تحریر : بیرسٹر حمید باشانی تاریخ اشاعت     24-05-2018

قومیں ناکام کیوں ہوتی ہیں؟

قومیں ناکام کیوں ہوتی ہیں؟ تاریخ میں یہ سوال بار بار پوچھا گیا، اور اس کے کئی جواب دئیے گئے۔ اس پر کئی کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ ''قومیں ناکام کیوں ہوتی ہیں: طاقت، خوشحالی اور غربت کی ابتدا‘‘ ان میں سے ایک کتاب ہے۔ ہمارے کئی دانشور دوستوں کو اس کتاب میں پیش کیے گئے حقائق اور نظریات اور اخذ شدہ نتائج سے اختلاف ہے۔ وہ اس کے خلاف بڑے پُر مغز دلائل دیتے ہیں۔ مجھے بھی ان کے بعض دلائل سے اتفاق ہے۔ 
'قومیں ناکام کیوں ہوتی ہیں‘ کے مصنفین سے بہت سی باتوں پر اختلاف کیا جا سکتا ہے‘ مگر ان کی اس بات سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ دنیا کے غریب ترین ملکوں میں ایک چیز مشترک ہے۔ وہ چیز ہے ناکام سیاسی ادارے۔ ہاورڈ اور ایم آئی ٹی کے معاشیات اور سیاسیات کے دو ذہین پروفیسروں نے بہت گہری تحقیق اور غور و فکر کے بعد غریب ممالک میں یہ قدر مشترک ڈھونڈی ہے۔ یہ صرف ان دو دانشوروں تک ہی محدود نہیں۔ اس سے پہلے سینکڑوں دانشور اس سے ملتا جلتا نتیجہ اخذ کر چکے ہیں۔ جہاں تک ہم لوگوں کا تعلق ہے، خوش قسمتی یا بد قسمتی سے یہ کتاب پڑھے بغیر ہی ہم اس حقیقت سے خوب آگاہ ہیں، کہ یہ خود ہم پر بیتی ہے۔ سیاسی اداروں کی نا اہلی کی وجہ سے ہمارے عوام نے بھیانک نتائج بھگتے ہیں۔ لاکھوں نے نا گفتہ بہ غربت کاٹی ہے، اور لاکھوں اب بھی غربت کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ مصنفین لکھتے ہیں کہ غریب ترین ممالک میں اشرافیہ نے سیاسی اقتدار پر قبضہ کیا، دولت لوٹی اور عوام پر ترقی اور خوش حالی کے تمام دروازے بند کر دئیے۔ اس کے بر عکس کامیاب اور امیر ممالک نے اپنے عوام کو ایسے سیاسی حقوق دئیے اور ایسے قوانین تشکیل دئیے جو حکومتوں کو اپنے شہریوں کے آگے جواب دہ بناتے ہیں، اور معاشرے کے ہر فرد کو برابر کے معاشی مواقع مہیا کرتے ہیں۔ ایک اہم ترین فرق ترقی یافتہ اور غریب ممالک کے درمیان یہ ہے کہ امیر اور ترقی یافتہ ممالک افراد اور کاروبار کو مختلف قسم کی ترغیبات دیتے ہیں۔ یہ ترغیبات یوں تو مالیاتی اداروں کی طرف سے دی جاتی ہیں، مگر ان کی بنیاد سیاسی قوانین، قاعدے اور حکومتی پالیسیاںہوتی ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس وغیرہ آج امیر اور ترقی یافتہ اس لیے ہیں کہ بہت پہلے انہوں نے طاقت اور دولت پر اجارہ دار گروہوں کا اثر کم کر دیا تھا۔ مگر تیسری دنیا میں کئی انقلابات کے باوجود ایک اجارہ دار اشرافیہ کے گروہ کی جگہ اجارہ دار اشرافیہ کا دوسرا گروہ لیتا رہا۔ اجارہ دار اشرافیہ کی ایک دوسرے کی جگہ لینے کی ایک نمایاں مثال مصر ہے، وہاں ایک مدت تک سلطنتِ عثمانیہ کی اشرافیہ کی اجارہ داری رہی۔ اس اجارہ داری کی جگہ آگے چل کر برطانوی بادشاہت نے لی، پھر ایک مقامی بادشاہت کا قبضہ اور اس کے خاتمے پر ایک سیکولر مطلق العنانیت کا قیام، جس نے اشرافیہ کے ساتھ مل کر ایک نئی اجارہ داری قائم کی۔ یہ سب بظاہر بڑی بڑی تبدیلیاں ہیں‘ مگر ان سب تبدیلیوں کے دوران عوام کے سیاسی حقوق وہی رہے اور دولت عوام سے دور چند ہاتھوں تک ہی محدود رہی۔ 
جب کسی غریب اور ترقی پذیر ملک میں قانونی نظام اور مالیاتی ادارے سماج کے صرف ایک حصے کے مفاد کے لیے کام کرتے ہوں، تو وہاں عام لوگوں کو کوئی ترغیب یا سہولت نہیں دی جاتی۔ اس سے معیشت جمود کا شکار ہو جاتی ہے۔ ترقی یافتہ امیر اور پسماندہ غریب ملکوں کے درمیان فرق صرف پانی، بجلی یا صحت کی سہولیات کا ہی نہیں۔ یہ فرق فوجداری قانون کے مؤثر اور شفاف ہونے کا بھی ہے۔ قانون کی حکمرانی کا بھی ہے۔ 
ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں ایسے بہت سارے فرق پائے جاتے ہیں، مگر شاید زیادہ اہم فرق سماج کے ہر فرد کے لیے مساوی مواقع ہیں۔ تیسری دنیا میں یہ مساوی مواقع موجود نہیں ہیں۔ 
اشرافیہ کسی بھی ملک میں عموماً کھلے مالیاتی اور سب کو شامل کرنے والے ادارے بنانے کے خلاف مزاحمت کرتی ہے۔ چونکہ اس طرح کے ادارے ان کی اپنی طاقت کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں، اور ظاہر ہے طاقت سے خود کوئی بھی دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اکثر آمریت پسند یا مطلق العنان حکمران اپنے ملک کی خوشحالی کی طرف رہنمائی کے بجائے اپنے ملک کو لوٹ کر ذاتی جائیدادیں، گھر اور طیارے خریدنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اس کے بر عکس آزاد اور ترقی یافتہ معاشروں میں موجود تکثیری ادارے طاقت اور دولت کو اس طرح تقسیم کرتے ہیں کہ حکمران طبقات کے لیے غیر قانونی دولت جمع کرنا اور بچانا مشکل ہو جاتا ہے۔ امریکہ میں انیسویں صدی کی بڑی اجارہ داریاں ہمیں بتاتی ہیں کہ صرف منڈیاں اکیلی تکثیری‘ یعنی سب کو ساتھ شامل کرنے والے ادارے‘ نہیں لا سکتی۔ اس کے بر عکس منڈی کی اجارہ داریاں دولت اور طاقت پر قبضہ کرنے اور دوسروں کے لیے مواقع تنگ کرنے کے لیے استعمال ہو سکتی ہیں۔ سب کو شامل کر کے چلنے والے اداروں کے ساتھ ساتھ ایک آزاد پریس کا ہونا بھی ضروری ہے۔ ٹیلی ویژن، اخبارات اور سوشل میڈیا کرپشن کے خاتمے اور مساوی مواقع مہیا کرنے کے عمل میں بڑا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
آج کی ہماری دنیا میں عدم مساوات نا صرف موجود ہے، بلکہ انتہائی تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے۔ بعض ملکوں میں ان حکومتی اداروں کی جڑیں تاریخ میں بہت گہری ہیں، جنہوں نے عدم مساوات پیدا کی اور جو عدم مساوات کو مسلسل بڑھاوا دے رہے ہیں۔ ایک ملک نے ابتدائی طور پر جن خطوط پر اپنے آپ کو منظم کیا ہوتا ہے، اس کو بدلنا آسان نہیں ہوتا۔ اگر عدم مساوات کو شروع میں نہ روکا جائے تو یہ سماج کے اندر مضبوطی سے مورچہ زن ہو جاتی ہے۔ اس طرح جو نظام تشکیل پاتا ہے، اورجو بندوبست سامنے آتا ہے، اس میں کسی ایک مراعات یافتہ طبقے کو فائدہ ہو رہا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے اس مراعات یافتہ طبقے کو کیا ضرورت ہے کہ وہ اپنے اس مفاد کو آبادی کی بڑی اکثریت کے ساتھ بانٹے۔ 
اداروں اور پالیسیوں کا عقلی تعین یا تخمینہ سماج کے خد و خال نہیں تشکیل دیتا جو اس بات کو یقینی بنائے کہ اس نظام سے زیادہ سے زیادہ لوگ فائدہ اٹھا سکیں۔ پالیسیاں یہاں طاقت ور لوگ بناتے ہیں اور سب سے پہلے اپنے مفادات کا تحفظ ان کی پہلی ترجیح ہوتی ہے۔ 
صرف ایک ایسا نظام ہی ایک کامیاب قوم تخلیق کر سکتا ہے‘ جو طاقت کی وسیع پیمانے پر تقسیم کو یقینی بنائے‘ اور جس میں قوم کے ہر ایک فرد کو حصہ لینے اور ترقی و خوشحالی کے مساوی مواقع ملیں۔ بسا اوقات حکو مت کے زیر انتظام استخراجی یا اجارہ دار اداروں کی کارکردگی بری نہیں ہوتی۔ انیس سو تیس سے انیس سو ستر کے درمیان سوویت یونین نے ریاستی پشت پناہی سے بے پناہ ترقی کی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس دور میں سوویت یونین نے وسائل کو زراعت سے صنعت میں منتقل کیا تھا، جس سے یہاں پر حیرت انگیز صنعتی ترقی ہوئی۔ مگر انیس سو اسی کے بعد یہ زوال کا شکار ہو گیا۔ کبھی کبھار ریاستی اجارہ داری میں کوئی ملک تیزی سے ترقی کر سکتا ہے، خصوصاً جب وہ کسی ایسی چیز کی پیداوار میں اجارہ داری قائم کر لے جس کی دنیا میں سخت مانگ اور ضرورت ہو، جیسا کہ بارباڈوس نے گنے کی پیداوار اور تجارت پر کامیاب اور منافع بخش کنٹرول حاصل کیا تھا‘ یا پھر سٹالن نے جب اجتماعی فارمز قائم کیے اور ان سے حاصل شدہ وسائل کو صنعت کاری میں لگایا۔ انیس سو اٹھائیس سے انیس سو ساٹھ کے درمیان سوویت یونین کی معیشت کی ترقی کی رفتار چھ فیصد تھی، اور کہا جاتا تھا کہ ایک دن یہ امریکی معیشت کو پیچھے چھوڑ دے گی، مگر بعد میں ترقی کی یہ رفتار قائم نہ رہ سکی۔ آج کے چین میں معاشی ترقی کا ابھار بھی سوویت یونین کی طرح ہے‘ مگر اس کے ساتھ اس میں سوویت معیشت کی نسبت بہت زیادہ تنوع ہے۔ تاہم یہاں سب کو شامل کر کے چلنے والے اداروں کی عدم موجودگی میں اس کا جاری رہنا شاید مشکل ہو۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ سب کو شامل کیے بغیر کوئی قوم آسودہ نہیں ہو سکتی، اور ناکام رہتی ہے، خواہ اس میں کوئی بھی نظام کیوں نہ ہو۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved