بہت سارے لوگ اسے سیاسی تقریر کہہ رہے ہیں‘ میں نہیں کہتا۔ میں مانتا ہوں یہ اعترافِ شکست نما اعترافِ جرم ہے۔ وہ بھی مجاز عدالت کے روبرو جس کے سامنے نااہل شریف کے پچھلے سارے دعوے، تقریریں، خطاب، کلیم، وضاحتیں اور صفائیاں استغاثہ نے ریکارڈ کا حصہ بنائے۔ پاکستان کے فوجداری قانون کی دفعہ 342 استغاثے کی شہادت کے بعد ملزم کو موقع دیتی ہے کہ وہ اپنے خلاف پیش ہونے والی گواہیاں جھوٹی ثابت کر دے اور واقعاتِ مقدمہ کے سچے گواہ ڈھونڈے۔ یا پھر مدعی فریق کی نقدی پر شکرانے کا عمرہ ادا کرے اور واپسی بذریعہ دبئی ہو۔ ظاہر ہے دبئی میں قتل کے تفتیشی افسر کی مہمان نوازی میں کون کسر اُٹھا رکھے گا۔ نااہل شریف جیسا ٹرائل ایک برِصغیر تو کیا چہار دانگِ عالم میں کرپشن اور منی لانڈرنگ کے کسی دوسرے ملزم کو نصیب نہ ہوا۔ عام ملزم کے خلاف مقدمے میں صرف دو بار صفائی کا موقع ملتا ہے۔ ایک ٹرائل کے شروع میں فردِ جرم عائد کرتے وقت‘ جہاں ٹرائل کورٹ ملزم کو الزامات‘ ثبوتوں، واقعات اور دستاویزات کی تفصیل بتا کر ایک ہی مختصر سوال پوچھتی ہے ''کیا تم جرم کا اقرار کرتے ہو یا مقدمے کا ٹرائل چلانا چاہتے ہو‘‘۔ ملزم جرم کے ارتکاب سے انکار کرے تو ٹرائل ہو گا‘ ورنہ اقرارِ جرم کرنے پر عدالت اسے سزا سنانے کی پابند ہے۔ صفائی کا دوسرا موقع مدعی، فریق یا استغاثہ کی گواہیاں لکھنے کے بعد آتا ہے۔ تب ملزم کو ریکارڈ پر آنے والے ثبوت بتلا کر پوچھا جاتا ہے: what do you say about this piece of evidence نااہل شریف کے VVIP تاریخی مقدمے میں کمال ہو گیا۔ آئیے ذرا واقعات کی ترتیب دیکھ لیں۔
وقوعہ نمبر1: نااہل شریف کے پہلے غیر سیاسی اور آ ج کل غیر ملکی مفرور بیٹوں، صاحبزادی اور بھتیجوں نے اچانک ٹی وی چینلز پر انٹرویوز کی برسات کر دی۔
وقوعہ نمبر2: شریف گھرانے میں سے ایک نے کہا: مے فیئر فلیٹ کرائے پر ہیں۔ کرایہ پاکستان سے بھیجا جاتا ہے۔ (رپورٹ شدہ ٹِم سبیسچن BBC) دوسرا بولا: الحمدللہ یہ فلیٹ آپ کے خادم کی ملکیت ہیں۔ ایک اور جائیداد بھی والدہ محترمہ کے نام پر میں خود ہولڈ کرتا ہوں۔ بیٹی بولی: بیرونِ ملک تو کیا پاکستان میں بھی میری کوئی جائیداد نہیں۔ والد خرچہ اٹھاتے ہیں۔ نہ ہی میرے خاندان کی کوئی جائیداد باہر ہے۔ بھائی نے جواب دیا: یہ فلیٹس میری ہمشیرہ مریم نواز کے نام پر ہیں۔ چوہدری نثار اور نواز خاندان کیا اخبار والے دفتری نے بھی ان جائیدادوں کو نااہل شریف کی ملکیت قرار دیا۔
نمبر3: اپریل 2016ء میں پانامہ لیکس نے کئی عالمی لیڈروں کے پاجامہ پر ہاتھ دے مارا۔ پاکستان میں نااہل نواز شریف اور شریف خاندان کا نام منظرِ عام پر آیا۔ نااہل نواز کے ایک بیٹے نے لندن میں تارکِ وطن پر برسرِ شاہراہِ عام لفظوں کی گولہ باری کی۔ جب حُب وطن میں سرمست پردیسی نے پوچھا: چوری کے مال والے ثبوت کہاں ہیں‘ تو نااہل نواز کے بیٹے نے اکھڑتی سانسوں کو سنبھالتے ہوئے فرمایا: سارے ثبوت اور رسیدیں موجود ہیں عدالت بلائے گی تو پیش کر دیں گے۔
وقوعہ نمبر4: نااہل نواز کے چکنے چکنے پات والے کاروباری بھتیجے نے بھی اپنی طرف سے شہادت صفائی میں حصہ ڈالا۔ للکار کر کہنے لگا: پانامہ کیس کے ثبوت لے آئو ورنہ ازالہ حیثیتِ عرفی کے لیے تیار ہو جائو۔ غالباًَ اسی انٹرویو پر تایا کی غیرت نے جوش مارا۔ مشاورت کی شَب دیگ پکی۔ لانگری بٹالین نے مرچ مصالحہ ڈالا۔ سرکاری ٹی وی کے ڈریس ماسٹرز، میک آپ آرٹسٹ او بی وین سمیت ٹیم پہنچے۔ ساڑھے تین گھنٹے میں 27 منٹ کی تقریر تیار ہوئی‘ جس کا ٹائیٹل تھا: قوم کے نام خطاب۔ نااہل نواز نے چھاتی پر ہاتھ مار کر کہا: احتساب کے لیے تیار ہوں؛ چنانچہ خود نااہل نواز نے پارلیمانی کمیٹی بنائی اور اعلان کیا 1857ء کی جنگِ آزادی سے شروع کرکے آخری وائسرائے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن تک ٹی او آرز بنائو اور احتساب شروع کیا جائے۔ ظاہر ہے شیطان کی آنت کو ٹی او آرز کا نام دیا گیا۔ سودے بازی‘ خرید و فروخت کی کوشش ہوئی‘ لیکن یہودیوں کے ایجنٹ نے کرپشن بچائو مفاہمت حقارت سے ٹھکرا دی۔ نااہل نواز نے پینترا بدلا اور سپریم کورٹ کو خط لکھ دیا۔ خیال تھا نامہ بر کچھ کر کرا کے پانامہ کو میانی صاحب قبرستان میں دفنا دیں گے۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ چیف جسٹس جمالی کے دور میں یہ تجویز سپریم کورٹ نے باقاعدہ خط کے ذریعے مسترد کر دی۔
نمبر5: اس دوران نااہل نواز پانامہ کیس میں ملکۂ جذبات بن کر سامنے آئے۔ ایک اور تقریر کی اور دوبارہ اقرار کیا: یہ سارا مال خاندانی کاروبار کی کمائی کا ہے‘ جس کے لیے ابا جی نے کمر باندھ کر دبئی میں کاروبار شروع کیا‘ جو قطر سے ہوتے ہوئے عزیزیہ، جدہ، مے فیئر لندن اور پانامہ جا پہنچا۔ یہ خالص محنت کی حلال کمائی ہے‘ جس کا آغاز ابا جی نے ہتھوڑا بردار مزدور کے طور پر کیا تھا۔ اسی دوران سپریم کورٹ میں پانامہ کیس دائر ہو گیا۔
نمبر6 : پانامہ کیس میں نااہل شریف سے ابتدائی سوال یہ تھا کہ کیا وزیرِ اعظم کے طور پر آپ آئین کے آرٹیکل 248 میں حاصل آئینی استثنا لینا چاہیں گے۔ جواب آیا: جی نہیں‘ سپریم کورٹ آف پاکستان کا احترام کرتے ہوئے ہر فیصلہ مانیں گے۔ عدالتِ عظمیٰ میں نااہل نواز نے پہلی مرتبہ اپنے دفاع میں قطری لیٹر نمبر ایک پھر قطری نمبر2 خط پیش کر دیا۔ ساتھ ہی اپنی جائز کمائی کے ثبوت کمر پر لاد کر وزیرِ اعظم نواز شریف پارلیمنٹ کے فلور پر جا کھڑا ہوا۔
وقوعہ نمبر 7: اس وارداتِ مسلسل میں نا اہل شریف نے سرکاری خرچ پر قومی اسمبلی کے ہال میں ڈرامہ رچایا۔ سامنے بستے رکھے ۔اور وزیرِ اعظم کے طور پر قوم کو پیغام دینے کی کوشش کی گئی۔ ثبوت اسمِ با مسمیٰ صادق و امین حضرتِ ایاز صادق کی میز پہ پڑے ہیں۔ تقریر ہم سب کو یاد ہے‘ دہرانے سے کیا حاصل۔ اس کا آخری جملہ یہ تھا۔ حضور یہ ہیں وہ ذرائع اور ثبوت‘ جن کے ذریعے ہم نے لندن مئے فیئر کے اپارٹمنٹس خریدے۔
وقوعہ نمبر8: تین وکیل، چار پانچ موقف تبدیل کرنے کے بعد نااہل نواز کے لیے فیصلے کی گھڑی آ گئی۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے دو فیصلے دئیے۔ پہلے میں وزیرِ اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا۔ دوسر ے فیصلے میں منی ٹرائل اور سورس آف انکم پیش کرنے کے لیے جے آئی ٹی بنا دی۔ اس دن پاکستان کی تاریخ میں مٹھائی کی سب دکانیں سرکار نے خالی کر دیں۔ فیصلہ سن کر سرکاری میڈیا کی درباری ٹیم ہم سے پہلے باہر نکلی اور حکومتی ترجمان نے شریف خاندان کے سُرخرو ہو جانے کا اعلان کیا۔ ایک دوسرے پر لڈو نچھاور ہوئے۔ پلاسٹک کے کھلونے شیر اٹھا کر حکومتی پارٹی کے دفتروں میں لڈیاں اور جپھیاں ڈالی گئیں ۔ میں عدالت سے باہر نکلا۔ اور دو حصوں پر میڈیا ٹاک کی ۔ عرض کیا فیصلہ انگریزی میں ہے۔ لڈوئوں اور لڈیوں والے ترجمہ پڑھ کر روئیں گے ۔ ساتھ ہی پاکستان میں فوری طور پر نئے انتخابات کا مطالبہ کر دیا۔ چند دنوں بعد ملکی تاریخ کی معتبر ترین جے آئی ٹی بن گئی۔ سُرخرو ہونے کے لڈو انگارے بن گئے۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ لڈو نگلنے والی زبانوں سے ابلنے والے شعلے‘ دھواں اور جھاگ ٹی وی سکرینوں پر چھا گیا۔ جو جے آئی ٹی سے باہر نکلتا اُس کے زبان و بیاں سے سن کر ایسے لگتا جیسے سرخ گرم توے سے اُٹھ کر آیا ہو۔ پوٹھوہاری زبان کا آکھان ہے۔ بندے کو کوئی ذلیل نہیں کر سکتا، سوائے اس کے کرتوتوں کے۔ (جاری)