تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     24-05-2018

’’ڈھیٹ‘‘ ویو

2015ء میں کراچی کے باشندوں نے پہلی بار ہیٹ ویو کا نظارہ کیا۔ اور نظارہ کیا کیا، جی بھر کے جھیلا۔ رمضان کا پہلا عشرہ ایسا گزرا کہ لوگ استغفار میں مصروف رہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری اعداد و شمار کے درمیان رہیے تو اس ہیٹ ویو نے کم و بیش دو ہزار جانوں کا نذرانہ لیا۔ اب پھر ہیٹ ویو کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ع
پھر وہی پاؤں، وہی خارِ مُغیلاں ہوں گے
ہیٹ ویو نے جو قیامت ڈھائی اور جو قیامت وہ مزید ڈھا سکتی ہے ‘وہ سب اپنی جگہ۔ جنگل میں کوئی اکیلا جارہا ہو اور سامنے شیر آجائے ‘تو وہ کیا کرے؟ کچھ بھی نہیں کیونکہ جو کرنا ہے ‘اب شیر کو کرنا ہے۔ جب شدید گرمی کی لہر آئی ہوئی ہو‘ تو کچھ ایسی ہی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اور سبھی جانتے ہیں کہ ہیٹ ویو ہم سے کیسا سلوک روا رکھتی ہے‘ مگر ہمیں ہیٹ ویو سے زیادہ ''ڈھیٹ‘‘ ویو کی فکر لاحق رہتی ہے۔ہیٹ ویو کا کیا ہے، کچھ دن رہے گی اور چلی جائے گی۔ ڈھیٹ ویو‘ تو جانے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ زندگی کا ہر پہلو اِس لہر میں بہتے بہتے بہت دور نکل چکا ہے۔ قدم قدم پر ڈِھٹائی اس شان سے براجمان ہے کہ بچ کے چلنا کبھی کبھی جُوئے شیر لانے کے مترادف ٹھہرتا ہے۔ 
معاشرے جب جمود کا شکار ہوتے ہیں ‘تو ہر معاملہ ٹھہرا ہوا لگتا ہے۔ اگر معمول سے ہٹ کر ہلچل دکھائی دے رہی ہو‘ تب بھی کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیتا‘ کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔ منیرؔ نیازی خوب کہہ گئے ہیں :
منیرؔ! اس شہر پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے 
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ 
ڈھیٹ ویو نے ہر معاملے کو ایسی مضبوطی سے جکڑ رکھا ہے کہ گلو خلاصی دردِ سر میں تبدیل ہوگئی ہے۔ بیشتر معاملات ڈھیٹ ویو میں بہتے ہوئے اتنے دور نکل گئے ہیں کہ لوگ تعاقب سے توبہ کرنے ہی میں عافیت محسوس کرنے لگے ہیں۔ 
اب یہ ڈھیٹ ویو نہیں تو اور کیا ہے کہ کراچی میں تمام مقامی و غیر مقامی ادارے موجود ہیں اور کام ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ یہ ڈھیٹ ویو ہی کا تو کمال ہے کہ سیاست دانوں اور عوام کی طرف سے خاصا شور مچائے جانے پر بھی کراچی میں کچرا ڈھنگ سے اٹھانے اور صفائی کا معقول انتظام یقینی بنانے کا اہتمام نہیں کیا جاسکا۔ اور یہ بھی ڈھیٹ ویو ہی کا تو چمتکار ہے کہ کراچی میں ایک زمانے سے کیڑے مار ادویہ کا اسپرے نہیں کیا گیا اور کتا مار مہم نہ چلائے جانے کے باعث رات کو شہر کی سڑکوں سے گزرنا جان پر کھیلنے سے جیسا ہوگیا ہے۔
ڈھیٹ ویو کا پھیلاؤ بڑھتا جارہا ہے۔ بہت سے آسان اور عام سے سرکاری کام بھی اس کے بہاؤ میں بہتے جارہے ہیں۔ کراچی میں ماس ٹرانزٹ کا معاملہ عشروں سے معرضِ التواء میں پڑا ہوا ہے۔ اس حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکومت پنگ پانگ کھیلتی رہی ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کے درمیان اب بھی اس حوالے سے ٹھنی ہوئی ہے۔ معاملہ ڈھیٹ ویو کی نذر ہوچلا ہے۔ سرجانی ٹاؤن تا لسبیلہ بالائی گزر گاہ تعمیر کی جاچکی ہے۔ تھوڑا سا کام باقی ہے۔ بس، یہی خرابی ہے۔ سُنا ہے گرین لائن بس منصوبہ تو مکمل ہونے کو ہے‘ مگر بسوں کا نام و نشان نہیں۔ 
ہر سال کی طرح اس سال بھی ماہِ صیام کی آمد پر گرمی کے ساتھ ساتھ مہنگائی کی لہر بھی آئی اور نیتوں کی خرابی کو پہلے سے زیادہ آشکار کرکے چل دی۔ یہ ڈھیٹ ویو ہر سال اس طور آتی ہے کہ ابتدائی روزوں کچھ بھی اپنے مقام پر سلامت نہیں رہتا۔ 
معاشرے کا کوئی بھی پہلو اب محفوظ نہیں رہا۔ ''ڈِھٹائی درجۂ اوّل‘‘ کی لہر نے سب کچھ الٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے۔ تازہ ترین تاریخ‘ میں شدید ترین ڈھیٹ ویو سندھ کے علاقے تھر میں دکھائی دی ہے۔ صوبائی حکومت نے شاید قسم کھا رکھی ہے کہ تھر میں غذا، غذائیت، ادویہ اور طبی سہولتوں کی کمی کے باعث ہونے والی ہلاکتوں پر قابو پانے کے حوالے سے کچھ بھی نہیں کرنا ہے۔ تھر میں نومولودوں کی ہلاکت عام ہے۔ اس حوالے سے پیپلز پارٹی پر شدید تنقید کی جاتی رہی ہے کیونکہ صوبے میں حکومت اُسی کی ہے‘ مگر ڈھیٹ ویو ہے کہ صوبائی حکومت کو کچھ بھی کرنے نہیں دے رہی۔ 
یہی ڈھیٹ ویو کراچی سمیت ملک بھر کے سرکاری ہسپتالوں میں بھی تمام خواہشات اور امکانات پر پانی پھیرتی رہتی ہے۔ طبی شعبے کی سرکاری مشینری بیمار ذہنیت کی حامل ہے۔ کوئی کچھ بھی سوچے اور کہے، سرکاری مشینری نے طے کر رکھا ہے کہ عوام کے ایک بڑے بنیادی مسئلے کو حل کرنے کے حوالے سے کچھ نہیں کرنا ہے۔ 
ڈِھٹائی کی لہر نے تعلیم کے حوالے سے سرکاری شعبے پر بھی اس طور پانی پھیرا ہے کہ اب معاملات کے درست ہونے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ سرکاری سکولوں میں کل تک تعلیم و تعلم کا اعلیٰ معیار ڈھونڈے سے نہیں ملتا تھا، اب خیر سے سکول ہی دکھائی نہیں دیتے۔ دوسری طرف ڈھیٹ ویو تعلیم سے جڑے ہوئے نجی شعبے پر بھی چڑھ دوڑی ہے۔ تگڑی فیس وصول کرنے کا سلسلہ تو جاری ہے‘ مگر علمیت ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ ع
یا الٰہی، یہ ماجرا کیا ہے 
معاملہ سیاست دانوں کا ہو یا سرکاری و ریاستی مشینری کا، جسے دیکھیے ‘وہ ڈِھٹائی پر تُلا ہوا ہے۔ کوئی یہ طے کرکے بیٹھا ہے کہ دھرنا دیتے رہنا ہے، احتجاج کرتے رہنا ہے۔ اب اگر اس عمل کے نتیجے میں قومی معیشت کا تانا بانا بکھرتا ہے‘ تو بکھرتا رہے، معاشرے میں بہت کچھ تلپٹ ہوتا ہے تو ہوتا رہے۔ کوئی اگر کسی کی حاشیہ برداری پر مائل ہے‘ تو ایسی ڈِھٹائی کے ساتھ کہ دیکھتے جائیے، شرماتے جائیے۔ کسی نے اگر کام نہ کرنے کی ٹھان رکھی ہے‘ تو ایسی ڈِھٹائی کے ساتھ کہ کسی میں دم نہیں کہ اُس سے کوئی کام کروالے۔ پورا معاشرہ اچھی خاصی ڈِھٹائی کے ساتھ اپنی مرضی کے مطابق جینے پر بضد ہے۔ گویا : ع
جو ذرّہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے 
ہیٹ ویو سے ہم کسی نہ کسی طور نمٹ ہی لیں گے، سوال ڈھیٹ ویو سے نمٹنے کا ہے۔ اس کا اور ہمارا ساتھ تو زندگی بھر کا دکھائی دیتا ہے۔ یہ ساتھ اب ختم ہونا چاہیے۔ ڈھیٹ ویو سے گلو خلاصی ناگزیر ہوچکی ہے۔ یہ لہر ختم ہو تو کچھ بہتری ہو، چیزیں اپنے مقام پر دکھائی دیں۔ یاروں نے تو جیسے طے کرلیا ہے کہ ہر سطح پر، ہر معاملے میں ڈِھٹائی کو حرزِ جاں بنائے رکھنا ہے۔ یہ ایسی لہر ہے کہ بار بار ابھرتی ہے اور سب کچھ بہا لے جاتی ہے۔ ہیٹ ویو آتی ہے تو خاصا بگاڑ پیدا کرتی ہے‘ مگر خیر یہ بگاڑ بعد میں ختم بھی ہو جاتا ہے، ڈھیٹ ویو تو اصلاح کی گنجائش ہی نہیں چھوڑتی۔ ہیٹ ویو ریلیف کیمپ کی طرز پر ''ڈھیٹ ویو ریلیف کیمپ‘‘ بھی ناگزیر ہیں‘ یعنی قدم قدم پر کچھ ایسا اہتمام بھی ہو کہ لوگ ڈِھٹائی ترک کرکے کچھ مثبت کرنے پر مائل ہوں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved