میری فرمائش پر کراچی سے جناب فیض عالم بابر نے میرے شعری مجموعے ''توفیق‘‘ کا بھی جائزہ لیا ہے۔ میں ان کی ژرف نگاہی کا معترف ہوں ‘لیکن ایسا ہے کہ کچھ مزہ نہیں آیا۔ پہلی بات جو انہوں نے کہی ہے اور جو میرے پہلے مجموعے پر رائے دیتے وقت بھی کہی تھی۔ شعر میں حشوو زوائد کے بارے میں تھی اور کوئی درجن بھر شعر نقل بھی کیے ہیں‘ جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ فلاں شعر میں فلاں لفظ زائد ہے۔
میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا‘ شاعری نثر نہیں ہوتی۔ اس میں بحر اور شعر کے وزن کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اور بعض دفعہ ایک لفظ دوسرے کا مددگار بھی ہوتا ہے۔ نہ ہی یہ نثری نظم ہوتا ہے‘ جس میں کوئی ایسا لفظ ڈالنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ میرے اکثر مصرعے '' پروز آرڈر‘‘ یعنی نثری پیرائے میں ہوتے ہیں۔ ان میں ایسے الفاظ کے در آنے کا استعمال کم ہوتا ہے۔ لہٰذا میں اسے حشو ماننے سے قاصر ہوں۔ نیز آپ نے دیکھا ہو گا کہ میں اپنی تنقیدی رائے میں بھی حشو کا کبھی ذکر نہیں کرتا۔
دوسرا اعتراض یہ ہے کہ جو اشعار مزاح کا رنگ لیے ہوئے ہوں‘ انہیں نکال دیا یا نکال کر علیحدہ رکھ لینا چاہئے۔ اس ضمن میں آپ نے اقبالؔ کی مثال دی ہے کہ انہوں نے ایسے اشعار ظریفانہ کے عنوان سے علیحدہ قائم کیے تھے۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ وہ متفرق اشعار نہیں تھے بلکہ باقاعدہ نظمیں ہیں۔ اور دوسرا یہ کہ غالبؔ نے ایسے اشعار‘ مثلاً :
دھول دھپّا اس سراپا ناز کا شیوہ نہ تھا
ہم ہی کر بیٹھے تھے غالبؔ پیش دستی ایک دن
یا میرؔ نے بھی ایسے اشعار اپنے دیوان سے نکال کر الگ نہیں کیے؎
یاں پلیتھن نکل گیا، واں غیر
اپنی ٹکّی لگائے جاتا ہے
سو ایسے اشعار بشاشت اور شگفتگی کی ذیل میں آتے ہیں، مزاح میں نہیں ‘ پھر، مزاح بجائے خود شاعری کے لئے شجر ممنوعہ نہیں ہے اور اس کا زیادہ تر انحصار شاعر کی اپنی افتاد طبع پر بھی ہوتا ہے جبکہ '' گل آفتاب ‘‘ کا دیباچہ لکھتے وقت‘ افتخار جالب کا یہ جملہ بطور ِخاص غور طلب ہے کہ ''وہ تعینات کہ جن کا منبع و مخرج اپنی مخصوص ہیئت میں ظفرؔ ؔاقبال سے مشتق ہے‘ مشتمل بر تجری‘ زبان اور مزاح ہیں۔اس کے علاوہ انہوں نے کوئی سات شعر ایسے نقل کیے ہیں‘ جن میں جہاں، وہاں، کہاں اور یہاں وغیرہ کے بعد ''پر‘‘ آتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اساتذہ ایسا نہیں کرتے۔ اگرآپ میر تقی میرؔ کو اساتذہ سے باہر نہیں نکالتے ‘تو ان کا یہ شعر سن لیجئے :
کیا کم ہے ہولناکی صحرائے عاشقی کی
شیروں کو اس جگہ پر ہوتا ہے قشعریرا
بیچارہ کی بجائے ایک جگہ میں نے ''بچارہ‘‘ باندھا ہے تو اس لئے کہ ہم پنجاب کے اندر بول چال میں بیچارہ کو بچارہ ہی کہتے ہیں ‘جو پنجابی کا لفظ ہے اور بیچارہ ہی کہ چالو قسم کی شکل ہے جبکہ میں اپنے اشعار میں اس کے علاوہ بھی پنجابی کے الفاظ بے تکلف استعمال کرتا ہوں کہ اردو جن زبانوں اور بولیوں سے مل کر بنی ہے‘ ان میں پنجابی کا حصہ دیدنی ہے۔
اشفاق احمد کی کتاب ''اردو کے خوابیدہ الفاظ ‘‘ میں ایسے ہی الفاظ درج کیے گئے ہیں‘ جنہیں ہم پنجابی سمجھ کر خاطر میں نہیں لاتے تھے جبکہ فی الاصل وہ اردو ہی کے تھے۔
لفظ دوپہر کے ایک جگہ باندھے گئے وزن پر اعتراض جائز ہے‘ لیکن ہم اہل پنجاب اس لفظ کو اس وزن میں بھی باندھتے ہیں، مثلاً فیض ؔکا مصرعہ ہے ‘جو شاید اس طرح سے ہے :
؎سبزہ سبزہ سوکھ رہی ہے پھیکی زدہ دوپہر
اور منیرؔ نیازی کا یہ مصرعہ:
؎راتوں کا پچھلا پہر ہے اور ہم ہیں دوستو
جن مصرعوں کو بے وزن بتایا گیا‘ ان میں ٹائپ کی غلطی سے ایسا ہوا ہے‘ جس کا موصوف نے اعتراف اور ذکر کر بھی کیا ہے۔ اس شعر کے بارے میں کہ جس کا مصرعہ ہے :
؎کہہ رہی ہیں یہ ترے خواب سے خالی آنکھیں
آپ لکھتے ہیں کہ ترے غلط ہے، ترے کی بجائے ''تری‘‘ ہونا چاہئے تھا۔ یہ میں نے درست لکھا ہے ‘یعنی محبوب کے خواب سے میری آنکھیں خالی ہیں۔موصوف نے ہاتھ گاڑی پر بھی اعتراض کیا ہے کہ اس طرح نیا شاعر بیل گاڑی اور ریل گاڑی پر بھی شعر کہے گا۔ سوال یہ ہے کہ ان پر کیوں شعر نہیں کہے جا سکتے اور اس سے کونسی قیامت آ جائے گی؟۔آپ نے متعدد اشعار کو پھسپھسے قرار دے کر نقل بھی کیا ہے۔ موصوف کو خود بھی معلوم ہو گا کہ ہر غزل مرصع اور ہر شعر حاصل غزل نہیں ہوتا اور میں شعر کے پھسپھسا ہونے سے انکار بھی نہیں کرتا، میرا اپنا شعر ہے‘ جو اس زیر تبصرہ کتاب میں درج ہے:
شعر پھیکا ہی رہا پھر بھی ظفرؔ
دل کا لیموں بھی نچوڑا میں نے
یہ بھی ہے کہ بعض اشعار کا کوئی خاص مقصد بھی ہوتا ہے‘ یعنی جو اگلے شعر تک پہنچنے کے لئے مددگار ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں شعر پر اس طرح آپ حتمی رائے نہیں دے سکتے، کیونکہ اس کا انحصار قاری کی اپنی پسند نا پسند پر بھی ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے اشعار کسی اورقاری کو پھسپھسے نہ لگیں، علاوہ ازیں کتاب میں جو 52 اشعار آپ کو مختلف محاسن کی بناء پر پسند آئے ہیں اور جن میں سے کچھ آپ نے درج بھی کیے ہیں۔ ہو سکتا ہے‘ وہ کسی اور کے لیے اتنے پسندیدہ نہ ہوں۔ حتیٰ کہ میرے بھی پسندیدہ نہ ہوں۔
بہر حال، میں اس عرق ریزی کے لئے اس برخوردار کا بے حد شکر گزار ہوں۔ ان کے بعض اعتراضات جائز اور درست بھی ہیں، تاہم میں نے شاعری میں زبان کے حوالے سے جو لائسنس حاصل کر رکھا ہے‘ اس سے دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں ہوں۔ میں امید کرتا ہوں کہ وہ آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رکھیں گے، دوبارہ شکریہ!
اور اب آخر میں مژدم خان کا یہ خوبصورت شعر :
کچھ بھی میرا نہیں ہے میرے پاس
بد دُعا بھی کسی کی دی ہوئی ہے
آج کا مقطع
ہم اپنے آپ سے بیعت کیے ہوئے ہیں ظفرؔ
یہ سجدہ گاہ کسی نقشِ پا سے ہٹ کر ہے