دھرنا دینے والوں کا انتخابات میں دھڑن تختہ کر دیں گے: نوازشریف
مستقل نااہل اور سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''دھرنا دینے والوں کا دھڑن تختہ کردیں گے‘‘۔ کیونکہ جیل میں اور تو کوئی کام ہوگا نہیں‘ سو‘ فراغت ہی فراغت ہوگی۔ البتہ فرق صرف یہ ہوگا کہ پہلے تو خلائی مخلوق کی مدد سے دھڑن تختہ کیا کرتے تھے‘ اب سارا کام خود کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''جیل جانے سے خوفزدہ نہیں ہوں‘‘ صرف سانپوں‘ چوہوں اور بچھوئوں سے ڈر لگتا ہے‘ جن سے پچھلی بار پالا پڑا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''جہاں بھی گیا‘ اصولوں پر قائم رہوں گا‘‘ اور چونکہ اصولوں کی علّت کبھی پالی ہی نہیں ہے‘ اس لیے اگر ضرورت پڑی‘ تو نئے اصول بنا لوں گا‘ جو کہ انقلابی ہونے کی بناء پر کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''بڑی قربانی بھی دینے کے لیے تیار ہوں‘‘ جو جائیداد کی ضبطی وغیرہ ہے تو اگلی بار پھر بنا لیں گے‘ جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں کہ '' پھر اقتدار میں آیا‘ تو وہی کچھ کروں گا‘ جو پہلے کرتا رہا ہوں۔‘‘ آپ اگلے روز ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں شریک تھے۔
ہم نے بے مثال ترقی کے ریکارڈ قائم کیے: شہبازشریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''ہم نے بے مثال ترقی کے ریکارڈ قائم کیے‘‘ جو کہ سرکاری ہسپتالوں میں ایک ایک بیڈ پر چار چار مریض پڑے ہوتے ہیں ‘جس سے باہم اخوت کا اظہار ہوتا ہے اور سکولوں میں طلبا ماشاء اللہ اپنے پائوں پر کھڑے ہیں کیونکہ اوّل تو اساتذہ پورے ہوتے ہی نہیں جبکہ لاتعداد گھوسٹ سکولوں میں سینکڑوں اساتذہ کا روزگار لگا ہوا ہے۔ بلکہ کئی سکول فرنیچر وغیرہ کے تکلافات سے بھی بے نیاز ہیں اور بعضوں کی چھتیں بھی گرنے والی ہیں جبکہ شہریوں کو صاف پانی کی بدپرہیزی سے بھی بچایا گیا ہے‘ چنانچہ صاف پانی سکیم میں متعدد افسران و دیگر شرفاء اپنی تقدیر بدل رہے ہیں اور نیب انتقاماً اس کا نوٹس بھی لے رہی ہے۔ نیز چوروں‘ ڈاکوئوں کے ذریعے شہریوں کو فالتو پیسوں او دیگر اشیاء سے بے نیاز کردیا جاتا ہے اور یہ کارِخیر دن دہاڑے سرانجام دیا جاتا ہے جبکہ پولیس آپ کے حکمرانوں کی سکیورٹی پر مامور ہوتی ہے تاکہ یہ آپ کے سروں پر سلامت رہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں چینی وفد سے ملاقات کر رہے تھے۔
2018ء کرپٹ حکمرانوں سے نجات کا سال ہے: جہانگیر ترین
پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما جہانگیر ترین نے کہا ہے کہ ''2018ء کرپٹ حکمرانوں سے نجات کا سال ہے‘‘ تاکہ یہ موقع نئے حکمرانوں کو بھی مل سکے اور سیاست کے جملہ تقاضے پورے ہو سکیں کہ سیاستدان پہلے اپنی خوشحالی کا بندوبست کرتے ہیں اور اگر موقع یا فرصت ملے‘ تو عوام کی خوشحالی کب بھی کوشش کرتے ہیں ‘جس میں انہیں اکثر ناکامی ہوتی ہے کہ ان کی قسمت میں یہی کچھ لکھا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''فوج‘ عدلیہ اور ملک کے دیگر اداروں کا بھرپور دفاع کریں گے‘‘ اور تابڑتوڑ بیانات کے ذریعے شرپسندوں کا جینا حرام کر دیں گے اور ہماری یہ خوش قسمتی ہے کہ ہمیں اس کا موقع ملا ہے‘ جس کے لئے ہم نوازشریف صاحب کے انتہائی شکرگزار ہیں اور اظہارِ سپاس کے طورپر انہیں دعائیں بھی دیتے رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''عوامی امنگوں کے ترجمان بن چکے ہیں‘‘ اگرچہ ترجمہ کرنے میں کچھ زیادہ مہارت حاصل نہیں ہے۔ آپ اگلے روز رحیم یار خان میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
قومی کمیشن کا چیئرمین بنایا گیا تو اس کیلئے تیار ہوں: میرظفراللہ جمالی
سابق وزیراعظم اور رکن قومی اسمبلی میر ظفراللہ جمالی نے کہا ہے کہ ''اگر قومی کمیشن کا چیئرمین بنایا گیا تو اس کے لیے تیار ہوں‘‘ کیونکہ جب سے وزارت عظمیٰ سے فارغ ہوا ہوں کوئی ڈھنگ کا کام ہی کرنے کو نہیں ملا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''نوازشریف کا بیانیہ ڈرامہ ہے‘ انہیں سزا ملنی چاہیے‘‘ اور بطور چیئرمین کمیشن میری غیرجانبداری کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے۔ اس لیے آزمائش شرط ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''نوازشریف ڈرپوک ہیں‘ عدلیہ اور ادارے خبردار رہیں کیونکہ ڈرپوک آدمی زیادہ خطرناک ہوتا ہے اور میں عدلیہ اور دیگر اداروں کو اطلاع دے رہا ہوں ‘جو خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ''فوج پر دبائو ناقابل قبول ہے‘‘ اور جو چیز میرے لیے ناقابل قبول ہو‘ وہ سب کے لیے ہونی چاہیے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک انٹرویو دے رہے تھے۔
اور اب کچھ شعر وشاعری ہو جائے:
سیٹی کی صدا آئی تھی مالیر سے پہنچا
افسوس‘ صد افسوس کہ تاخیر سے پہنچا
تھر‘ مور بچا کوئی گھر اور حیاتی
میں خاک اڑاتا ہوا کشمیر سے پہنچا
دلکش تھا بیابان کہ مہمانوں کا اک غول
مجھ تک مری بکھری ہوئی زنجیر سے پہنچا
مٹی میں کچھ اپنی بھی جڑت لازمی ہوگی
باقی کا سہارا فنِ تعمیر سے پہنچا
سیلفی کا خیال آیا اسے دیکھ کے بابرؔ
میں خواب تلک خواب کی تعبیر سے پہنچا (ادریس بابرؔ)
کٹے شجر کی تُو تصویر اس طرح سے بنا
درخت صحن سے دیکھیں تو ایستادہ لگے
ردا ئے خواب ادھڑنے لگی کناروں سے
دعا کی لیس بھی ممکن ہے کچھ زیادہ لگے
ترا فراق پہن کر نکل تو آیا ہوں
کسی کو زخم‘ کسی کو مرا لبادہ لگے (محمد اویس راجا‘ نیویارک)
بس ذرا دیر بیٹھوں گا‘ پچھتائونگا پھر چلا جائونگا
رات کی بات ہے میں چلا جائونگا‘ پھر نہیں آئونگا
مجھ پہ بیتے زمانے دوبارہ بھی بیتے چلے جائیں گے
میں تو منظر ہوں آنکھوں کو چمکائوں گا پھر چلا جائوں گا (اجمل فرید)
آج کا مطلع
آئو تو سانس لے کے آئو‘ ظفرؔ
کہ یہاں گرد بھی‘ دھواں بھی ہے