تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     25-05-2018

آزمائش میں نوازشریف کیا کریں؟

میاں محمد نوازشریف صاحب‘ ایک عرصہ سے آزمائش میں ہیں۔ ان کی بیٹی محترمہ مریم نواز ان کے ساتھ کھڑی ہیں۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ میاں صاحب نے ان کو اپنے ساتھ کھڑا کر رکھا ہے۔ میاں صاحب کے بعض ہمدردوں کا کہنا یہ بھی ہے کہ میاں صاحب کی آزمائش کا بنیادی سبب محترمہ مریم نواز ہیں۔ باپ بیٹی کی رہنمائی کے لئے میں ایک ایسی ہستی کا کردار پیش کرنے جا رہا ہوں‘ جو ایک خاتون ہیں۔ ان کا اسمِ گرامی حفصہ ؓ ہے۔ حضرت محمد ؐکی زوجہ محترمہ ہیں۔ حضرت عمرؓ کی بیٹی ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی بہن ہیں اور ہم مسلمانوں کی روحانی ماں ہیں۔
حضرت محمد بن اسماعیل بخاری ؒ اپنی ''صحیح بخاری‘‘ میں ایک واقعہ لائے ہیں‘ جو حضرت حفصہؓ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور حضرت معاویہؓ سے متعلق ہے۔ سلیس انداز میں وضاحت کے ساتھ واقعہ یوں ہے کہ خلافت سے حضرت حسنؓ کی دست برداری کے بعد حضرت معاویہؓ مسلمانوں کے متفقہ حکمران بن گئے۔ انہوں نے مناصب تقسیم کئے۔ گورنریاں، وزارتیں وغیرہ تقسیم کیں اور پھر بیعت کے لئے لوگوں کو بلایا۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو بھی بلایا گیا۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ مکی زندگی میں جب لڑکپن میں تھے‘ تو اپنے ابا جان حضرت عمرؓ کے ہمراہ حضورؐ کے مبارک ہاتھ پر مسلمان ہوئے تھے۔ حضورؐنے عبداللہ بن عمرؓ کو ''نیک انسان‘‘ بھی قرار دیا تھا۔ آپؓ سنت کے شیدائی اور ممتاز عالمِ دین تھے۔ آپؓ نے اپنی بہن حضرت حفصہؓ سے مشورہ کرتے ہوئے لوگوں کا شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ عوام نے جو کچھ کیا‘ وہ تو آپ دیکھ ہی رہی ہیں۔ بات یہ ہے کہ حکمرانی میں بھی میرا کوئی حصہ نہیں رکھا گیا‘ لہٰذا میں معاویہؓ کی مجلس میں کیسے جائوں اور کیوں جائوں؟ حضرت حفصہؓ نے کہا: آپ ضرور جائیں، وہ سارے لوگ آپ کی آمد کا انتظار کر رہے ہیں۔ مجھے ڈر اس بات کا ہے کہ اگر آپ نہ گئے‘ تو اختلاف پیدا ہو گا۔ حضرت حفصہؓ متواتر اصرار فرماتی رہیں‘ آخر کار حضرت عبداللہ بن عمرؓ چل پڑے اور حضرت معاویہؓ کی میٹنگ میں شریک ہو گئے۔ بیعت یعنی باقاعدہ رسمی طور پر حکمران بن کر حضرت معاویہؓ نے خطبہ دیا اور یہ بات بھی کر دی کہ اس (خلافت کے) موضوع پر جس نے کوئی بات کرنی ہے‘ وہ اپنا سر اٹھائے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اس سے اور اس کے باپ سے زیادہ حقدار ہیں۔ حضرت حبیب بن مسلمہؓ جو خود صحابی ہیں۔ انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مذکورہ واقعہ سنا تو انہیں کہا: آپ نے معاویہ کی بات کا جواب کیوں نہ دیا۔ اس پر حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے کہا: میں اپنی چادر کو کمر اور گھٹنوں کے گرد گرہ ڈال کر بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے گرہ کھولنے کا ارادہ کر لیا تھا اور جواب دینے کا عزم کر لیا تھا۔ بات کرنے لگا تھا کہ اے معاویہ! تم سے خلافت کا زیادہ حقدار وہ شخص ہے‘ جس (عبداللہ بن عمرؓ) نے تم سے اور تمہارے باپ (ابوسفیان) سے اسلام کی سربلندی کے لئے (احد اور خندق) میں جنگ لڑی تھی ‘لیکن پھر میں اس خطرے کی وجہ سے خاموش ہو گیا کہ میری بات سے کہیں مسلمانوں میں انتشار اور خونریزی نہ ہو جائے اور تبصرے، تجزیے کرتے ہوئے‘ میری طرف ایسی باتیں بھی منسوب ہو جائیں‘ جو میں نے نہ کہیں ہوں اور یوں فتنہ بڑھتا چلا جائے چنانچہ میں نے وہ وہ نعمتیں یاد کرنا شروع کر دیں‘ جو اللہ تعالیٰ نے جنتوں میں تیار کر رکھی ہیں۔ جناب حبیب ؓنے کہا،:آپ نے اچھا کیا کہ فتنوں سے بچ گئے اور محفوظ ہو گئے۔ (بخاری:4108)۔
جناب محترم میاں صاحب! بخاری کی مذکورہ روایت سے ثابت ہوا کہ آزمائش یا فتنے سے محفوظ رہنے کے لئے تین چیزوں کی ضرورت ہے۔(1)اچھے مشیر کی ضرورت ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی خوش قسمتی یہ تھی کہ انہیں اپنی بہن کی صورت میں بہترین مشیر مل گئیں۔ (2)ایک مسلمان کے اندر بہرحال یہ جذبہ ہمہ وقت بیدار رہنا چاہئے کہ اس کے کسی قول و عمل سے مسلمانوں کے درمیان فتنہ و فساد پیدا نہ ہو اور امت کو نقصان نہ ہو۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ میں مذکورہ جذبہ اپنے کمال پر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی مذکورہ مثبت سوچ کی وجہ سے حق بات کرنے سے رک گئے۔ حق بات کا تعلق ان کی اپنی ذات سے تھا، لہٰذا انہوں نے اپنی ذات کو پیچھے کر دیا اور امت کے مفاد کو آگے کر دیا۔ یہ عظمت ہے اور عزیمت ہے‘ جس کے علمبردار حضرت عبداللہ بن عمرؓ تھے۔ (3)دنیا اور اس کے کسی ایک چھوٹے سے حصے کا جزوی اقتدار جنتوں کی نعمتوں کے مقابل میں ذرہ برابر بھی نہیں ۔ ہماری دنیا جو سات براعظموں پر مشتمل ہے، حضور نبی کریمؐ نے فرمایا کہ یہ ساری دنیا اور ا سکی دولت و حکمرانی جنت کے مقابل ایسے ہے‘ جیسے انسان سمندر میں انگلی ڈبو کر نکال لے۔ انگلی سے لگنے والا پانی دنیا ہے اور سمندر آخرت کی دولت ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے جنت کا اقتدار اور نعمت سامنے رکھ لی کہ ادنیٰ ترین جنتی کو موجودہ دنیا کے رقبے سے دس گنا بڑے رقبے والی جنت ملے گی۔ جی ہاں! حضورؐ کے صحابی کو کیا ملے گا اور کتنا ملے گا، تصور سے باہر ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی مذکورہ سوچ کو سامنے رکھ لیا جائے‘ تو میاں صاحب محترم کی نظر میں دنیا حقیر ہو جائے گی۔ یہ ہے وہ تیسری اور آخری سوچ اور نظریہ کہ جس سے ایک انسان فتنے اور آزمائش سے بچ جاتا ہے۔
محترم میاں نوازشریف صاحب سے میں گزارش کروں گا کہ مذکورہ تین نکات کو سامنے رکھیں اور اپنی روحانی ماں حضرت حفصہؓ کا طرزِ عمل اپنی سیاست بنا لیں۔ یاد رہے‘ حضرت عبداللہ بن عمرؓ جب اپنی بہن کے گھر گئے تھے ‘تو حضرت حفصہؓ غسل فرما کر گھرکے صحن میں آئی ہی تھیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ آ گئے۔ بخاری کے الفاظ ہیں کہ اماں جان محترمہ کے سر مبارک سے پانی کے قطرے گر رہے تھے جب وہ اپنے بھائی کو نصیحت کر رہی تھیں کہ وہ فوراً مسلمانوں کی مجلس میں جائیں۔ مبادا اُن کے نہ جانے سے امت میں انتشار نہ پھیل جائے‘ یعنی حضرت حفصہؓ نے امت کے مفاد کو اس قدر سامنے رکھا کہ انہوں نے اتنا بھی گوارا نہ کیا کہ اپنے بال خشک کر لیں‘ پھر بھائی کو سمجھائیں۔ اللہ‘ اللہ! مسلمانوں کے اتحاد، یگانگت اور ان کے مفاد کا معاملہ اس قدر اہم ہے کہ ام المومنینؓ نے چند منٹ تاخیر کو بھی امت کے مفاد کے منافی سمجھا اور گیلے سر اپنے بھائی کو سمجھاتی چلی گئیں کہ تم فوراً جائو۔ الغرض! بھائی کو بھیج دیا اور پھر اپنی خبرگیری فرمائی۔ صدقے قربان ایسی اماں جان کے کردار پر، کیوں نہ مذکورہ کردار ہوتا کہ امت کی ماں ہیں‘ اپنا مقام ان کے سامنے تھا کہ وہ حضورؐکی زوجہ محترمہ ہیں۔ حضرت عمرؓ کی بیٹی ہیں، وہ عمرؓکہ جن کو دعائیں مانگ کر اللہ کے رسولؐ نے لیا تھا‘ پھر ان کی وجہ سے اسلام مضبوط ہوا۔ 
محترم میاں صاحب آپ بھی یہی کیجئے، آپ کا کوئی بیان ایسا نہیں ہونا چاہئے‘ جس سے آپ کا ملک، آپ کی فوج اور آپ کی قوم خطرے سے دوچار ہو جبکہ پاکستان کا دشمن ملک انڈیا فائدے حاصل کرے۔ اسے ہمارے خلاف پراپیگنڈا کا موقع مل سکے۔ آپ کی عمر ستر سال کے قریب پہنچنے کو ہے۔ حضورؐ نے فرمایا ہے کہ میری امت کی اوسط عمر ساٹھ اور ستر کے درمیان ہے۔ ستر کو تجاوز کوئی کم ہی کرے گا۔ آپ اپنا وقت اپنی رفیقہ حیات کو دیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو صحت عطا فرمائے۔ اپنی یادوں پر مبنی کتاب لکھیں۔ آپ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ کے واحد حکمران ہیں‘ جنہوں نے سب سے زیادہ عرصہ حکمرانی کی ہے۔ اپنے تجربات قوم کے ساتھ شیئر کریں۔ میاں شہباز شریف کو پرواز کرنے دیں۔ ان کو آزاد چھوڑیں، زیادہ وقت مکہ اور مدینہ میں گزاریں۔ مہاتیر محمد جن کا صحیح نام محاضر محمد ہے‘ وہ دوبارہ 92سال کی عمر میں برسراقتدار آ گئے ہیں۔ اقتدار ان کی چاہت نہ تھی‘ مگر ان کا جانشین ایسا نکلا کہ اس کے گھر سے سونے اور ڈالروں کے صندوق نکلے۔ محاضر محمد اور طیب رجب اردگان کی طرح حکمرانی کا انداز اپنانے کی تلقین‘ میاں شہباز شریف صاحب کو کریں۔ اس سے امید ہے‘ شاید آپ آزمائش سے نکل جائیں ۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved