تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     24-05-2018

اقدار یا اقتدار؟

اقدار کی سیاست یا اقتدار کی سیاست؟نوازشریف صاحب کو پہلے سمجھنا اور پھر طے کر نا ہے۔
مقدمہ انہوں نے پیش کردیا۔اب وہ شواہد سے پردہ اٹھارہے ہیں۔شواہد بھی کچھ ایسے پسِ پردہ نہیں تھے۔ملک کی سیاسی فضامیں ان کی گونج مسلسل سنائی دے رہی ہے۔یہ الگ بات کہ کوئی کانوں میں انگلیاں دے لے۔اقدار کی سیاست میں لازم نہیں کہ اقتدارملے۔اقتدار کی سیاست میں ضروری نہیں کہ اقدارکا احترام ہو۔دونوں کا ایک ساتھ چلنااتنا مشکل ہے جتنا شیر اور بھیڑ کا ہم سفر ہونا۔
اقدار کی سیاست سیدنا عثمانؓ نے کی۔سیدنا علیؓ نے کی۔ایک کے پاکیزہ لہو سے قرآن مجید کے اوراق تر ہوگئے۔دوسرے کے جسدِپاک میں خنجر اتار دیا گیا۔امت کے وجود پر،یہ ایسے کاری وار تھے کہ صدیاں بیت گئیں،زخموں سے ابھی تک خون رس رہا ہے۔ان پاک باز لوگوں سے ہمیں کیا نسبت،اللہ کی رضا کا پروانہ جنہوں نے اپنے ہاتھ میں تھام رکھا تھا۔یہ اللہ کے رسول ﷺ کی مجلس میں بیٹھے تھے۔یہ وہ سعادت ہے جس کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا۔ان شخصیات کا تعلق اس دور سے تھا جب ان کے ہم مجلس کم نہیں تھے۔اس کے باوصف،اقدار کی سیاست کا انجام ہمارے سامنے ہے۔
قائداعظم کا تعلق ہمارے دور سے ہے۔آخری درجے میں راست باز ۔ان سے بر سرِ پیکار مگرسب ابوالکلام اور گاندھی نہیں تھے،سردار پٹیل ، نہرو اور ماؤنٹ بیٹن جیسے بھی تھے۔شاطر اور سرتا پااقتدار کے کھلاڑی۔کشمیر سے حیدر آباد دکن ،جونا گڑھ سے جالندھر اورباؤنڈری کمیشن سے اثاثوں کی تقسیم تک،قدم قدم پر انہیںدھوکا دیا گیا۔وہ بے بسی کی تصویر بن گئے۔سب ماننا پڑا۔نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ستر برس سے یہ خطہ امن کا متلاشی ہے اوردور دور تک آثار دکھائی نہیں دے رہے۔
بایں ہمہ،سچ مگر سچ ہو تا ہے۔مکر وفریب کی فتح معاشروں پر ان مٹ نشان چھوڑ جاتی ہے۔لوگوں کو چند سال کی مہلت مل جاتی ہے ا ور وہ گمان کرتے ہیں کہ یہ تا ابد رہے گی۔عالم کا پروردگاراس کے برخلاف شواہد ،اس کائنات میں بکھیر دیتا ہے اور پھرساتویں آسمان سے آواز دیتا ہے:''اس زمین پرچلو پھرو۔اپنی کھلی آنکھوں سے آثار کود یکھو کہ حق کا انکار کرنے والوں کا انجام کیا ہوا؟‘‘ اس لیے،حق واضح ہوجائے تو پھر انتخاب کا حق چھن جاتا ہے۔پھر دنیاکی ناکامی اور کامیابی بے معنی ہو جا تی ہے۔دونوں کے امکانات مو جود ہوتے ہیں مگر یہ بات پھر زیادہ اہم نہیں رہتی۔
ہمیں ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں کہ لوگوں نے اصول اور عزیمت کا راستہ اختیارکیا اوراسی دنیا میںثمر پایا۔مثال کے طورپر آیت اللہ خمینی۔ وطن کی زمین ان پرتنگ کر دی گئی۔جان خطرے میں گھر گئی اورجلاوطن ہونا پڑا ۔پھر لوگوں نے دیکھا کہ یہی زمین ان کے مخالفین پر تنگ ہوگئی۔اس کا ایک ایک ذرہ ان کے لیے سراپا انتظار بن گیا۔وہ اس شان سے آئے کہ خلقِ خدا امڈ پڑی اور تہران کی سڑکیں اور گلیاں تنگ دامنی کا گلہ کرنے لگیں۔اقتدار اب ان کے لیے ایک بے معنی شے تھی۔چاہیں تو پذیرائی بخشیں،چاہیں تو آنکھ اٹھا کر نہ دیکھیں۔
اقتدار کی سیاست مگر اس طرح نہیں ہوتی۔اقتدار اسی صورت میں ملتا ہے جب کوئی زمینی حقائق سے مطابقت پیدا کر تا ہے۔زمینی حقیقتوں کو ہماری خواہشیں جنم نہیں دیتیں۔یہ برسوں کے تعامل اور تاریخ کے جبر کی کوکھ سے پیدا ہوتی ہیں۔انسان صرف ادراک کرتے اور خود کو ان سے ہم آہنگ بناتے ہیں۔پاکستان کے زمینی حقائق کیا ہیں؟یہاں طاقت کے ایک نہیں کئی مراکز ہیں۔ایک مرکز سب سے مضبوط ہے جو دیگر مراکز کو جھٹلانے کی قدرت رکھتا ہے۔اس سے بگاڑ کر کوئی اقتدار تک نہیں پہنچ سکتا۔نوازشریف صاحب نے جب تک اس مرکز سے بنا کر رکھی،اقتدار کی دیوی ان پر مہربان رہی۔بگاڑ پیدا ہوا تو اقتدار ہی نہیں چھینا گیا،ان کی آبرو بھی جنسِ بازار بنا دی گئی۔
اقتدار کے دیگر کھلاڑی اس حقیقت کو جانتے ہیں۔انہوں نے اقتدار کے اس مرکز سے بنا لی ہے۔سیاست کے چھوٹے چھوٹے کھلاڑی بھی اس بات کو سمجھتے ہیں۔وہ جوق درجوق اس سے وابستہ ہونے لگے ہیںجو اقتدار کے اصل مرکز سے جڑا ہوا ہے۔تحریک انصاف کی طرف لوگوں کا لپکنا اسی بات کا سادہ اظہار ہے۔ہر انتخابات کے موقع پر خانہ بدوشوں کا ایک قافلہ اسی طرح دکھائی دیتا ہے۔
نون لیگ بھی اقتدار کی سیاست کر تی ہے۔یہ بات نوازشریف صاحب سے پوشیدہ نہیں۔شہبازشریف بھی اچھی طرح جانتے ہیں ۔ ان کی جماعت سے وابستہ لوگ بھی اسی وجہ سے ان کے ساتھ ہیں۔اسی لیے انہیں یہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ طاقت کے تمام مراکز سے بگاڑ کر نوازشریف اقتدار تک کیسے پہنچ سکتے ہیں۔ شہبازشریف انہیں تسلی دیتے ہیں کہ ''آپ پریشان نہ ہوں۔میں بھائی صاحب کو سمجھا لوں گا۔‘‘ کیا وہ بڑے بھائی کو سمجھا سکیں گے؟مجھے اس میں شبہ ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا خود نوازشریف صاحب بھی سمجھ رہے ہیںکہ وہ کیا کر رہے ہیں؟
نوازشریف کو سمجھنا یہ ہے کہ وہ اقدار کی سیاست کر رہے ہیں اور اس کی منزل لازم نہیں کہ اقتدار ہو۔جو لوگ نون لیگ کے فورم سے ان کے ساتھ ہیں،ان کے بھائی سمیت، سب کی منزل اقتدار ہے الا یہ کہ کوئی پرویزرشید ہو۔ان سب کی تربیت اقداری سیاست کے لیے نہیں ہوئی۔وہ اُس نوازشریف کے ساتھی تھے جو اقتدار کی سیاست کا ایک کھلاڑی تھا۔اب اگر ان میں کوئی تبدیلی آچکی تو لازم نہیں کہ ساری نون لیگ بھی تبدیل ہو جائے ۔اگر نوازشریف شعوری طورپر اقدار کی سیاست کر رہے ہیں اور وہ اقتدار اور اقدار کی سیاست کا فرق سمجھتے ہیں تو انہیں فوری طور پر ایک فیصلہ کرنا ہے۔
ان کا فیصلہ یہی ہو سکتا ہے کہ نون لیگ کی قیادت کو شہباز شریف کے حوالے کر دیں اور خود اقدار کی سیاست کریں۔شہباز شریف وہ فیصلے کریں جو زمینی حقائق سے ہم آہنگ ہوں اور یوں اقتدار تک پہنچے کی حقیقت پسندانہ حکمتِ عملی اپنائیں۔نوازشریف جماعت اورافرادکی سیاست سے بلند ہوجائیں۔وہ جیل جانے یا جلاوطن ہو نے کے لیے بھی تیار ہوجائیں۔اس صورت میں ان کا مخاطب صرف نون لیگ نہیں،پوری قوم ہوگی۔
اس کے لیے لازم ہے کہ نوازشریف اپنا بیانیہ نئی صورت میں مرتب کریں۔انہیں قوم کوسمجھانا ہے کہ پاکستان آج اس حال تک کیسے پہنچا اور ریاست کے بنیادی اسٹرکچر میں وہ کیا نقائص ہیں،جنہیں ختم کیے بغیر یہ ملک ہمیشہ عدم استحکام کا شکار رہے گا۔یہ مسئلہ کسی فردِ واحدکا نہیں ہے۔اس کا تعلق ریاست کی ماہیت سے ہے۔ اس سفر میں پھر وہ اس سے بے نیاز ہو جائیں کہ کون ان کا ساتھ دیتا ہے اور کون نہیں۔اقتدار کی سیاست کرنے والالیکن اس سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔سادہ لفظوں میں نوازشریف بے نیاز ہو سکتے ہیں،شہباز شریف نہیں۔
انتخابات کا وقت قریب آر ہاہے۔نوازشریف صاحب کوخود بھی اس مخمصے سے نکلنا ہے اور اپنی جماعت کو بھی نکالنا ہے۔وقت آگیا ہے کہ وہ نون لیگ کو شہبازشریف کی قیادت میں آزاد کردیںاور انہیں اپنے فیصلے کرنے دیں۔وہ اپنی بات کہتے رہیں،یہاں تک کہ نون لیگ ہی نہیں،پاکستان کا ہر بیدار مغز آدمی ان کا ہم نوا بن جائے۔اس سفر میں ممکن ہے کہ ان کی باقی ماندہ زندگی جیل میں گزر جائے یا وہ خمینی کی طرح جلاوطن ہوں اورپھر ایک روز آسمان کے ایک افق سے اس طرح نمودار ہوں کہ خلقِ خداان کے استقبال کے لیے امڈ پڑے۔نوازشریف کی مقبولیت میں اس کے آثار پائے جاتے ہیں۔ 
آج بیانیہ ایک ہی ہے اور وہ نوازشریف کا ہے۔باقی سب اقتدار کی سیاست کے کھلاڑی ہیں۔دیر پا تبدیلی وہی لا سکتا ہے جو اقتدار کی نہیں،اقدار کی سیاست کرتا ہو۔میری دلچسپی اِسی نوازشریف سے ہے۔کیا نوازشریف کو خود بھی خبر ہے کہ اقدار کی سیاست کیا ہوتی ہے اور اس کی کیا قیمت دینا پڑتی ہے؟میرا گمان ہے وہ یہ بات جان چکے۔اللہ کرے یہ خوش گمانی باقی رہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved