دنیا ٹی وی پر مسعود رضا‘ لیاری کی مختلف آبادیوں میں رائے عامہ اور انہیں درپیش مسائل پر بات کر رہے تھے‘ تو لیاری کے ایک محلے سے کسی نے انہیں پانی کی بوتل دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ ہے وہ پانی جو ہمارے نلکوں سے نکل رہا ہے۔ مسعود رضا نے سمجھا کہ شاید پی پی پی کے کسی سیاسی مخالف نے یہ بوتل بھیجی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ خود یہ پانی نکال کر دیکھنا چاہیں گے۔ اور جب ایک گھر کا نلکا کھول کر مسعود نے پلاسٹک کی بوتل میں پانی بھرا تو اس سے اٹھنے والے تعفن سے ان کا برا حال ہو گیا۔ پانی کیا تھا، ایسا لگ رہا تھا، کسی گٹر کا ڈھکن کھل گیا ہے۔ سندھ کا تھر ہو یا سکھر کے نواح میں درختوں کے نیچے ڈرپ لگے لیٹے ہوئے مریض، ہر جگہ ایک جیسی حالت ہے۔ کراچی میں ہر جانب کچرا اور پانی کی ایک ایک بوند کو ترستے لوگ نظر آتے ہیں۔ سات سے پندرہ برس عمر کے بچوں کے ہاتھوں میں بڑی بڑی بوتلیں ہوتی ہیں اور وہ پانی کیلئے در بدر بھٹکتے نظر آتے ہیں۔ کئی بار سوچا کہ گیارہ مارچ 2018ء کو سندھ یونیورسٹی جام شورو کے کانووکیشن کے موقع پر قومی سرمائے کی بربادی پر سندھ کے وزیر اعلیٰ سائیں مراد علی شاہ سے کچھ گزارشات کروں‘ لیکن اس دوران ملکی سیاست میں ایسے اتار چڑھائو آتے رہے‘ جنہوں نے اپنی جانب متوجہ کئے رکھا؛ تاہم دو دن ہوئے کہ دو مختلف نجی چینلز پر پیپلز پارٹی سینٹرل پنجاب کے صدر قمرالزمان کائرہ اور سینیٹر اعجاز دھامڑہ کے ارشادات سننے کا اتفاق ہوا‘ جن میں وہ سندھ حکومت کی کارکردگی کے بارے میں ایسے ایسے دلفریب انکشافات کرتے نظر آئے‘ جنہیں سن کر لگ رہا تھا کہ پی پی پی سے بڑھ کر ملکی خزانوں کا کوئی اور محافظ نہیں اور اگر کسی نے گڈ گورننس دیکھنی ہے تو اسے یا تو کائرہ صاحب یا اعجاز دھامڑہ کی زبانی سننا چاہئے یا پھر سندھ کے وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ کے ڈیروں اور حجروں میں۔
11 مارچ کو جام شورو یونیورسٹی کے قریب سے گزرنے کا اتفاق ہوا تو ہر جانب پی پی پی کی لیڈرشپ کا تشہیری طوفان دیکھ کر سوچا‘ شاید آج بلاول کا کوئی جلسہ ہے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یونیورسٹی میں کانووکیشن کی تقریب ہے‘ جس کے مہمان خصوصی وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ ہیں‘ جو سال 2015ء کے طلبا کو ان کے مضامین میں کامیابی پر ڈگریاں تقسیم کرنے کیلئے تشریف لا رہے ہیں۔ جس چیز نے مجھے اپنی جانب متوجہ کیا‘ وہ پی پی پی اور مسلم لیگ نواز کا ایک جیسا طرز عمل ہے۔ خیر سے جس طرح پنجاب میں کسی بھی جگہ پر بنائے گئے عوامی بیت الخلا پر‘ سرکاری بس کے آگے اور پیچھے، کسی دیوار کی مرمت یا گلی کی صفائی کیلئے لگائے گئے بورڈ پر‘ ہر جگہ آپ کو میاں شہباز شریف‘ تو کہیں میاں نواز شریف، مریم صفدر اور حمزہ شہباز کی تصاویر دکھائی دیں گی جو ہر آنے جانے والے کو بتانے کی کوشش کر رہی ہوتی ہیں کہ دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو کہ ''پیسہ تمہارا‘ فوٹو ہمارا‘‘ بالکل یہی پنجاب والا طریقہ کار خیر سے پی پی پی نے سندھ میں اختیار کیا ہوا ہے۔ پنجاب اور سندھ کی قدرِ مشترک یہ ہے کہ جیسے ہر کتاب کے ٹائٹل پر آپ کو نواز شریف اور شہباز شریف کی تصاویر نظر آتی ہیں‘ اسی طرح سندھ میں ہر درسی کتاب پر بے نظیر بھٹو کی تصویر پرنٹ کی گئی ہے؟ ابھی دو دن ہوئے اینٹی کرپشن نے لانڈھی کے ایک گودام پر چھاپہ مار کر ہزاروں کی تعداد میں ایسی درسی کتب برآمد کی ہیں‘ جن پر محترمہ بے نظیر بھٹو کی تصاویر ہیں اور جنہیں پندرہ روپے کلو کے حساب سے خریدا گیا ہے۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ شریف فیملی ہی نہیں بلکہ بھٹو فیملی بھی سپریم کورٹ کے احکامات کو اپنے پائوں تلے روندنے میں مصروف ہے اور اس ضمن میں دونوں ایک دوسرے پر بازی لئے جا رہی ہیں۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے واضح حکم دے رکھا ہے کہ حکمران اپنی ذا تی تشہیر یا تعریف کیلئے عوام کے پیسے کا استعمال نہ کریں‘ لیکن لگتا ہے کہ سپریم کورٹ کی یہ آواز ابھی تک کراچی اور سندھ کے در و دیوار تک نہیں پہنچ سکی۔ جبھی تو سید مراد علی شاہ کی آمد سے پہلے یونیورسٹی کے اندر اور باہر پیپلز پارٹی کے مقامی اور مرکزی قائدین کی تصویروں سے مزین بڑے بڑے فلیکس، پوسٹرز اور بل بورڈز لگائے گئے تھے۔ لگتا ہی نہیں تھا کہ وزیر اعلیٰ کسی کانووکیشن میں شرکت کیلئے آ رہے ہیں یا جلسۂ عام میں تقریر کرنے کیلئے۔ وہاں موجود میڈیا کے کچھ حضرات دبے دبے لفظوں میں پوچھ رہے تھے: یہ کوئی تعلیمی درس گاہ ہے یا کسی سیا سی پارٹی کا مرکزی دفتر؟
اب کوئی جام شورو یونیورسٹی کی انتظامیہ یا وزیر اعلیٰ سندھ سے پوچھے کہ اس کانووکیشن کیلئے خرچ کیے گئے بیس ملین روپے کیا ذاتی تشہیر کیلئے تھے؟ جناب والا یہ پیسے کیا جام شورو یونیورسٹی کے وائس چانسلر یا پی پی پی نے اپنی ذاتی جیب سے خرچ کئے ہیں؟ کیا جس کانووکیشن سے سید مراد علی شاہ خطاب کرنے کیلئے آرہے تھے ان کے اخراجات پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو یا آصف زرداری ادا کر رہے تھے؟ یونیورسٹی جیسا ایک تدریسی ادارہ‘ جہاں ملک و قوم کی آئندہ باگ ڈور سنبھالنے والے تیار ہوتے ہیں‘ اور ایک ایسے موقع پر جب یہ نوجوان تحصیل علم سے فارغ ہونے کے بعد میدان عمل میں قدم رکھنے والے ہوں‘ کیا ان کے ذہنوں میں یہ بات ٹھونسے کی تیاری تھی کہ یہ ڈگری تمہیں قابلیت کی وجہ سے نہیں‘ چار سال تک یہاں دن رات محنت کرنے پر نہیں‘ ان چار برسوں میں تمہارے والدین کی دن رات محنت کی کمائی سے اپنا پیٹ کاٹے کی وجہ سے نہیں‘ بلکہ بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری کی مہربانی کی وجہ سے دی جا رہی ہے۔
اب ان بیس ملین روپے کا حساب مراد علی شاہ وزیر اعلیٰ سندھ کی حیثیت سے دیں گے یا وائس چانسلر جام شورو یونیورسٹی ڈاکٹر فتح محمد؟ دیکھا جائے تو اصل ذمہ داری سید مراد علی شاہ پر آتی ہے کہ یونیورسٹی کو دیا جانے والا سندھی عوام کے ٹیکسوں سے حاصل کیا گیا دو کروڑ روپیہ بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری کی تصاویر، پوسٹرز اور فلیکس پر خرچ کر دیا گیا؟ مراد علی شاہ صاحب! اگر آپ سیاست کرنا چاہتے ہیں‘ اپنی کامیابیوں اور ترجیحات کو نمایاں کرنے کے خواہشمند ہیں‘ ووٹوں کے حصول کیلئے اپنے حلقہ انتخاب کے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنا چاہتے ہیں‘ تو اس کیلئے سرکاری وسائل سے تو استعمال نہ کریں اور ایسی صورت میں جب عدالت نے واضح احکامات دے رکھے ہوں کہ کوئی بھی حکمران اپنی سیاست اور ذاتی تشہیر کیلئے سرکاری وسائل اور فنڈز استعمال نہ کرے‘ کیا عدلیہ کے ان احکامات کی خلاف ورزی پر وائس چانسلر جامشورو یونیورسٹی یا وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے کوئی باز پرس کی جا سکے گی؟
پنجاب کی بات کریں تو جیسے ہی سرخ رنگ کی سپیڈ بس آئی تو اس کے چاروں جانب شہباز شریف کی تصاویر کی بھرمار کر دی گئی۔ بس کے پیچھے بھاگیں تو سامنے شہباز شریف، بس میں داخل ہوں یا اس کے قریب سے گزریں تو چاروں جانب شہباز شریف کی فاتحانہ انداز میں مسکراتی ہوئی تصویر یہ کہتے ہوئے دکھائی دیتی ہے کہ کر لو جو کرنا ہے '' تمہارا پسینہ ہمارا بیانیہ‘‘۔ پنجاب میں جد ھر دیکھیں ڈینگی کے بورڈ اور اس پر تصویریں میاں شہباز شریف کی۔ اب اندازہ کیجئے کہ درسی کتابوں، بسوں، بیت الخلائوں، ٹی وی اور اخبارات، رسائل کے اشتہارات، پیلی ٹیکسیوں، لیپ ٹاپ اور آٹے چینی کے تھیلوں پر نواز شریف اور شہباز شریف کی تصاویر اور اشتہارات یا فلیکس پر نہیں بلکہ ان پر صرف تصاویر کی پرنٹنگ پر ایک اندازے کے مطابق پچاس کروڑ روپے سے زائد اخراجات ہوئے، اگر پگڑی کا شملہ اونچا دکھانے کا اتنا ہی شوق ہے تو پھر پگڑی بھی اپنی ہی پہنئے۔