کہ اگر کائنات میں زندگی پید اہو سکتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ کچھ بھی ہو سکتاہے ۔ بڑی سے بڑی عجیب بات ہو سکتی ہے ۔ سائنسدانوں کے لیے زندگی سے بڑی عجیب بات اور کوئی نہیں۔ایک دفعہ پھر دہراتا ہوں: 92عناصر میں سے کچھ کا آپس میں مل کر زندہ چیزوں کی شکل اختیار کر لینا ۔یہ انتہائی حد تک حیرت کی بات تھی ۔ہمارے جسموں میں انہی 92عناصر میں سے لوہا ، آکسیجن ، ہائیڈروجن اور کچھ دوسرے مختلف مقدار میں استعمال ہوئے ہیں ۔
یہ زندہ چیزیں کرئہ ارض کے علاوہ کسی اور سیارے ،یا ان کے کسی چاند پر بھی دریافت نہیں ہو سکیں ۔وہاں لوہا پڑا ہوگا، کاربن ہوگا، ہائیڈروجن ہوگی لیکن یہ سب مل کر زندہ چیزیں نہیں بنا سکے ۔ زمین پر پیدا ہونے والی ان جاندار اشیا کی مخصوص خصوصیات تھیں۔ یہ جوڑوں کی شکل میں تھیں۔ ان میں اپنی نسل کو آگے بڑھانے اور اس کی حفاظت کی خواہش تھی۔ یہ جاندار چیزیں اس قدر زیادہ تعدا د میں تھیں کہ ان کی درست تعداد گنی بھی نہیں جا سکتی تھی ؛البتہ مختلف اندازے قائم کیے جا سکتے تھے اور کیے گئے ۔ان میں سے ایک اندازہ یہ ہے کہ اس وقت 87لاکھ قسم کی مخلوقات زمین پرزندگی گزار رہی ہیں ۔ اگر فاسلز کا ریکارڈ دیکھا جائے اور ڈیٹا سپر کمپیوٹرز میں ڈالا جائے تو اس سے ایک اندازہ یہ قائم کیا گیا کہ ماضی میں 5ارب قسم کی مخلوقات اس زمین پر زندگی گزار چکی ہیں ۔ ماضی کی ان پانچ ارب اور حال کی ان 87لاکھ مخلوقات میں سے ایک ، صرف ایک کا نام انسان ہے ۔ یہ الگ بات کہ اس ایک مخلوق یعنی انسانوں کی تعداد بھی سات ارب سے تجاوز کر چکی ہے ۔
یہ سات ارب انسان اسی زمین سے اگنے والی گندم، چاول ، پھل اور سبزیاں کھاتے ہیں ۔اسی زمین پر پیدا ہونے والے جانوروں کو ذبح کر کے کھاتے ہیں ۔ انسان تو خیر عقلمند ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ باقی 87 لاکھ قسم کی مخلوقات کی ضروریات بھی پوری ہو رہی ہیں ۔ چاہے وہ گلی میں پھرتا آوارہ کتا ہے یا پھر گٹر میں جنم لینے والا ایک گندا کیڑا ۔ حیرتوں کی حیرت یہ کہ حال کے یہ 87لاکھ اور ماضی کی ان 5ارب قسم کی مخلوقات میں سے صرف اور صرف ایک یعنی کہ انسان نے وہ کام کیے ، جو اس سے پہلے کبھی کسی نے نہیں کیے تھے۔ اس نے لباس پہننا شروع کیا، آگ استعمال کرنا شروع کی ، فصلیں اگائیں ، مردے دفنائے ، خدا کے وجود پر بحث کی۔ اس نے ایٹم توڑ کر اس سے پیدا ہونے والی توانائی سے تباہی پھیلائی اور بجلی پید اکی۔ اس نے ہر قسم کے پیچیدہ اوزار بنائے۔ اس نے لوہے سے انجن بنایا، اس انجن میں تیل جلاکر پیدا ہونے والی توانائی سے گاڑی کو دوڑایا ۔ اس نے حکومت، عدالت اور قانون کے ادارے تشکیل دیے ۔اس نے ٹریفک کے قوانین بنائے ۔ صرف اور صرف اس ایک مخلوق نے عبادت گاہیں بنائیں۔ قربانی سمیت ، اس نے مذہبی تہوار منانے شروع کیے ۔ اس نے خلا کا سفر کیا۔ اس نے ایسے میزائل بنائے، جن پر بیٹھ کر چاند اور قریبی سیاروں پر انسان یا انسان کے بنائی ہوئی مشینیں اتر سکتیں ۔ اس ایک مخلوق نے اس قدر ترقی کی کہ نظامِ شمسی کے سب سے دور والے سیاروں پر بھی اپنے آلات بھیج دئیے؛حتیٰ کہ ایک سیٹیلائٹ نظامِ شمسی کی حدود سے ، اپنے اس سورج کی حدود سے بھی باہر بھیج دیا ۔ اب آپ اندازہ لگائیں کہ زمین کے اندر موجود لوہے سے میزائل بنانا، زمین کے نیچے سے توانائی کے ذخائر نکال کر میزائل میں ان کو جلانا ، زمین کی کششِ ثقل کو توڑ کر خلا تک پہنچنا اور پھر کمیپوٹر کی مدد سے سمت کا تعین کرتے ہوئے سب سے دور دراز والے سیاروں پر اپنے آلات اتار دینا ۔ پانچ ارب میں سے ایک مخلوق یہ سب کر رہی تھی ۔ باقی چار ارب ننانوے کروڑ ننانوے لاکھ ننانوے ہزار نو سو ننانوے میں سے دوسری کوئی بھی نہیں ۔ آپ سوچیں کہ یہ کس قدر حیرت ناک ماجرا ہے ۔اس کے باوجود انسانوں میں سے کچھ کا خیال ہے کہ خدا نہیں ہے ۔ ا ن کا کہنا یہ ہے کہ یہ سب کچھ اتفاق سے ہو رہا ہے ۔ ان کا خیال یہ ہے کہ ایک دن ہم دوبارہ زندہ نہیں کیے جائیں گے اور ہمارا حساب نہیں ہوگا ۔
خیر وہ وقت آنے والا ہے ، جب ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان اس تنازعے کا فیصلہ کیا جائے گا اور وہ وقت اب بہت قریب ہے ۔