تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     24-05-2018

سرخیاں، متن اور شعر و شاعری

میرے بیٹے قول و فعل کے خود ذمہ دار ہیں: نواز شریف
مستقل نا اہل سابق وزیراعظم نے کہا ہے کہ ''میرے بیٹے قول و فعل کے خود ذمہ دار ہیں‘‘۔ ماسوائے اس کے کہ حسین نواز کے ایک قول نے مجھے بھی پھنسا کر رکھ دیا‘ جس میں انہوں نے الحمد للہ کہہ کر کھوتا ہی کھوہ میں ڈال دیا تھا اور میں اب تک تاریخیں بھگت رہا ہوں‘ جس کا اب کہیں جا کر خاتمہ ہونے والا ہے اور میرے آرام کے دن قریب آ رہے ہیں کیونکہ جیل کا ہسپتال خاصا آرام دہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملاقات سے گھبرانے والا نہیں۔اور یہ بات میں نے اتنی ہی دفعہ کہی ہے‘ جتنی بار مجھے کیوں نکالا گیا تھا کیونکہ بیوقوف عوام کو سمجھانے کے لئے بار بار کہنا پڑتا ہے، ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ عوامی عدالت کا فیصلہ ''آ رہا ہے‘‘ اگرچہ سزا یابی کی صورت میں اس فیصلے کی خصوصیت بھی خاصی بدل جائے گی کیونکہ لوگ بیوقوف ہونے کے باوجود اتنے بے وقوف نہیں ہیں کہ سمجھ نہ سکیں کہ میں جیل سے آخر کتنے مسائل حل کر سکوں گا۔ آپ پارٹی رہنمائوں سے بات کر رہے تھے۔
خیبرپختونخوا ، سندھ اربوں کھا گئے، نیب حساب لے: شہباز شریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''سندھ، خیبرپختونخوا اربوں کھا گئے، نیب ان سے بھی حساب لے‘‘ اگرچہ انہوں نے نسبتاً کچھ کم کھایا ہو گا کیونکہ ان کے صوبے بھی نہ چھوٹے ہیں جبکہ بڑے صوبے کے وسائل بھی زیادہ تھے اور اسی حساب سے خدمت بھی کی گئی۔ حصہ بقدرِ جشہ اسی کو تو کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ '' سپریم کورٹ اور نیب آگے آئیں، اچھا کام کرنے کی ستائش اور کرپٹ عناصر کو ان کے گھر تک پہنچائیں‘‘۔ اگرچہ سپریم کورٹ کو تو بھائی صاحب! اپنی مصروفیات پیش کرتے ہی رہتے ہیں اور نیب کو ختم کرنے کا کام بھی شروع کر دیا ہے۔ تاہم میرا بیان ان سے مختلف ہوتا ہے کیونکہ میں اپنے ساتھ وہ کچھ نہیں کروانا چاہتا‘ جو بھائی صاحب کے ساتھ ہونے والا ہے۔ اگرچہ میں خود بھی اسی قطار میں شامل ہونے والا ہوں۔ کیونکہ کئی اور انکوئریاں بھی مکمل ہونے والی ہیں اگرچہ بھائی صاحب میری اس نرم روی کے خلاف ہیں کیونکہ وہ بھی بوجہ اخوت مجھے اپنے ساتھ ہی رکھنا چاہتے ہیں۔ آپ چنیوٹ میں خطاب کر رہے تھے۔
مسلم لیگیوں کا اتحاد وقت کی ضرورت ہے: چوہدری شجاعت
پاکستان مسلم لیگ کے صدر اور سابق وزیراعظم چوہدری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ ''مسلم لیگیوں کا اتحاد وقت کی ضرورت ہے‘‘ اس لئے پیشتر اس کے کہ کوئی خلائی مخلوق ہمارا اتحاد کرا دے جیسا کہ چند سال پہلے کرایا گیا تھا تو بہتر ہے کہ پہلے ہی اور شرافت کے ساتھ یہ کام خود ہی کر لیا جائے اگرچہ یہ کام کچھ ایسا آسان نہیں رہا کیونکہ سارے کے سارے مسلم لیگی دوسری جماعتوں کو پیارے ہو چکے ہیں۔ اس لئے پہلے انہیں وہاں سے نکالنا پڑے گا۔ مسلم لیگ ضیاء کے سربراہ اعجاز الحق نے مجھ سے ملاقات کی ہے۔ اس لئے آدھا کام تو سمجھیے ہو گیا کیونکہ یہ سارے بوٹے ضیاء صاحب نے ہی تو اپنے دست مبارک سے لگائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ بھرپور حصہ لے گی‘‘ بشرطیکہ انکوائریوں سے ہو گئی اور ایسا لگتا ہے کہ نیب ہمارے خلاف بھی سیاسی انتقام لے رہی ہے۔ آپ اگلے روز اپنی رہائش گاہ پر مختلف لوگوں سے ملاقات کر رہے تھے۔
رمضان بازاروں میں عوام کو ریلیف فراہم کیا جا رہا ہے: احسن اقبال
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''رمضان بازاروں میں میں عوام کو ریلیف فراہم کیا جا رہا ہے‘‘ ۔اور وہ تیسرے درجے کی اشیاء اول درجے کی قیمت پر خوشی خوشی خرید رہے ہیں کیونکہ دکانداروں کے ساتھ انہیں پوری پوری ہمدردی ہے‘ جو سارا سال ان بازاروں کا انتظار کرتے اور من مانا منافع لے کر عنداللہ ماجور ہوتے ہیں کہ بھائی چارہ اور اخوت اسی کا نام ہے جبکہ جدید طبی تحقیق کے مطابق گلے سڑے پھلوں اور سبزیوں سے عوام کی صحت پر کوئی برا اثر نہیں پڑتا کیونکہ گٹر ملا پانی پی پی کر ان کے معدے کافی مضبوط ہو چکے ہیں اور جس سے گٹروں کی افادیت کا بھی صحیح اندازہ ہوتا ہے جبکہ صاف پانی کا منصوبہ اسی لئے کامیاب نہیں ہو سکا اور اسے بیچ میں ہی چھوڑ دیا گیا ہے کہ لوگ جو گٹر ملے پانی سے ٹیون ہو چکے ہیں، کہیں بد ہضمی کا شکار نہ ہو جائیں۔ آپ اگلے روز گوجرانوالہ میں رمضان بازار کا دورہ کر رہے تھے۔ 
اور اب عکاس انٹرنیشنل میں شائع ہونے والے اشعار کا انتخاب:
وہ دکھ جو خوشی سے سہہ رہے تھے
اب جاں کا وبال ہو گیا ہے (ایوب خاور)
یونہی بدنامیاں نہیں ملتیں
اچھا کردار بھی ضروری ہے (اکبر حمیدی)
کوئی خواہش ہو اب کہتے ہی فوراً مان لیتا ہے
ستم گر نے مجھے اب بھی پریشانی میں رکھا ہے
بہت سی بے نیازی اور اک یادوں بھری گٹھڑی 
بڑا سامان اپنی خستہ سامانی میں رکھا ہے (حیدر قریشی)
جو میری دسترس میں تھی وہ ساعت
نہ جانے اب کہاں رکھی ہوئی ہے (غالب عرفان)
ترا غم بھی سلامت، غم کے مارے بھی سلامت ہیں
یہ دریا موج میں ہے اور کنارے بھی سلامت ہیں (شبنم اعوان)
ایک آنسو تھا جسے صدیوں سفر کرنا تھا
اک رستہ تھا جو دیوار سے آگے کا تھا
آیتیں پڑھتے ہوئے اشک میرے ساتھ چلے
میں مسافر تھا اور اس پار سے آگے کا تھا
خواب تھا دیدۂ بیدار تلک آ گیا ہے
دشت بڑھتا ہوا دیوار تلک آ گیا ہے
ہمیں مٹا نہیں پائیں گے تیرے ظلم و ستم
یہ آگ بجھ بھی گئی تو دھواں رہا کرے گا
جانے کس سمت ہمیں تیز ہوا لے جائے
جانے کس دشت میں اب اپنا ٹھکانہ ہو گا( میثم علی آغا)
آج کا مطلع
ایسی آپ لکیر ہیں
جس کے سبھی فقیر ہیں

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved