تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     24-05-2018

نیم حکیم

صحت ہمارے ہاں سب سے زیادہ نظر انداز کیا جانے والا شعبہ ہے ۔ آپ شہر کی سڑکوں پر نکل جائیں ۔ ہر کہیں سنگین بیماریوں کے علاج کے ایسے دعویدار مل جائیں گے ،‘جو میٹرک پاس بھی نہیں ہوں گے ۔ رکشوں کے پیچھے اس طرح کی عبارت لکھی نظر آتی ہے : گردے کی پتھری، صرف ایک خوراک سے نکل جائے گی ۔ نیچے فون نمبر درج ہوتاہے ۔ میڈیکل سائنس کے طالب علم بخوبی جانتے ہیں کہ گردے یا پتے کی پتھری ایک خوراک میں کسی کا باپ بھی نہیں نکال سکتا۔ان اشتہارات میں یہ لکھا ہوتاہے کہ پرانے اور ضدی امراض کا علاج ، صرف ایک خوراک سے ۔ کچھ اشتہارات میں معالج جو کہ شکل اور بول چال سے صاف کم پڑھا لکھانظر آتا ہے ، اسے مذہبی حلیے میں دکھایا جاتاہے اورظاہری علاج کے ساتھ وہ روحانی علاج بھی کر رہا ہوتاہے ۔ 
ایک دفعہ ایک طویل دورانیے کا اشتہار دیکھا۔ کچھ کیپسول تھے، جن کے حوالے سے یہ دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ اگر تیس سال سے کم عمر لوگ ان کا کورس کر لیں ‘تو ان کا قد کئی انچ تک بڑھ جائے گا ۔ مزید یہ کہ اگر آپ کی عمر تیس سال سے بڑھ چکی ہے‘ تو پھر آپ کا قد تو نہیں بڑھ سکتا‘ لیکن پھر بھی آپ یہ دوا ضرور لیں تاکہ آپ کی اولاد کا قد چھوٹا نہ رہ جائے ۔ آپ اندازہ کریں کہ کیسا کیسا سائنسدان ہمارے پاس موجود ہے ‘ جو آنے والی اولاد کا قد بھی چھوٹا نہیں رہنے دیتا‘ یعنی یہ دوا آپ کے ڈی این اے اور جینز کے اندر تک گھس جائے گی ۔ اور اس کی قیمت : 5ہزار جی نہیں ، صرف 3500جی نہیں ، ابھی آرڈر کرنے پر 1800روپے میں۔ اس کے ساتھ آپ کو ملے گا (قد لمبا کرنے کے لیے )لٹکنے کے لیے ایک سٹینڈ بالکل مفت۔ بندہ پوچھے کہ جب جینز کے اندر تک دوا گھسیڑ کر اگلی نسل بھی لمبی کرنے کا انتظام کر دیا ہے‘ تو پھر لٹکنے کا جھنجھٹ کس خوشی میں؟ اس سے آگے مزید سوچیں کہ جو بندہ آج دوا کھا رہا ہے ‘ وہ پہلے شادی کرے گا‘ پھر بچے پیدا کرے گا ‘ پھر وہ بچے بڑے ہوں گے ‘ تب جا کر پتہ چلے گا کہ دوا نے اثر دکھایا یا نہیں ۔ 
دوسراسوال یہ ہے کہ اگر ہفتوں میں انسان کا قد بڑھایا جا سکتا ہو یا اگر اتنی ہی تیزی سے اس کا وزن گرایا جا سکتا ہو‘ تو پھر دنیا کی سب سے ترقی یافتہ میڈیکل سائنس ‘جس میں سب سے زیادہ اعلیٰ equipmentاستعمال کیاجا تاہے ‘ اسے کیا پڑی ہے کہ آپ کو ان خوشیوں سے دور رکھے ؟
ہمارے ہاں ایک اور خوفناک رجحان یہ ہے کہ جو کم پڑھے لکھے ہیں ‘ وہ اِدھر اُدھر سے میڈیکل کی کچھ باتیں سن کر خود طبیب بننے کا شوق رکھتے ہیں ۔ ایک دوست کے پتّے میں تکلیف تھی ۔ اس کے پتے میں sludgeتھی (وہ ریت یا مٹی، جس سے پتھری بنتی ہے )اور وہ تڑپ رہا تھا۔ میرے ایک عزیز نے یہ کہا کہ اس کی وجہ قبض ہے ‘ قبض سے معدہ خراب ہوا ۔ معدہ خراب ہونے کے بعد پتہ خراب ہوا‘ اس کے بعد پتے میں پتھری یا sludgeپیدا ہوئی۔ اس نے کہا کہ میں نے ایک پھکی تیار کی ہے ‘ جو لیتا ہے ، اس کے ہاضمے کے سارے مسائل حل ہو جاتے ہیں اور ایسی کوئی پتھری دوبارہ بنتی ہی نہیں ۔ افسوس بھرے لہجے میں ‘ میں نے ان سے کہا کہ آپ میٹرک پاس بھی نہیں ۔ ہاتھ کچھ ہولا رکھیں ۔ کو ئی مر مرا گیا‘ تو پھر لمبے کیس بھگتنے پڑیں گے ۔ پتے میں پتھری بننے کے جو مراحل انہوں نے بیان کیے ‘ وہ سو فیصد غلط تھے۔ میرے اس عزیز کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ خوراک کی نالی کس شکل وصورت کی ہوتی ہے اور معدہ کس طرح سے کام کرتاہے ۔ ان سے اگر کہا جاتا کہ پنسل سے معدے کی تصویر بنا کر دکھائیں ‘تو وہ کبھی بھی نہ بنا پاتے ۔ 
پھر سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ لوگ غلط علاج سے مرتے کیوں نہیں ؟جواب : کچھ لوگ مربھی جاتے ہیں ‘لیکن اکثریت جسم میں موجود قدرتی مدافعتی نظام کی وجہ سے بچ نکلتی ہے ۔ امیر اور غریب کی تخصیص کے بغیر یہ نظام ہر انسان کے جسم میں موجود ہے ۔ یہ کسی بھی بیماری کے جراثیم جسم میں داخل ہونے پر اس کے خلاف بھرپور اعلانِ جنگ کر دیتاہے ۔ زیادہ تر لوگوں کو یہ قدرتی مدافعتی نظام تندرست کرتاہے باوجود غلط علاج کے ۔ اصل میں لڑنا اسی نظام نے ہوتاہے ۔ ادویات صرف اس کی مدد ہی کرتی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ جنگلات میں اربوں جانور، جنہوں نے کبھی کسی ڈاکٹر سے علاج نہیں کرایا ہوتا،اکثر بھرپور انداز میں اپنی زندگی گزارتے ہیں ۔ قدرتی مدافعتی سسٹم (Immune System)کی وجہ سے جب لوگ لوٹ پوٹ کر خود ہی ٹھیک ہوجاتے ہیں تو پھر ان کا اپنے غلط علاج پر اعتماد بڑھ چکا ہوتاہے ۔ 
لوگ طب نبوی ؐ استعمال کرتے ہیں ‘ضرور کیجیے ۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھیے کہ چودہ صدیاں پہلے الٹرا سائونڈ ، سٹی سکین، اینڈو سکوپی وغیرہ کی ایجاد نہیں ہوئی تھی اور ہمارے پیارے نبیؐ نے ان کے بارے میں کوئی رائے نہیں دی۔ سرکارؐ ہمیشہ مجموعی انسانی علم سے فائدہ اٹھایا کرتے۔ جیسا کہ حضرت سلیمان فارسیؓ نے جب خندق کھودنے کی جنگی تدبیر عرض کی تو سرکارؐ نے اسے پسند فرمایا۔ اب اگر انسان اس قابل ہو گیا ہے کہ کیمرہ جسم کے اندر ڈال کر بیماری کو دیکھ سکے تو اس سے کیوں فائدہ نہ اٹھایا جائے؟ اس دور میں گاڑی استعمال نہیں ہوئی تھی ۔ پیغمبرؐ اور صحابہ ؓ نے جانوروں پر سواری کی‘ لیکن کیا آج ہم گاڑیوں اور ہوائی جہاز کو جانوروں پر ترجیح نہیں دیتے ؟ 
ایلو پیتھک کے علاوہ دوسری میڈیکل سائنسز میں ، میں نے یہ نوٹ کیا ہے کہ جتنے لوگ بھی ان میں داخلہ لیتے ہیں ، وہ لازماً پاس ہو جاتے ہیں ۔ جب کہ ایلو پیتھک میں ایک بہت بڑی تعداد سخت standardsکی وجہ سے فیل ہو جاتی ہے یا فیل ہو ہو کر پاس کرتی ہے‘ لیکن باقی جگہوں پر اوسط سمجھ بوجھ والا کوئی بھی شخص فیل ہوتے کم از کم میں نے نہیں دیکھا ۔ ہومیو پیتھک میں کچھ دوائیاں بہت اچھی ہیں‘ لیکن وہاں بھی کسی کو سخت standardsکی وجہ سے فیل ہوتے ہوئے‘ میں نے نہیں دیکھا۔ گو کہ میرے خاندان میں بڑے نامی گرامی ہومیو پیتھک ڈاکٹرز گزرے ہیں ۔ 
سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اصلی اور جعلی معالج میں تفریق کیسے کریں ۔ جواب: اگر ایک شخص لا علاج امراض کا علاج کرنے کا دعویٰ کر رہا ہو تو وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ اگر ایک شخص کسی ایک بیماری یا organکا ماہر ہونے کی بجائے تمام بیماریوں کا علاج اکیلے کرنے کا دعویٰ کر رہا ہو ۔ وہ بال گرنے سے لے کر کینسر اور گردے سے لے کر جلد کا علاج اکیلا ہی کر رہا ہے تو وہ نیم حکیم ہے ۔ اگر ایک شخص ظاہری اور روحانی علاج اکھٹا کرنے کا دعویٰ کر رہا ہو تو سمجھ جائیے کہ وہ بھی اپنے فن میں طاق نہیں ‘ جو باقاعدہ تعلیم یافتہ ، Qualifiedمعالج ہوتے ہیں ‘ وہ کبھی بھی روحانی علاج کا دعویٰ نہیں کرتے ۔اگر ایک معالج مسلمان نہیں ‘لیکن اپنے ہنر میں طاق ہے ‘تو وہ آپ کا علاج کر سکتاہے ۔ اس کے برعکس اگر ایک شخص بہت اچھا مسلمان ہے ، حاجی ہے ‘ نمازی ہے لیکن اس نے میڈیکل سائنس نہیں پڑھ رکھی تو وہ آپ کا علاج نہیں کر سکتا ۔ بالکل اسی طرح ، جیسے تیر وہی سکتاہے ‘ جس نے تیراکی سیکھی ہو‘ لہٰذا خود کو نیم حکیموں کے سپرد ہرگز نہ کیجیے ۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved