ہم نہیں جانتے کہ سابق صدر پرویز مشرف کے مشیر کِس قبیل اور قماش کے ہیں مگر اِتنا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کشتی کو پار لگانے والے نہیں، ڈبونے والوں میں سے ہیں! بے چارے سابق صدر لندن کی پُرسکون فضاء میں ملک کے بگڑے اور اُلجھے ہوئے حالات کا تماشا دیکھ رہے تھے مگر واپسی کے حوالے سے مشیروں نے اِتنے بیانات دِلوائے کہ موصوف کو آنا ہی پڑا! نہ آتے تو بَھد اُڑتی اور میڈیا والے طعنوں، سوالوں اور تبصروں کے ٹھونگے مار مار کر جینا حرام کردیتے! سابق صدر نے قوم کو بہت انتظار کرایا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ قوم سے زیادہ انتظار تو کالعدم تحریک طالبان کو کرنا پڑا۔ وہ بے چارے اُلجھے ہی رہے کہ کب سابق صدر وطن کے لیے طیارے میں بیٹھیں اور اِدھر اُن کے لیے ’’کمپنی کی مشہوری‘‘ کا اہتمام ہو، یعنی حملوں کی باضابطہ دھمکی دی جائے! کراچی پہنچنے پر جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنا شہرۂ آفاق جملہ دہرایا کہ وہ ڈرتے ورتے کِسی سے نہیں! یہ جملہ سُن کر قوم کا وہی ردعمل تھا جو اب تک رہا ہے۔ سُننے والوں کے ہونٹوں پر معنی خیز مُسکراہٹ نمودار ہوئی۔ اور کیوں نہ ہوتی؟ اگر آں جناب کِسی سے ڈرتے ورتے نہیں تھے تو پھر آرمی چیف اور صدر کی حیثیت سے ملنے والا پروٹوکول اور سکیورٹی ختم ہوتے ہی ولایت کے ولی کیوں بنے؟ عوام کو بگڑے ہوئے حالات کے جبڑوں میں پھنساکر ملک سے نکل جانے والوں کی باتیں سُن کر صرف ہنسی ہی آسکتی ہے۔ ساری اہمیت علامات ہی کی تو ہوتی ہے۔ جو مشکل میں قوم کا ساتھ دے، قدم سے قدم ملاکر کھڑا رہے وہی تو اُمیدوں کا مرکز بنتا ہے۔ چار پانچ برسوں میں ملک اِتنا بدل گیا ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف سے پہچانا نہیں جارہا۔ کراچی کے قائد اعظم انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر اپنے مداحوں سے خطاب میں اُنہوں نے پوچھا کہ وہ پاکستان کہاں گیا جو وہ چھوڑ کر گئے تھے؟ اُن کا یہ بھی استفسار تھا کہ اِس ملک کو کیا ہوگیا ہے؟ قوم یہ سوالات سُن کر حیران رہ گئی۔ سوال تو اہل وطن کو کرنا ہے کہ جناب! آپ ہمیں چھوڑ کر کیوں چل دیئے تھے؟ جو بویا تھا وہ تھوڑا بہت خود بھی کاٹتے! جو پاکستان چھوڑ کر گئے تھے وہ قوم سے اُس وقت مانگا جاسکتا تھا جب قوم کو امانتاً سونپا گیا ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک سے روانہ ہوتے وقت سابق صدر نے اہل وطن کو وطن سونپا نہیں تھا بلکہ مَتّھے مارا تھا! موصوف کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ پہلے والا پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ تو بہت مشکل ہے۔ اب تو اُنہیں پچھلا والا پروٹوکول یا سکیورٹی بھی نہیں مل سکتی تو پھر پانچ برس پہلے کا پاکستان کہاں سے لایا جاسکتا ہے؟ سابق صدر فرماتے ہیں کہ آج ملک کی جو حالت ہے اُسے دیکھ کر اُن کا دِل خون کے آنسو روتا ہے۔ اہل وطن کے ذہنوں میں اُبھرنے والا ایک اہم سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ دیکھ کر اُن کے ’’نجات دہندہ‘‘ اور ’’مسیحا‘‘ صرف خون کے آنسو کیوں روتے رہتے ہیں، کچھ کرتے کیوں نہیں۔ قوم کے حالات بہتر بنانے کے لیے کیا آسمان سے ملائکہ نزول فرمائیں گے؟ قوم کو منجدھار میں چھوڑ کر ساحل کی راحتیں بٹورنے والے اُسی وقت کیوں آتے ہیں جب معاملات سانحات کی منزل تک پہنچ چکے ہوتے ہیں؟ جو لوگ سابق صدر کے ایمان کی سطح کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں اُن کی تشفی کے لیے بھی چند ارشادات ہوئے۔ پرویز مشرف فرماتے ہیں کہ اُن کے لیے خانۂ کعبہ کا دروازہ چھ مرتبہ کھولا گیا۔ اور یہ کہ اُن کے لیے روضۂ رسولؐ کے دروازے بھی کھول دیئے جاتے ہیں۔ یہ کہہ کر اُنہوں نے مخالفین کو للکارا کہ جذبے میں وہ بھی کِسی سے کمتر مسلمان نہیں!یہ اِس امر کی دلیل نہیں کہ وہ اللہ کے مقرّب بندوں میں سے ہے۔ اہل وطن کو مرعوب کرنا ہے تو اپنے زور بازو سے منصۂ شہود پر جلوہ گر ہونے والا کوئی حقیقی کارنامہ گنوایا جائے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ سابق صدر کے دور میں مہنگائی یا بے روزگاری میں اضافے کی شرح وہ نہیں تھی اِن پانچ برسوں میں رہی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ حال ہی میں ختم ہونے والی حکومت کو فری ہینڈ کِس نے دیا؟ کُھل کر کھیلنے کی آزادی کا اہتمام کیونکر ہوا؟ کراچی میں قتل و غارت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے پرویز مشرف نے کہا کہ وہ رنجیدہ ہیں اور کراچی کو دوبارہ امن کا گہوارہ بنانا چاہتے ہیں۔ جناب! کراچی امن کا گہوارہ ہی ہے۔ مَیّت جس ڈولی میں لے جاتے ہیں اُسے گہوارہ ہی کہا جاتا ہے! پرویز مشرف جو پاکستان چھوڑ کر گئے تھے وہ تو اب نہیں آسکتا۔ جو پاکستان اُنہوں نے نواز شریف کو سائڈ لائن کرکے دبوچا تھا وہ بھی اب واپس نہیں آسکتا۔ حال ہی میں بوریا بستر لپیٹ کر رخصت ہونے والی حکومت نے ملک کو جہاں سے ’’چُک‘‘ لیا تھا وہ مقام بھی اب واپس نہیں آسکتا۔ ایسے میں غنیمت ہے کہ پرویز مشرف ایک بار طالع آزمائی کے لیے واپس آئے ہیں۔ اُنہوں نے سب کچھ درست کرنے کے عزم کا اظہار بھی کیا ہے۔ قوم یہ دیکھنے کے لیے بے تاب ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ کراچی میں اُن کے پہلے جلسے کا این او سی ختم کردیا گیا۔ جواز امن و امان کو بنایا گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ سابق صدر، اپنے اعلان کے مطابق، ملک بھر میں جلسے کس طرح کریں گے کیونکہ حملوں کا خطرہ تو ہر جگہ ہوگا۔ کہیں حملوں کی دھمکی بھی جلسوں کے اہتمام سے بچنے کے لیے بھی نہیں دِلوائی جارہی؟ ملک میں جو کچھ ناقابل یقین حد تک بگڑ چکا ہے وہ ایک شخصیت کے آنے اور متحرک ہونے سے اب کیا درست ہوگا۔ ہاں، امید پہ دنیا قائم ہے۔ جہاں اِتنے بہت سے سیاسی بازی گر اپنے اپنے کرتب دکھا رہے ہیں، لوگ پرویز مشرف کو بھی دیکھ لیں گے۔ کراچی ایئر پورٹ پر مداحوں سے خطاب کے آخر میں اُنہوں نے کہا ’’اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو، اللہ حافظ۔‘‘ قوم کو اب تک یاد ہے۔ صدر کی حیثیت سے الوداعی خطاب کے آخر میں پرویز مشرف نے کہا تھا۔ ’’اِس ملک کا خُدا ہی حافظ۔‘‘ شُکر ہے پانچ برسوں میں اُنہوں نے اِتنا تو سیکھا کہ قوم پر طنز کب اور کتنا کرنا چاہیے! گوروں کی معیت میں رہنا کچھ تو کام آیا!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved