پاکستان تحریک انصاف نے ایک جلسہ30 اکتوبر2011ء کو کیا تھا اور ایک جلسہ 23 مارچ 2013ء کو کر ڈالا… پہلے جلسے سے پہلے تو کسی کو یقین نہیں تھا کہ اتنے افراد اکٹھے ہو جائیں گے، جنہیں لاکھوں قرار دیا جا سکے۔ مخالف تو کیا، حامی بھی اسے خوش فہمی قرار دیتے تھے، لیکن عمران کو پختہ یقین تھا کہ جب مینار پاکستان کے سائے میں اجتماع کا اعلان کیا تو لوگ جوق در جوق وہاں آئیں گے اور بہت سے ریکارڈ توڑ ڈالیں گے۔ اس جلسے سے کوئی دو، تین ماہ پہلے انہوں نے لاہوری میڈیا کے سینئر افراد سے عشائیے پر ملاقات کی تو عوام سے اپنے تعلق کے بارے میں مضبوط لہجے سے بات کرتے رہے۔ وہ اس بات پر ڈٹے ہوئے تھے کہ ان کا پیغام گھر گھر پہنچ چکا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے ان کی آواز دور و نزدیک سنی جا رہی ہے اور وہ دلوں میں تبدیلی کی آگ لگا چکے ہیں۔ ان کے کئی سامعین ان کے وعدوں پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ وہ کنکھیوں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرا رہے تھے، لیکن آداب مہمانی زبانوں کو کھلنے سے روکے ہوئے تھے۔ احتیاط سے جو کچھ کہا جا سکتا تھا، وہ کہا جا رہا تھا۔ عمران میری طرف متوجہ ہوئے تو مَیں نے کہا کہ جس دن آپ لاہور میں ایک لاکھ افراد کو اکٹھا کر لیں گے، آپ کی سیاست کا رُخ بدل جائے گا۔ لاہور محض ایک شہر نہیں ہے جو ہوا یہاں سے چلتی ہے، وہ دور تک پہنچتی ہے اور طاقت کا جو مظاہرہ یہاں کے اکھاڑوں میں کیا جاتا ہے، اس کی دھمک پورے پاکستان میں سنی جاتی ہے۔ عمران اس وقت کئی اضلاع میں قابلِ ذکر جلسوں سے خطاب کر چکے تھے۔ انہوں نے قطعیت کے ساتھ کہا کہ عنقریب ہم لاہور میں جلسہ کریں گے اور اس میں ایک لاکھ سے کم لوگ نہیں ہوں گے…مَیں نے بالوضاحت کہا کہ ایسا ہوگا تو پھر نگاہیں آپ پر ہوں گی۔ پاکستانی سیاست میں ایک نئے باب کا اضافہ ہو جائے گا۔ ایک لاکھ کے ہندسے سے میری دلچسپی یوں ہے کہ جب کوئی جلسہ اس کے قریب پہنچ جائے تو پھر تعداد کے بارے میں کوئی بھی دعویٰ کیا جاسکتا ہے۔ ہر جماعت کے حامی حسبِ توفیق مبالغہ کرنے کا استحقاق حاصل کر لیتے ہیں۔ اب یہ بات دُہرانے کی ضرورت نہیں کہ 30 اکتوبر2011ء کو جلسہ ہوا اور اس نے حاضری کے ریکارڈ توڑ دئیے۔ بے نظیر بھٹو 1986ء میں پاکستان آئی تھیں تو پہلا قدم لاہور کی سرزمین پر رکھا تھا۔ یہاں ان کا تاریخی استقبال ہوا۔ ملک بھر سے ان کے جانثار جمع ہوئے، انہیں جلوس کی صورت مینار پاکستان لے گئے اور یہاں انہوں نے ایک بے حد بڑے اجتماع سے خطاب کیا۔ عمران کا جلسہ اس کے مقابلے میں کھڑا تھا۔ دونوں کے حامی اپنی اپنی خواہش کے مطابق ہندسے بنانے میں آزاد تھے (اور ہیں)۔ 31 اکتوبر2011ء کا سورج ایک نئے عمران کے ساتھ طلوع ہُوا۔ ٹی وی کوریج کے اعتبار سے ان کو شیخ رشید کے ہم پلہ سمجھنے والے سر پکڑ کر بیٹھے تھے کہ ایں چیزے دیگر است… عمران مرجعِ خلائق ہوگئے۔ ان کو ’’جائن‘‘ کرنے والوں کی قطاریں لگ گئیں۔ پیپلز پارٹی تو اپنے حال میں مست رہی، لیکن مسلم لیگ (ن) کے لئے یہ سب ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہوا۔ شیر جنگل کا بادشاہ تو ہوتا ہے، لیکن اس کی آنیاں جانیاں زیادہ نہیں ہوتیں۔ کوئی چیلنج درپیش نہ ہو تو وہ تخت سے پاؤں نیچے نہیں رکھتا۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما ہڑ بڑا کر اٹھے اور نئے سازو سامان کے ساتھ میدان میں اتر آئے۔ اپنی صفیں درست کیں۔ اپنے سپاہیوں سے ربط بڑھایا اور دروازے بھی چوپٹ کھول دئیے۔ تعمیر و ترقی کے منصوبے نہ صرف بنائے گئے، بلکہ سرے بھی چڑھائے گئے۔ نوجوانوں کے لئے لیپ ٹاپ آگئے تو لاہوریوں کے لئے میٹرو بس کا منصوبہ بن گیا۔ تحریک انصاف کی آندھی نے آنکھوں میں ریزے تو ڈال دئیے، لیکن مسلم لیگ (ن) کے خیمے جمے رہے، ان کی تزئین و آرائش نے انہیں ایک نیا پن بھی دے دیا۔ تحریک انصاف کے برآمدے میں ہر طرح اور ہر قماش کے لوگ آتے چلے گئے۔ چند ہزار کیا، چند سو لوگوں کی نشست گاہ میں ہجوم بڑھا، تو ہر شے درہم برہم ہوگئی۔ آنے والوں کو کیا، اپنے آپ کو سنبھالنا مشکل ہوگیا۔ عمران خان نے جو بے کنار ہجوم اور بے کنار خواہشات کی یلغار دیکھی تو اعلان کر دیا کہ ہر سطح پر پارٹی میں انتخابات ہوں گے اور باقاعدہ ووٹ حاصل کرنے والے ہی عہدہ حاصل کر پائیں گے۔ بگل بج گیا اور آنے والے اس میں اُلجھ گئے۔ عمران خان سُکھ کا سانس لیتے رہے، لیکن بہت سوں کے لئے سانس لینا دوبھر ہوگیا۔ تحریک انصاف نے گزشتہ ڈیڑھ سال اپنی توانائی کو اپنی صف بندی پر خرچ کر ڈالا… دھڑے بنے، نعرے لگے، ہنگامے ہوئے، پنجابی محاورے کے مطابق ایک دوسرے کو ٹھبیاں ماری گئیں، لیکن بالآخر عمران خان ایک ایسی پارٹی کی تخلیق میں کامیاب ہوگئے، جس میں کوئی نامزدگی نہیں ہوتی۔ تحریک انصاف کے دعوے کے مطابق پورے ملک میں اسی ہزار افراد منتخب ہو کر ہر سطح پر پارٹی کی ذمہ داریاں سنبھال چکے ہیں۔ گھاگ سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ عمران نے پارٹی تو بنا لی ہے، لیکن عام انتخابات کی قیمت پر کہ جو وقت امیدواروں کی تلاش اور انتخابی مہم کی منصوبہ بندی پر صرف ہونا چاہئے تھا، وہ اب ہاتھ نہیں آنے کا۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ دھڑے بندی جنم لے لے تو بندی ہر وقت خطرے میں رہتی ہے اور دھڑ کے بارے میں بھی کچھ وثوق سے نہیں کہا جاسکتا۔ بہرحال جو ہو سوہو، عمران نے اپنے اَن گنت کارکن 23 مارچ 2013ء کو مینار پاکستان کے سائے میں اکٹھے کر کے دکھا دئیے ہیں اور اپنی سیاست کو ایک نئے جذبے سے سرشار کر دیا ہے۔ یہ جلسہ 30 اکتوبر کے جلسے سے بڑا ہی ہوگا، لیکن جلسہ کتنا بھی بڑا ہو، یہ سیاست کا پہلا، دوسرا، تیسرا، چوتھا، پانچواں قدم تو کہا جاسکتا ہے، آخری نہیں۔ (یہ کالم روزنامہ ’’دنیا‘‘ اور روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved