تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     23-05-2018

کون پوچھے؟

سینیٹر انور بیگ کا فون تھا ۔ 
نواز شریف کے ساتھ موجود درجنوں سرکاری گاڑیوں کے قافلے دیکھ کر حیران ہورہے تھے کہ ایک ملزم کو اتنا پروٹوکول اور عوام کے پیسوں سے اخراجات ۔کہنے لگے :کوئی پوچھنے والا نہیں؟
میں نے کہا: کون پوچھے؟ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی پوچھے گا‘ جنہوں نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ ایک دن وہ وزیراعظم بنیں گے۔ وہ تو وزیرپٹرولیم بن کر خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے اور بیٹھے بٹھائے وزیراعظم بنا دیے گئے۔ ویسے فرض کرتے ہیں‘ وزیراعظم عباسی جرأت کر کے پوچھ بھی لیتے ہیں :کون گستاخ ہے‘ جو ایک ملزم کو سرکاری گاڑیوں کے جھرمٹ میں عدالت پیش کرتا ہے‘ تو آگے سے کیا جواب ملے گا؟ کسی نے کہہ دیا: سر جی! چھوڑیں‘ آپ نے بھی تو ایل این جی فلوٹنگ ٹرمینل میں اینگرو کراچی کو دو لاکھ بہتر ہزار ڈالرز روزانہ کی ڈیل دے رکھی ہے‘ جس پر نیب نے انکوائری رپورٹ بھی تیار کررکھی ہے‘ آپ سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے ملک کے ساتھ کیا ہاتھ کردیا ہے۔ 
عباسی صاحب تو اتنے بے چارہ اور بے بس ہیں کہ وہ تو وزیراعظم ہاؤس میں رہنے تک کو تیار نہیں ۔ وہ اتنی گستاخی بھی نہیں کرسکتے کہ جہاں کبھی نواز شریف سوتے تھے‘ وہ اس بیڈپر سو جائیں۔ وہ اسلام آباد میں اپنے گھر سوتے ہیں۔ شاید احترام میں‘ وہ وزیراعظم آفس کی کرسی پر بھی نہ بیٹھتے ہوں اور صوفے پر بیٹھ کر ہی کام چلاتے ہوں ۔ 
عوام کو کب ان کے ٹیکسوں کا شعور دیا گیا ہے۔ ایک ٹرم ایجاد کی گئی تھی‘ یہ سرکاری پیسہ ہے۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں ‘سرکاری پیسہ درختوں پر اگتا ہے‘ جو حکومت اکٹھا کرتی رہتی ہے۔ دوسرا یہ تاثر عام ہے کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان میں نوٹ چھاپنے کی ایک مشین لگی ہوئی ہے‘ جو دن رات نوٹ چھاپتی رہتی ہے۔ یوں عام انسان کبھی نہیں جان پاتا کہ جو پیسہ خرچ ہورہا ہے‘ وہ ان کی جیب سے جاتا ہے۔ وہ جو کچھ کماتے ہیں وہ حکمران اور بیوروکریٹس کی جیب میں جاتا ہے اور ان کے گھر کا کچن چلتا ہے۔ 
میں نے کہا: انور بیگ صاحب !پہلے عوام سے پوچھ لیں کہ یہ ان کا پیسہ ہے؟ وہ جواب دیں گے نہیں جناب‘ یہ سرکاری پیسہ ہے۔ میرا پیسہ تو جیب میں ہے۔ عوام نہیں مانیں گے کہ سو روپے فون کارڈ پر جو چالیس روپے ٹیکس کٹ رہا ہے‘ وہ ان کا پیسہ ہے۔ اس سال ان فونز کارڈز پر ساٹھ ارب روپے ٹیکس عوام سے لے کر سرکاری خزانے میں جمع کیا گیا۔ آپ پھر بھی پوچھ لیں‘ اگر عوام مان لیں‘ تو مجھے سزا دیں۔ عوام یہ بھی ماننے کو تیار نہیں کہ فی لٹر پٹرول پر جو چالیس روپے ٹیکس ہے ‘وہ بھی ان کی جیب سے جاتا ہے۔ وہ آپ کو کہیں گے‘ نہیں جناب آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے ۔ یہ پیسہ میری جیب سے نہیں بلکہ سٹیٹ بینک کے پاس ایک نوٹ چھاپنے کی مشین ہے ‘یہ وہاں سے اکٹھا ہوتا ہے۔ آج سے پانچ سال قبل جب نواز شریف حکومت آئی تھی‘ تو اس وقت لاہور موٹر وے پر ٹول ٹیکس 180 روپے تھا۔ آج جب حکومت روانہ ہورہی ہے‘ تو ٹیکس 620 روپے ہوچکا ہے۔ مطلب 440 روپے ٹیکس کا اضافہ عوام کو محسوس ہی نہیں ہوتا۔ ایک گاڑی پر 440 روپے اضافی لیا جارہا ہے اور عوام سمجھتے ہیں‘ نوٹ مشین چھاپتی ہے۔ 
یہ میں آپ کو چند مثالیں دے رہا ہوں‘ ورنہ جب سے جی ایس ٹی ہر شے پر لگا ہے‘ اب پانی بھی ٹیکس دیے بغیر نہیں پی سکتے۔ تو میں نے کہا: بیگ صاحب کون پوچھے؟ ہاں پوچھنے والے چند ادارے تھے۔ سب سے پہلے اپوزیشن کو شور مچانا چاہیے۔ اپوزیشن کی حالت دیکھ لیں۔ پنجاب میں تحریک ِانصاف کے اپوزیشن لیڈر محمود الرشید نے پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین ہونے کی حیثیت سے شہباز شریف دور کے ہر بڑے سکینڈل کو سیٹل کردیا۔ پچھلے دنوں حسن رضا کی خبر تھی کہ پنجاب میں پبلک اکائونٹس کمیٹی کا ایک اجلاس بلا کر محمود الرشید نے دانش پبلک سکول میں ہونے والے کروڑوں روپے کی کرپشن اور گھپلوں کو ایک بند اجلاس میں سیٹل کردیا۔ بھول جائو اور معاف کردو۔ یہ ہے اپوزیشن کی حالت۔دوسری طرف اسلام آباد میں ہم دیکھتے ہیں کہ پی پی پی خود کرپشن کرکے حکومت سے واپس گئی۔ پی پی پی کے نزدیک اس لفظ کی کوئی اہمیت نہیں ۔ بغیر کرپشن کیے آپ کسی پارٹی میں نہیں آسکتے۔ آپ نے اگر سیاست کرنی ہے ‘تو آپ کو کرپٹ اور کرپشن سے سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔ تحریک ِانصاف بھی اپنی نالائقی یا سادگی کی وجہ سے یہی کچھ کرتی آئی ہے۔ سابق آڈیٹر جنرل آف پاکستان بلند اختررانا نے پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی حکومتوں کو ٹف ٹائم دینا شروع کیا‘ تو تحریک ِانصاف کے پبلک اکائونٹس کمیٹی کے ممبران نے اس کے خلاف انکوائری شروع کر کے اور اس کے خلاف ریفرنس بھیج کر اس کی چھٹی کروادی۔
عمران خان کہتے تھے: میں کرپٹ سے پوچھوں گا ‘ جنہوں نے بینک لوٹے ہیں ‘ان سے پائی پائی وصول کریں گے۔ جنہوںنے ملک لوٹا ہے انہیں کٹہرے میںلائیں گے۔ لوگوں نے ان پر اعتبار کیا۔ اب اس اعتبار کا یہ فائدہ اٹھایا ہے؟ جنہوں نے بینک لوٹے ہیں‘ ان سب کو وہ اپنی پارٹی میں لے آئے ہیں ۔ سردار جعفر خان لغاری نے اپنی مل کے ذمے بیا لیس کروڑ روپے کا بینک قرضہ معاف کروایا ہے۔ اسے عمران خان نے اپنی پارٹی کے پرچم میں چھپا لیا ہے۔ کس میں جرأت ہے کہ وہ جعفر خان لغاری کی اس لوٹ مار پر بات کرسکے؟ اب وہ پاک صاف ہوگئے ہیں۔ 
عمران خان سے پوچھیں کہ جناب آپ نے تو ان لیٹروں سے پوچھ گچھ کرنی تھی۔ آپ نے تو ہمارا لوٹا ہوا مال نکلوانا تھا۔ وہ کہتے ہیں‘ میں کیا کروں لوگ میرے امیدواروں کو ووٹ نہیں دیتے۔ مطلب یہ عوام لیٹروں کو ووٹ دیتی ہے‘ تو میں بھی لیٹرے ہی الیکشن میں کھڑے کروں گا۔ اب بتائیں کون پوچھے اور کس سے پوچھے؟ عمران خان سے پوچھیں تو ان کے حامی ناراض ہوجاتے ہیں۔ 
اس کے بعد میڈیا کا کام تھا کہ وہ پوچھتا اور شور مچاتا کہ یہ کیا ہورہا ہے؟ عوام کے پیسے سے ملزمان کو کیوںپروٹوکول دیا جارہا ہے؟ نواز شریف نے جاتے جاتے اس کا بھی بندوبست کردیا تھا کہ میڈیا کا منہ بند رہے۔ نواز شریف کا ساتھ دینا ایک نفع بخش کام لگتا تھا‘ لہٰذا ان کے سب جھوٹ بھی سچ بنا کر پیش کیے گئے۔ جب پیسہ ملنا بند ہوگیا ‘تو اب کہتے ہیں جناب خلائی مخلوق کے نام پر ہم سینسرشپ کررہے ہیں۔ اب اگلی حکومت اور اگلے حکمرانوں پر سرمایہ کاری شروع ہوجائے گی کہ ان سے بزنس لینا ہے۔ یہ سب دھندا ہے۔ میڈیا کو ہینڈل کرنا بہت آسان ہے۔ اشتہارات دے دو اور میرے جیسے کالم نگاروں، اور صحافیوں کو تھوڑی سی اہمیت دے دو۔ نام سے پکار لو‘ اس کے بعد ہم لوئر مڈل کلاس سے ابھرے صحافی ان کے لیے جان دینے پر تل جاتے ہیں کہ ملک کے وزیراعظم نے مجھے چائے پر بلایا، مشورہ مانگا یا صاحبزادی نے واٹس ایپ پر میری ان کے حق میں چلائی گئی خبر یا ٹویٹ کی تعریف کر دی ۔ یقین نہیں آتا تو ٹویٹر پر جا کر چیک کریں ‘کیسے کیسے چھوٹے بڑے صحافی منہ کے بل گرے ہوئے ہیں۔ نام دیا ہوا ہے‘ جمہوریت کی بالادستی کا‘ جس میں ان دانشوروں کا خیال ہے کرپٹ اور کرپشن جمہوریت کا لازمی جزو ہے۔ 
بچ گئے تھے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار ‘جو ان سے پوچھ سکتے تھے کہ یہ کیا تماشہ ہورہا ہے۔ اس ملک کے ساتھ کیا کھلواڑہورہا ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی دائو پر لگا کر اس طاقتور مافیا کو چیلنج کرنا شروع کردیا تو وہی طبقات ناراض ہوگئے‘ جنہوںنے خود حکومتوں سے سوال و جواب کرنے تھے۔ اس ملک میں لوٹ مار چل رہی ہو‘ تو یہ پڑھے لکھے طبقات خوش رہتے ہیں۔ بعد میں پتہ چلا کہ کرپٹ اور کرپشن کے سب سے بڑے حامی وہ لوگ ہیں‘ جو سکالرشپ پر بیرون ملک سے پڑھ کر واپس آئے ہیں۔ جو این جی اوز میں نوکریاں کرتے ہیں یا عالمی میڈیا میں کام کرتے ہیں۔ مجھے حیرانی ہوئی لندن بیٹھے پاکستانی صحافی خود تو برطانیہ میں ڈیوڈ کیمرون جیسا وزیراعظم چاہتا ہے‘ لیکن پاکستان کے لیے وہ کرپٹ وزیراعظم کا حامی ہے۔ یہ بات مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی‘ پاکستان میں جو جتنا زیادہ پڑھ لکھ گیا ہے‘ وہ کرپٹ اور کرپشن کا اتنا بڑا حامی کیوں ہے؟
میں نے کہا: بیگ صاحب اب بتائیں‘ ہم کس سے پوچھیں اور کون پوچھے؟جنہوں نے عوام کے پیسے پر جاری عیاشیوں پر پوچھنا تھا ‘وہ تو خود ہمیں کرپٹ اور کرپشن کے فوائد دن بھر ٹویٹر پر اور رات گئے ٹی وی شوز میں گنواتے رہتے ہیں ۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved