تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     23-05-2018

نہیں ہے دُنیا کو اب گوارا پرانے افکار کی نمائش

اقبال کے تیسرے مجموعۂ کلام (ضرب کلیم) کی تین اشعار پر نظم (نمبر149) کے پہلے شعر کا دُوسرا مصرع آج کے کالم کا عنوان بنا۔ نظم کا عنوان ہے: کارل مارکس کی آواز۔ یہ آواز بلند کرنے والا انقلابی مفکر دو سو سال پہلے 1818ء میں جرمنی میں پیدا ہوا۔ انسانی سوچ اور فکر میں اس کا مقام اتنا بلند ہے کہ اقبال نے فارسی میں ایک شعر لکھا‘ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اگرچہ وہ (کارل مارکس) پیغمبر تو نہیں‘ مگر ایک عہد ساز کتاب کا مصنف ہے اور کتاب بھی ایسی جو اپنی اہمیت کے لحاظ سے ایک الہامی کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔ اقبال کے لئے ممکن نہ تھا کہ وہ کارل مارکس کی اس سے زیادہ تعریف کرتے۔ کارل مارکس پر اقبال کی مذکورہ بالا نظم سے ایک پہلی نظم (نمبر148) کا عنوان ہے: اشتراکیت۔ ان دونوں نظموں کا مطلب سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ انہیں ملا کر پڑھا جائے۔ پہلی نظم کے دُوسرے شعر کا دُوسرا مصرع اور دوسری نظم کے پہلے شعر کا دُوسرا مصرع ایک دُوسرے سے ملتے جلتے ہیں اور اقبال نے صرف چند الفاظ کے فرق کے ساتھ ایک ہی بات کو دوبارہ بیان کیا اور وہ مصرع ہے:
فرسودہ طریقہ سے زمانہ ہوا بیزار
یہ لکھ کر میرا حوصلہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ اپنے پیارے قارئین کو دعوت دوں گا کہ وہ اِن دو نظموں کو سیاق و سباق میں سمجھنے کے لئے اقبال کے دُوسرے مجموعہ کلام (بال جبریل) کی دو نظموں کو بھی ایک نظر دیکھ لیں۔ پہلی کا عنوان ہے ''لینن (خدا کے حضور میں)‘‘ اور دُوسری کا ''الارض اللہ‘‘... اس کا مطلب صاف ظاہر ہے: ساری زمین اللہ تعالیٰ کی ہے۔ وہ انسان کی ذاتی ملکیت بنے تو کیونکر؟ آخری شعر میں (جو اقبال کے قرآنی نظریہ ملکیتِ زمین کو بیان کرتا ہے) پڑھ لیں تو ہم آگے بڑھیں۔
دِہ خدایا! یہ زمین تیری نہیں تیری نہیں
تیرے آبا کی نہیں تیری نہیں میری نہیں
یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں مسلمانوں نے ایران کو فتح کر لیا تو اُنہوں نے ایرانیوں پر نئے عرب جاگیردار مسلط کرنے کی بجائے ایران میں مقامی مزارعین اور کاشتکاروں کو ہی زمینوں کا مالک تسلیم کر لیا اور ایران کی بیشتر آبادی نے اسی ایک فیصلہ کے طفیل اسلام قبول کر لیا۔ ہمیں اشتراکی نظریات کی ایک جھلک حضرت ابوذر غفاریؒ کے خیالات میں نظر آتی ہے۔ ان کے بعد بارہ سو سال گزر گئے۔ 1818ء میں جرمنی میں کارل مارکس کی پیدائش تک کسی مفکر نے اشتراکی نظریات کو نہ بطور ایک سائنس کتابی شکل دی‘ اور نہ عملی جدوجہد میں حصہ لیا۔ انیسویں صدی میں اشتراکی فلسفہ کو عالمانہ بلندی پر لے جانے کا اعزاز کارل مارکس کو حاصل تھا۔ ظاہر ہے کہ کارل مارکس نے اپنے انقلابی خیالات کی بڑی بھاری قیمت ادا کی۔ عمر بھر غربت اور افلاس کی سختی برداشت کی۔ در بدر کی ٹھوکریں اور دھکے کھائے۔ اُن کی وفا شعار بیوی (جس کا تعلق جرمنی کی اشرافیہ سے تھا) اور اُن کے بچے بھی اُن کے ساتھ ہر اُس مصیبت کا شکار بنے‘ جو شدید مشکلات سے پیدا ہوتی ہیں۔ شمالی لندن میں Highgate کے علاقہ میں کارل مارکس کی قبر میں اُن کی بیوی اور بچے بھی اُن کے ساتھ دفن ہیں۔ (اُن سب کے تابوت ایک دُوسرے کے اوپر تہہ در تہہ رکھے گئے۔ جون 1967ء میں کالم نگار پہلی بار لندن گیا تو پاکستانی سفارت خانہ میں رائو رشید مرحوم (جو ابھی آئی جی پولیس نہ بنے تھے) سے تعارفی (بلکہ سفارشی) خط لینے کے بعد بھاگم بھاگ Highgate گیا تاکہ کارل مارکس کی قبر پر پھول رکھنے کی دیرینہ خواہش پوری کر سکے۔
آج یورپ اور امریکہ کی کوئی بھی ایسی یونیورسٹی نہیں‘ جہاں سماجی علوم کے شعبہ میں کارل مارکس کی تعلیمات نصاب میں شامل نہ ہوں۔ حال ہی میں بینک آف انگلینڈ (برطانیہ کے سٹیٹ بینک) کے گورنر نے ارباب اقتدار کو خبردار کیا ہے کہ Automation کی وجہ سے ملازمتوں میں شدید کمی ہو جانے اور معاشرے میں عدم مساوات کے باعث کارل مارکس کے اشتراکی نظریات دوبارہ مقبو ل ہو سکتے ہیں۔ 1848ء میں کارل مارکس نے اپنے قریب ترین اور ہم خیال ساتھی فریڈرک اینجلز (Engeles) کے ساتھ مل کر اشتراکی منشور لکھا‘ جس کا بنیادی موقف یہ ہے کہ محنت کش طبقہ کا مقدر یہ ہے کہ وہ سرمایہ داری نظام کو ختم کر کے ایسا اشتراکی نظام قائم کریں‘ جس میں مزدور‘ کسان خود ذرائع پیداوار کے مالک بن جائیں۔ جب مارکس کو نظر آیا کہ فرانس اور جرمنی میں سماجی انصاف کی تحریکیں کامیابی سے کوسوں دُور ہیں تو وہ بیوی بچوں کے ساتھ برطانیہ میں (بطور سیاسی پناہ گزین) منتقل ہو گیا اور پھر آخری دم تک یہاں رہا۔ مارکس نے ایک امریکی اخبار کی نمائندگی کر کے فاقہ کشی کو اپنے گھر کی دہلیز سے دُور رکھنے کی حتی المقدور کوشش کی۔ مارکس کی اہم ترین کتاب (جسے عالمی ادب میں نمایاں مقام حاصل ہے) کا نام ہے Das Kapital وہ تین جلدوں میں ہے۔ پہلی جلد1867ئ‘ دُوسری 1884ء اور تیسری 1894ء میں شائع ہوئی۔ آخری دونوں جلدیں 1883ء میں مارکس کی وفات کے بعد منظر عام پر آئیں۔ مارکس برس ہا برس (اکثر بھوکا ہونے کے باوجود) لندن میں برٹش میوزیم لائبریری میں صبح سے شام تک بیٹھ کر تحقیق کرتا رہا اور اپنی وہ کتابیں عرق ریزی سے لکھتا رہا جنہوں نے انسانی تاریخ کا رُخ موڑ دیا۔ وہ ہمیشہ لائبریری میں داخل ہونے والا پہلا اور وہاں سے جانے والا آخری شخص ہوتا تھا۔ میں اُس شہرہ آفاق لائبریری کی زیارت کے لئے گیا تو وہاں کے عملہ نے مجھے وہ کرسی میز دکھائی جہاں مارکس بیٹھا کرتا تھا‘ مگر وضاحت کر دی کہ وہ اب کسی اور شخص کو وہاں بیٹھنے کی اجازت نہیں دیتے۔ مارکس کے بنیادی نظریات کا چار نکات میں خلاصہ بیان کیا جا سکتا ہے۔ اوّل: سرمایہ اور محنت میں دیوار (جس پر سرمایہ داری کی عمارت کھڑی ہے) ناقابل قبول ہے چونکہ اس کا مطلب سرمایہ دار کے ہاتھوں مزدور کا استحصال ہے۔ دوم: ذرائع پیداوار (زمین اور کارخانوں) پر ذاتی ملکیت ناقابل قبول ہے۔ وہ انسانوں کی مشترکہ ملکیت میں ہونے چاہئیں۔ Community کے لفظ سے ہی Communism (اشتراکیت) کا لفظ اُبھرا۔ سوم: انسانی معاشروں کے سیاسی نظام (یہاں تک کہ اُن کی سوچ کو بھی) اُن کا معاشی نظام مرتب اور متعین کرتا ہے۔ چہارم: صرف محنت کشوں (کسانوں اور مزدوروں) کی طبقاتی جدوجہد سے سرمایہ داری کا نظام ختم ہو گا۔ اُن کی سیاسی جماعت (کمیونسٹ پارٹی) طبقاتی جنگ میں ہراوّل دستے کا کردار ادا کرے گی۔ برصغیر ہند و پاک میں اشتراکی خیالات کو سیاسی جدوجہد سے زیادہ ترقی پسند مصنفین اور انسان دوست ادیبوں (فیض احمد فیض‘ علی سردار جعفری‘ احمد ندیم قاسمی‘ شبانہ اعظمی کے والد کیفی اعظمی‘ سبط حسن‘ منشی پریم چند‘ کرشن چندر‘ حبیب جالب‘ احمد فراز) کی وجہ سے پذیرائی ملی ہے۔ بدقسمتی سے آج کے پاکستان میں اشتراکی تحریک کا سیاسی منظرنامہ پر نام و نشان نہیں ملتا۔ سوبھو گیان چند‘ حسن ناصر‘ جام ساقی‘ سجاد ظہیر‘ غلام حیدر جتوئی‘ سی آر اسلام‘ میجر اسحاق محمد‘ شیر محمد مری‘ ان سب نے بڑے مشکل حالات میں بڑی بہادری سے جہدوجہد کی مگر وہ سب کے سب نمایاں کردار ادا کرنے میں ناکام رہے اور دُنیا سے چلے گئے۔ اب ہمارے پاس صرف ان کی یادیں رہ گئی ہیں۔ یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دن منایا گیا شاید آپ کو بمشکل یقین آئے گا کہ اخباروں میں واحد مضمون جماعت اسلامی کے قائد جناب سراج الحق صاحب کا شائع ہوا۔ (مضمون بھی اتنا اچھا کہ قابل صد تعریف)۔ آج کا کالم کارل مارکس کے اُس قول پر ختم کیا جاتا ہے جو اُن کی قبر کے کتبہ پر کنندہ ہے ''شروع دن سے فلاسفر دُنیاوی مسائل کی تشریح کرتے چلے آئے ہیں مگر اہم بات بحث کرنا نہیں بلکہ دُنیاوی نظام میں تبدیلی لانا اور اسے بہتر بنانا ہے‘‘۔
اگر ہم پاکستان میں بامعنی اور مؤثر زرعی اصلاحات نہیں کر سکتے تو کروڑوں ایکڑ غیر آباد زمین لاکھوں بے زمین کاشتکاروں میں تقسیم کر کے اپنی زرعی پیداوار کئی گنا بڑھا سکتے ہیں۔ اگر کارخانوں کو قومی ملکیت میں لینے کا تجربہ بری طرح ناکام ہو گیا تو ہم کارخانوں میں مزدوروں کو 49 فی صد تک حصہ دار تو بنا سکتے ہیں۔ ان دو انقلابی تجاویز کا مقصد محض کارل مارکس کی رُوح کو خوش کرنا نہیں‘ بلکہ 20 کروڑ پاکستانیوں کو خوش اور خوشحال بنانا ہے۔ یہی اس کالم نگار کی اوّلین ترجیح ہے اور ہونی بھی چاہئے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved