تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     25-05-2018

بھارت سے شاعری کا طوفان!

شمس الرحمن فاروقی کا تعارف کرانا‘ لفظ تعارف کے ساتھ ایک مذاق ہو گا۔ آپ نے تنقید اور فکشن میں تو جھنڈے گاڑے ہی تھے‘ اب وہ اپنی شاعر ی سے ہم پر حملہ آور ہوئے ہیں اور یوں سمجھیے کہ کشتوں کے پشتے لگا دیئے ہیں۔ میری مراد اُن کے کلیات ِنظم سے ہے جو '' مجلس آفاق میں پروانہ ساں‘‘ کے نام سے ایم آر پبلی کیشنز نئی دہلی نے چھاپی ہے اور اس کی قیمت 500 روپے رکھی ہے اور جس میں ان کے مجموعہ کلام: گنج سوختہ، سبز اندر سبز، آسماں محراب اورچار سمت کا دریا شامل ہیں۔ آخری مجموعہ جو رباعیات پر مشتمل ہے، فی الحال ہم اسی میں سے چند دانے پیش کریں گے‘ تا کہ آپ دیکھ سکیں کہ انہوں نے ایک مرتی ہوئی صنف کو کس طرح زندہ و تابندہ کر دیا ہے:
اک رات ہوں جس کو کہ سویرا نہ ملا
اک ناگن ہوں جس کو کہ سپیرا نہ ملا
اک سحر ہوں ساحر ہی جسے بھول گیا
اک شہر ہوں جس کو کہ لٹیرا نہ ملا
.........
سب نقش مٹاتی ہے ہوا رک رک کر
کھلتے ہیں لب سرخ سزا رک رک کر
گہرے پانی کی خاموشی سن لے
اس دشت میں روتی ہے صدا رک رک کر
.........
جنگل تھرا اُٹھا تھا سویا ہے ابھی
سنسان ہوا سے کوئی بولا تھا ابھی
ساکت گمبھیر فرشِ شب کے اوپر 
لمبے قدموں سے کون گزرا تھا ابھی
.........
تجھ مہر سے روشن ہو ئے ہیں ساتوں رنگ
تجھ آنکھ سے برساکیے ہیں ساتوں رنگ
دل چیر کے میرا کبھی دیکھا ہوتا
گھلتا ہے لہو میں بھی مناجاتوں رنگ
.........
خارِ آہن ہوں برگِ زر ہو جائوں
سوکھی کھیتی ہوں چشم تر ہو جائوں
ہلکا سا تیرے پائوں پہ یہ چوٹ کا داغ
میں چھو لوں اس کو تو بسر ہو جائوں
شیطان کسی طرح سے مرتا ہی نہیں
بندے سے نہ مالک سے ڈرتا ہی نہیں
گمنامی و ذلت کے بھی غاروں کے بیچ
دل ایسا جہنم ہے کہ بھرتا ہی نہیں
آخر تیرے ہجراں سے مری پٹ ہی گئی
تو تو ہے یہ بات مجھے رٹ ہی گئی
ہر چند کہ بے شرم تھی حرافۂ شب
بے خوابی میری دیکھ کے کٹ کٹ ہی گئی
کچی گیلی لکڑی جلتی کیسے
بے اصل تھی جب شاخ تو پھلتی کیسے
میں دور ہی دور اس کی راہوں سے رہا
دل پر میرے پائوں رکھ کے چلتی کیسے
.........
ساون کا سبزہ ہی دکھایا ہوتا
ابری نہیں یک رنگ بنایا ہوتا
تو نے تو نمک زار میں بویا مجھ کو
کوڑے کے ہی ڈھیر پر کھلایا ہوتا
.........
دل کے پشتارے میں زاری بھر دے
دنیا کے جو گھائو ہوں کاری بھر دے
جیبیں ہیں میری مال سے خالی یارب
تو اپنے کرم سے ان میں یاری بھر دے
.........
الجھائیں یہ دنیا کے بکھیڑے نہ مجھے
ہے شرط یہی کہ کوئی چھڑے نہ مجھے
چپ چاپ سے گمنام میں رہ جائوں گا
مردہ ہوں گڑا کوئی اکھیڑے نہ مجھے
کوئل جاگی کدھر‘ سنائی بھی تو دے
دن نکلا ہے کہاں دکھائی بھی تو دے
دل خاک کی قمر ی تو بنا دی پھر سے
قمری کو طوق خوشنمائی بھی تو دے
.........
انکار کو کہتے نہیں اصلا اخلاص
باغی کی شکایت میں ہے سچا اخلاص
اپنا ہی سمجھ کر تو میں روٹھا تجھ سے
کیوں تجھ سے جھگڑا کرتاجو نہ ہوتا اخلاص
.........
کیا لطف جو شاعر کو ہم کہہ دیں بھانڈ
کیا لطف جو مُلاّ کو کہیں ہم کہ ہے سانڈ
یاں عیب بھی کرنے کو ہنر ہے درکار
کیا لطف جو رنڈی کو کہا جائے رانڈ
.........
گستاخ نوائی ہے مگر رکھیے معاف
بے لاگ لپٹ بات میں کہتا ہوں صاف
دراصل دباتا ہے ہمیں جھک جھک کر
پیری کے بہانے سے فلک ناانصاف

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved