تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     22-05-2018

کیمیکلز کی حکمرانی یا عقل کی؟

ذرا ایک بار پھر سوچیے کہ یہ دنیا کیا ہے ؟ زندگی کیا ہے ؟ انسان کو زندگی میں ہزاروں قسم کے مسائل اور situationsکا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ بیٹا بیمار ہے ‘ بیٹی پڑھائی میں دلچسپی نہیں لیتی ‘جبکہ میرے بھائیوں کی اولادیں ہر سال پوزیشن لیتی ہیں ۔ ایک عورت کا شوہر کام نہیں کرتا جبکہ اس کی بہن کا شوہر لاکھوں روپے ماہانہ کما رہا ہے ۔جب وہ قیمتی زیورات اورملبوسات پہن کر مختلف تقریبات میں اس کے سامنے آتی ہے ‘تو غم کے مارے اس کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں ۔ ایک شخص بھرپور محنت کرنے کے بعد بھی بمشکل اتنا کماپاتا ہے کہ اپنے اخراجات پورے کر سکے جبکہ اس کے دوست کو ورثے میں سونے کی تین دکانیں ملی ہیں ۔ میرے دوست رشتے دار اکثر میرا مذاق اڑاتے ہیں ۔ وہ میری اٹکتی ہوئی زبان، لرزتے ہوئے ہاتھوں ، کالی رنگت، چھوٹے قد اور کم تعلیم کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ وہ میرے سامنے جان بوجھ کر انگریزی میں باتیں کرتے اور بھرپور قہقہے لگاتے ہیں ۔ میرا اکلوتا بیٹا کچھ بھی نہیں کھاتا۔ وہ سوکھ کر تنکا بن چکا ہے جبکہ اس کے کزن کھیلتے کودتے اور شور شرابا کرتے ہیں ۔میرا بیٹا اکثر اداس اور خاموش بیٹھا رہتاہے ۔میری زندگی کی سب سے بڑی حسرت یہ ہے کہ میں اپنے اس بیٹے کو دوسرے بچوں کی طرح کھاتے پیتے اور اچھلتے کودتے دیکھوں ۔ میرے والد میرے چھوٹے بھائی کو ہمیشہ مجھ پر ترجیح دیتے ہیں۔ ایک خاتون کی شادی کو کئی سال ہو چکے ہیں ، اس کی کوئی اولاد نہیں ۔ جب اس کی بھابیاں اپنی اولادوں سے لاڈ پیار کرتی ہیں ، انہیں اٹھاتی ہیں، دل سے لگاتی ہیں ، ان کے چہروں پر بوسے دیتی ہیںتو اس کے سینے میں ایک ہوک اٹھتی ہے ۔ ایک لڑکی ہے ، جس کی سب سہیلیوں کی شادی ہو چکی ہے ۔ اس کی عمر گزرتی جا رہی ہے۔ ہنوز کسی اچھے رشتے کا نام و نشان تک نہیں ۔
ایک لڑکی ، جب اپنی سہیلیوں کو دیکھتی ہے ، ان کے شوہروں کو دیکھتی ہے اور اس کے بعد جب وہ اپنے شوہر کو دیکھتی ہے تو وہ اداس ہو جاتی ہے ۔ ان کے شوہر اپنی بیویوں کا خیال رکھتے ہیں ۔ ان سے محبت سے بات کرتے ہیں ۔ ادھر اس کا شوہر کبھی سیدھے منہ بات کرنا گوارا نہیں کرتا ۔ہمیشہ وہ غصے سے بات کرتاہے ۔ ایک شوہر یہ سوچتاہے کہ میرے بیوی بچوں نے تو مجھے وزن اٹھانے والا جانور سمجھ لیا ہے ۔ انہیں مجھ سے نہیں ، صرف اور صرف میرے ہاتھ سے ملنے والے پیسوں سے غرض ہے ۔ اگر یہ پیسے ملنے بند ہو جائیں ‘تو شاید یہ مجھے گھر میں بھی گھسنے نہ دیں حالانکہ میرے دوستوں کے بیوی بچے ان سے کس قدر محبت کرتے ہیں ‘ اگر انہیں زکام بھی ہو جائے تو ان سب کو فکر لاحق ہو جاتی ہے ۔ میں اگربیماری کی شدت سے مرنے والا بھی ہو جائوں تو ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ۔ایک بیوی یہ سوچتی ہے کہ میرے شوہر کے سب بھائیوں نے خوب جائیدادیں بنا لی ہیں ۔بڑی بڑی گاڑیاں خرید لی ہیں ۔ جب کہ میرا شوہر تو درویشوں کی طرح اپنی زندگی گزار رہا ہے ۔ یہ کبھی کسی قابل نہیں ہو سکے گا۔ مجھے اپنی بھابھیوں اور نندوں کے سامنے ہمیشہ کمترہو کر زندگی گزارنی پڑے گی ۔ 
اس سب کے علاوہ بھی زندگی میں آپ جتنی مرضی سچویشنز سوچ لیں ۔ اپنے بچے کے نرم و نازک لمس سے پیدا ہونے والی مسرت ، اس کے منہ سے نکلنے والی قلقاری ،ایک حسین ترین چہرے کو دیکھ کر دل میں اٹھنے والی حسر ت ۔ یہی سب کچھ ہے ، جو انسانوں کے ساتھ بار بار پیش آرہا ہے ۔ یہی کہانی ہے ، جو بار بار دہرائی جا رہی ہے ۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ سب کیا ہے ؟ کیوں ہے ؟ 
میں آپ کو بتاتا ہوں ۔ یہ آپ کی پانچ حسوں ، ناک ، کان، آنکھ،جلد اور زبان سے حاصل ہونے والے ڈیٹا پر دماغ کا ردّعمل ہے ۔ دماغ جب ان میں سے کوئی بھی چیز دیکھتا ، سنتا ، چکھتا ، سونگھتا یا محسوس کرتاہے تو ہمارے اس دماغ میں صورتِ حال کے مطابق مخصوص کیمیکلز کا اخراج ہوتاہے ۔ان کیمیکلز کے اخراج کے ساتھ ہی وہ اداس ہو جاتا ہے ، غمگین ہو جاتا ہے ، غصے میں آجاتا ہے ، خوف محسوس کرتاہے، لالچ میں آجاتاہے یا حسد محسوس کرتاہے ۔ اس کے بعد دماغ ان کیمیکلز کے زیراثر پیدا ہونے والی کیفیت کے تحت اپنا ردّعمل دیتا ہے ‘ اگر اس کا دوست پلاٹ خرید رہا ہو تو وہ حسد محسوس کرتاہے اور کوشش کرتا ہے کہ میں بھی پلاٹ خرید سکوں ۔ اگر اس کا بھائی عالمگیر شہرت رکھنے والا باکسر ہے تو وہ کوشش کرتاہے کہ میں بھی اتنا بڑا باکسر بن سکوں ۔ اگر اس کا دوست اپنی بیوی کو نئی گاڑی میں بٹھا کر لاتاہے تو وہ بھی یہ حسرت اور خواہش کرتاہے کہ میں بھی نئی گاڑی لے سکوں ۔ اگر ایک لڑکی کی سہیلی خوبصورت اور امیر شخص سے شادی کرتی ہے توانہی کیمیکلز کے زیر اثر وہ خواہش کرتی ہے کہ میںاس سے بھی زیادہ امیر اور خوبصورت مرد سے شادی کروں ۔اگر وہ اپنے بھتیجے کودیکھتاہے کہ وہ اس کے بیٹے کو مار رہا ہے تو انہی کیمیکلز کے اخراج کے تحت اسے غصہ آجاتاہے ۔ یوں بچوں کی لڑائی‘ بڑوں کی لڑائی بن جاتی ہے ۔ 
آپ یقین کریں کہ اگر یہ کیمیکلز خارج نہ ہوتے‘ تو ایک انسان کے سامنے دوسرا کامیابی کی جتنی مرضی سیڑھیاں چڑھ جاتا، اسے ذرّہ برابر پروا بھی نہ ہوتی ۔ سب انسان صوفی اور درویش بنے پھر رہے ہوتے ۔ آخر یہ کیمیکلز کیوں خارج ہوتے ہیں ؟ اس لیے کہ انسان کو آزمایا جائے ۔ اسے حسد، خوف ، کمتری اوردوسرے جذبوں سے گزار کر یہ دیکھا جا رہا ہے کہ وہ کیا عمل کرتاہے ۔ کیسے behaveکرتاہے ۔ حسد کا پیدا ہونا تو فطری ہے‘ لیکن کیا اس کے بعد وہ خود کو حسد کے سپرد کردیتاہے یا پھر اس کی مزاحمت کرتاہے ؟ اگر تو وہ اس کی مزاحمت کرتاہے اور کامیابی حاصل کرنے والے اپنے بھائی یا دوست کے پا س جا کر اسے مبارک باد دیتاہے ۔ اس کی محنت اور لگن کی تعریف کرتاہے ‘تو پھر یہ کیفیت کچھ دیر بعد ختم ہوجاتی ہے ۔اگر انسان خود کو اس حسد کے سپرد کر دے اور اب اس تاک میں رہے کہ شہرت ، دولت اور کامیابی حاصل کرنے والے اپنے بھائی یا دوست کو نیچا دکھانا ہے‘ تو پھر یہ کیفیت مستقل ہو جاتی ہے ۔ پھر یہ حسد، انتقام، لالچ اور دوسرے منفی جذبے اس کی زندگی پرحکمرانی کرتے ہیں ۔ اس کی پوری زندگی ایک دلدل میں گزر جاتی ہے ۔ اگر یہ کیمیکلزبہت کم خارج ہونا شروع ہو جائیں تو انسان depressedہوجاتاہے ۔ اگر یہ بہت زیادہ خارج ہونا شروع ہو جائیں‘ تو انسان bipolarہوجاتاہے ۔ 
علم ایک ایسی چیز ہے ، جو اس باب میں بھی غیر معمولی طور پرانسان کی مدد کر سکتی ہے ‘ جو انسان علم رکھتاہے ‘ اسے معلوم ہے کہ ہم سب ایک امتحان گاہ میں ضرور بیٹھے ہیں‘ لیکن ساتھ بیٹھے ہر شخص کا پرچہ بالکل مختلف ہے ۔ اس لیے مجھے اس کی نقالی کی بالکل بھی کوئی ضرورت نہیں ۔مجھے تو اپنی خوبیوں کو نکھارکر ان کی بنیاد پر زندگی گزارنا ہے ۔آپ بھی سوچیں کہ آپ نے کیمیکلز کی حکمرانی میں جینا ہے یا عقل کی ؟

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved