تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     23-05-2018

ممبئی حملوں کے بعد کارگل کی فرد ِجرم

'' ممبئی حملوں کیلئے بندے بھیج کر ڈیڑھ سو بھارتیوں کو ہلاک کرایا گیا۔۔۔ کارگل میں جنگ چھیڑ کر واجپائی کی پیٹھ میں چھرا گھونپا گیا‘‘ یہ ہے ‘وہ فردِ جرم جو آج ایک بار پھر میاں نواز شریف اور ان کے ساتھی اپنے جلسوں میں ملک کے سپریم ادارے کے سر تھونپے جا رہے ہیں ۔ معرکہ کارگل کی مذمت میں ان کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ واجپائی دوستی بس میں بیٹھ کر لاہور امن کیلئے آئے‘ لیکن امن مشن کو ناکام کرنے کیلئے واجپائی کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا گیا۔ ایسے الزامات تھوپنے سے پہلے میاں نواز شریف اور ان کے ساتھی 3 مئی1999ء کو بھارتی آرمی چیف جنرل وی پی ملک کے ٹائمز آف انڈیا کو دیئے گئے‘ اس انٹر ویو کو پڑھ لیتے‘ تو کیا ہی اچھا ہوتا کہ جس میں انہوں نے مسئلہ کشمیر پر واضح الفاظ میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا ''واجپائی کے حالیہ دورہ لاہور سے مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر کوئی اثر نہیں پڑے گا‘‘۔ یہ انٹرویو بحیثیت وزیر اعظم اس وقت وزارتِ خارجہ نے لازمی واجپائی کو دکھایا ہو گا‘ تو یہ پڑھنے کے بعد کیا واجپائی نے کہا تھا کہ ہماری فوج کے چیف جنرل وی پی ملک نے یہ انٹرویو دے کر نواز شریف کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔
نواز شریف و ہمنوا کی کا رگل پر اس قسم کی فرد جرم کا ایک ہی مقصد ہے کہ دنیا بھر میں پاکستان کے بارے میں بزدلی اور نا اہلی کا تاثر دیتے ہوئے بتایا جائے کہ یہ انڈیا کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں اور ساتھ ہی جارحیت کے الزامات کے ذریعے پاکستان کے خلاف سوالیہ نشانات اٹھا کر خدائے بزرگ و بر تر کی جانب سے دور حاضر کے سب سے بڑے معجزے کی صورت میں عطا کر دہ '' ایٹمی قوت‘‘ کے پاکستان کے رکھوالوں کو نا اہل، بدنام اور کمزور کر دیا جائے۔ ابھی ممبئی حملوں کے الزام کی سیاہی خشک نہیں ہوئی تھی کہ بونیر اور ملتان کے جلسوں میں زہر میں بجھے ہوئے تیر پھینکتے ہوئے کہا ''جب جرنیلوں نے دیکھا کہ کارگل میں ان کا بھارتی فوج کے ہاتھوں برا حال ہو رہا ہے‘ تو پھر یہ نواز شریف کی منتیں کرنے لگے کہ ہمیں بچائو اور پھر نواز شریف نے بڑی مشکلوں سے کلنٹن کو راضی کیا کہ ہماری فوج کو واپسی کا با عزت راستہ دلائے‘‘ ۔ دیکھا گیا ہے کہ نواز شریف اور ان کے رفقا کی اس قسم کی باتوں کا کوئی انہیں ٹیکنیکل طریقے سے جواب دینے کیلئے تیا ر بھی نہیں ہوتا‘ جس سے ان کے حوصلے بلند ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کیلئے ہم کسی پاکستانی ذرائع سے نہیں بلکہ بھارت کے اس وقت کے جرنیلوں کی کارگل پر لکھی گئی کتابوں کا سہارا لیں گے‘ نہ کہ سنی سنائی باتوں کا۔
اکثر لوگ جاننا چاہتے ہوں گے کہ کارگل کی پاکستان اور بھارت کے نزدیک کیا اہمیت ہے؟ اس کی مکمل تفصیل دینے سے پہلے قوم کو یہ بتاتا چلوں کہ کارگل پر پہلے آپریشن کا حکم کسی اور نے نہیں بلکہ حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے 1948ء میں دیا تھا‘ جس کیلئے کوٖ ڈ نام ''آپریشن وینس ‘‘رکھا گیا اور یہ اسی کا تسلسل تھا ‘جس کی پلاننگ پاک فوج 1989ء سے کر رہی تھی ( آپریشن وینس کی تفصیل انشااﷲ کسی اگلے مضمون میں) کارگل کی دونوں ملکوں کے نزدیک جغرافیائی اور جنگی اہمیت کا اندازہ اس سے کیجئے کہ کارگل جنگ ختم ہونے کے بعد بھارت کی ڈیفنس کیبنٹ کمیٹی کی جاری کردہ تحقیقاتی رپورٹ کے یہ الفاظ سامنے رکھئے :On the Indian side The Sirinagar Kargil Leh road is the only surface communication line between Ladakh and Kashmir Valleyاب براہ کرم اُس وقت کے انڈین چیف جنرل وی پی ملک کی کتاب کے صفحہ 149 پرپاکستانی فوج کی پیش قدمی پر مبنی بھر پور کامیابی کا اعتراف ان کے اس اعتراف شکست کی صورت میں پڑھئے:In the Daras Sector the enemy had occupied 
Tololong, which is located at a distance of only 5 KM from the Daras and dominated the Srinagar Kargil, Leh Highway اوپر بھارت کی ڈیفنس کیبنٹ کمیٹی کی رپورٹ کے مطا بق سری نگر کارگل لیہہ روڈ واحدزمینی راستہ ہے ‘جو لداخ کو کشمیر سے ملاتا ہے ۔اس رپورٹ اور جنرل ملک کی کتاب کو ملا کر پڑھئے‘ جس میں وہ تسلیم کرتے ہیں کہ دشمن ( پاکستان) نے تولو لانگ پر قبضہ کر لیا تھا‘ جہاں سے سری نگر کی مین ہائی وے صرف پانچ کلو میٹر پر تھی اور یہی پاک فوج کا پلان تھا‘ جس سے سیاچن کو جانے والی بھارت کی ہر قسم کی سپلائی لائن کٹ جانی تھی اور وہاں تعینات پندرہویں اور سولہویں کور کی سیاچن اور اس سے ملحقہ سیکٹروں میں تعینات پانچ ڈویژن فوج نے بھوک اور ایمو نیشن کی کمی سے اسی طرح ہتھیار ڈالنے تھے‘ جس طرح ہمیں مشرقی پاکستان میں سامنا کرنا پڑا۔ بد قسمتی دیکھئے آج کل جنرل اسلم بیگ جیسے لوگ مشرف دشمنی میں کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کو کارگل پر بریفنگ نہیں دی گئی تھی۔جنرل بیگ صاحب یہ کہتے ہوئے کاش آپ14 جولائی1999ء کو FRONTIER POST میںاپنا کالم ہی دیکھ لیتے‘ جس میں آپ نے تسلیم کیا ہے کہ ''جنوری1999ء میں فوج نے نواز شریف کو کارگل پر مکمل بریفنگ دی تھی‘‘۔
1998-99 ء میں کارگل میں پیدا ہونے والی اندرونی صورت حال ہو بہو وہی ہو گئی تھی‘ جس سے بھارت نے مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کو ہمارے خلاف استعمال کرتے ہوئے فائدہ اٹھایا۔۔۔کارگل ہمیشہ سے ایک پر امن حصہ تھا ‘لیکن اچانک وہاں کی مسلم اور بدھسٹ آبادیوں کے درمیان انتظامی اختیارات کیلئے آپس کی سیا سی جنگ شدت اختیار کرگئی اور ساتھ ہی کارگل کی مقامی آبادی میں بھارت اور سری نگر حکومت کے خلاف عدم اعتماد بھی بڑھنے لگا کیونکہ بھارت نے لداخ کی اکثریتی آبادی کے عرصہ سے جاری شدید مظاہروں اور احتجاج کے با وجود پورے لداخ کو خود مختاری دینے کی بجائے صرف لیہہ ضلع کو جہاں بدھ اکثریت تھیTITURAL AUTONOMOUS کادرجہ دے دیا‘جس سے وہاں کی اکثریتی مسلم آبادی پر مشتمل کارگل ۔۔۔لداخ سے کٹ گیا۔ نواز فیملی اپنے دوست مودی سے پوچھ لے کہ 1999ء کے آغاز ہی میں لداخ کی مسلم اور بدھ آبادیوں میں اختلافات اور با ہمی چپقلش اس انتہا کو پہنچ گئی تھی کہ یہ خطہ دو ایسے متحارب گروپوں کی صورت میں ایک دوسرے پر پھٹ پڑا ‘جیسے 1971ء میں ایسٹ پاکستان کے بنگالی ‘نان بنگالیوںکے سامنے آ گئے تھے ۔ اس وقت کارگل، ترتوک اور بٹالک کی کل آبادی ایک لاکھ کے قریب تھی‘ جس میں مسلم کی تعداد80 فیصد تھی۔۔۔دراس جو سکردو سے ملتا ہے‘ اس کی کل آبادی اس وقت 10 ہزار سے کچھ زائد تھی‘ جس میں90 فیصد سنی اور باقی دس فیصد شیعہ تھے جبکہ لداخ میں بدھ مت کے پیرو کار اکثریت میں تھے۔بھارت کو چین سے جنگ کے دوران پیدا ہونے والی 1960ء جیسی صورت حال کاخدشہ تھا ۔اس لئے واجپائی نے پاکستان کو خاموش رکھنے کیلئے میاں نواز شریف کو استعمال کرتے ہوئے ''دوستی بس کا دورہ لاہور‘‘ رکھ دیا۔۔۔لیکن پاکستانی فوج اب جنرل ایوب خان والی غلطی دہرانا نہیں چاہتی تھی۔جس کے بارے میں انڈین آرمی کے میجر جنرل اشوک کرشنااور بھارت کے انسٹیٹیوٹ آف پیس اینڈ کنفلکٹ سٹڈیز کے ڈائریکٹر پی آر چری اپنی کتاب KARGIL...TURN THR TABLE کے صفحہ17 پر لکھتے ہیں ''لداخ میں مسلمانوں اور بدھسٹ میں بڑھنے والی تلخٰی اور خلیج کو شائد پاکستانی GHQ نے نئی دہلی سے بہت پہلے مانیٹر کر کیا تھا‘‘ ۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved