تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     27-05-2018

وزیراعظم ہائوس کے غیرمتعلقہ مکین

محترم میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم صفدر آئین اور قانون کی پاسداری کے دعوے اور آئین سے انحراف کرنے والوں کے خلاف غداری کے مقدمات درج کرنے کے وعظ بڑے زور و شور سے کر رہے ہیں۔ اگر آئین سے انحراف پر ہر ایک کا مواخذہ کرنے میں کوئی سنجیدگی دکھانا چاہتا ہے تو پھر پوچھا جا سکتا ہے کہ پاکستان کا وہ کون سا قانون ہے جس کے تحت وزیر اعظم پاکستان کی عدم موجو دگی میں کوئی اجنبی فرد وزیر اعظم ہائوس کا انچارج بن بیٹھے؟ یہ کوئی معمولی فرد جرم نہیں‘ اس کا تعلق ملک کی سلامتی اور بقا سے ہے۔ اگر یاد رہ گیا ہو توگزرے کل میں اسی طرح کا معاملہ بڑی شدت اور تواتر سے اخبارات کی زینت اس وقت بنتا رہا جب آصف علی زرداری ایک شوہر اور باپ کی حیثیت سے محترمہ بے نظیربھٹو کے ساتھ وزیر اعظم ہائوس میں رہ رہے تھے‘ اور ملکی سلامتی کے حوالے سے ان کی وہاں موجو دگی پر اعتراض کرتے ہوئے کسی اور نے نہیں بلکہ خود میاں نواز شریف اور شہباز شریف نے سوالات اٹھائے تھے۔ پھر دہراتا ہوں کہ جب وزیر اعظم نواز شریف اپنے طبی معائنے اور ''ہارٹ سرجری ‘‘کیلئے چالیس سے زائد دنوں تک لندن کے ایک ہسپتال میں داخل تھے تو ایسے وقت میں کوئی اجنبی مرد یا عورت وزیر اعظم ہائوس کا کنٹرول کس طرح سنبھال سکتا ہے؟ اس وقت مریم صفدر‘ جن کا ملک کی کسی بھی سرکاری حیثیت کا رتبہ نہیں تھا اور جنہوں نے ملکی رازوں کی حفاظت کا کسی قسم کا بھی حلف نہیں اٹھایا تھا‘کس قانون اور کس آئین کے تحت وزیر اعظم ہائوس کے کاغذات اور اختیارات استعمال کر رہی تھیں؟ یہ معاملہ آج نہیںتو کل ملک کی عدالتوں میں ضرور آئے گا۔پاکستان کی تمام خفیہ ایجنسیاں وزیر اعظم ہائوس میں ٹاپ سیکرٹ DSRاور سمریاں بھیجتی ہیں۔ دنیا کی کون سی کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ وزیر اعظم کے خاندان کے افرادکو ملکی رازوں تک بھی رسائی ہو گی؟سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف یا میاں شہباز شریف کو آصف علی زرداری کو وزیر اعظم ہائوس سے نکالنے کے اعلانات اور بیانات تو یاد ہوں گے۔ یاد کریں کہ شریف برادران اس وقت کیا کچھ شور مچاتے رہتے تھے۔ 1988 ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو انتخابات جیت کر جب پہلی بار پاکستان کی وزیر اعظم منتخب ہوئیں اور ان کے شوہر آصف علی زرداری ان کے ساتھ ہی وزیر اعظم ہائوس میں مقیم ہوئے تو ہر جانب ایک طوفان اٹھا دیا گیا تھا کہ یہ اجنبی اور غیر متعلقہ شخص وزیر اعظم ہائوس میں کیا کر رہا ہے؟ جناب زرداری کے وزیر اعظم ہائوس میں اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ رہنے پر ملکی عدالتوںمیں باقاعدہ درخواستیں دائر کی گئیں کہ آصف علی زرداری نامی شخص کو وزیر اعظم ہائوس سے نکالا جائے کیونکہ اس کے پاس کوئی قومی ذمہ داری نہیں‘ اس نے ملکی سلامتی کے بارے میں حلف بھی نہیں اٹھایا اس لئے اسے فوری طور پر وزیر اعظم ہائوس خالی کرنے کا حکم جا ری کیا جائے۔علاوہ ازیں وزیر اعظم ہائوس میں ملکی اور غیر ملکی حکام سے خفیہ اور اہم امور پر ملاقاتیں کی جاتی ہیں۔ بہت سے ایسے لوگ وزیر اعظم ہائوس میں بلائے جاتے ہیں جن کے بارے میں کسی کواطلاع نہیں دی جاسکتی بلکہ اس طرح کی شخصیات کی آمد کو سب سے خفیہ رکھا جاتا ہے‘ ایک ایسا شخص‘ جو وزیر اعظم کا شوہر ہے‘ جسے وزیراعظم کے ہر کمرے تک رسائی ہے وہ یا اس کے دوست اس قسم کے ملکی راز وں تک پہنچ سکتے ہیں۔خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ اس لیے انہیں وزیراعظم ہائوس سے باہر نکالا جانا چاہیے۔
محترمہ مریم صفدر خیر سے شادی شدہ ہیں۔ ان کے شوہر کا اپنا گھر ہے‘ وہ خود کفیل ہیں۔ اگر آصف علی زرداری وزیر اعظم کے شوہر ہونے کی حیثیت سے وزیر اعظم ہائوس میں ٹھہرنے کے مجاز نہیں تھے تو پھر کوئی اور وزیر اعظم ہائوس میں مستقل طور پر ٹھہرنے کا کس طرح حق دار ٹھہرایا جا سکتا تھا؟۔کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ محترمہ مریم صفدر وزیر اعظم ہائوس میں چار وزرا سمیت بہت سے قومی اداروں‘ جن میں ملک کی سب سے بڑی خفیہ سول ایجنسی بھی شامل ہے‘ کے عہدیداروں کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ان سے ملنے والی معلومات کی روشنی میں اپنے مطلب کے ملکی معاملات اور اپنے سیا سی مخالفین کے بارے میں ہدایات جا ری کرتی ر ہیں۔کیا یہ سب کچھ کس قانون اور آئین کے تحت کیا جا تا رہا؟۔ اگر وزیر اعظم کے شوہر کی حیثیت سے ساتھ رہنے پر شریف برادران کی نظروں میں آصف علی زرداری سکیورٹی رسک تھے تو وزیر اعظم کی شادی شدہ بیٹی محترمہ مریم صفدر وزیر اعظم ہائوس میں رہتے ہوئے اس ملک کیلئے سکیورٹی رسک کیوں نہیں ہو سکتی تھیں؟۔
جب تک میاں نواز شریف وزیر اعظم رہے‘ اس دوران اگر محترمہ مریم صفدر کے ٹوئٹس دیکھیں تو ایسے لگتا تھا کہ ملک کی اصل حکمران وہی ہیں۔ ملکی پالیسیوں کے بارے میں وہی بیانات جاری کرتی دکھائی دیتی رہیں اور غیر ملکی وفود اور سفارتی نمائندے ان سے ملاقاتیں کرتے دکھائی دیتے رہے ۔۔۔کیاا س ملک کا کوئی قانون نہیں؟ اگر محترمہ مریم صفدر نے ملکی سیا ست میں کھل کر حصہ لینا تھا تو پھر ان کیلئے اسلام آباد میں مسلم لیگ ہائوس یا ماڈل ٹائون سب سے بہتر جگہ تھی‘ جہاں وہ اپنی پارٹی اور اس کے وزراء کو پارٹی پالیسی کے مطا بق گائیڈ لائن جاری کر سکتی تھیں ۔ بات یہیں ختم نہیںہوتی بلکہ وزرا اور اہم ترین وزارتوں کے سیکرٹری صاحبان انہیں روزانہ رپورٹ کرتے رہے بلکہ سب سے تشویشناک بات یہ ہوئی کہ ملک کی سب سے بڑی سول خفیہ ایجنسی کے اہم ترین افراد انہیں دن میں دو بار باقاعدہ بریفنگ دیتے دکھائی دیتے رہے اور ان سے ہدایات لینے کے بعد ان کے احکامات کی تکمیل بھی کرتے رہے۔اس میں کچھ صحافیوں اور میڈیا کے قابو میںنہ آنے والے لوگوں کو مال و دولت کا لالچ بھی تھا۔ جناب وزیر اعظم (اب سابق)کی صاحبزادی کی حیثیت سے محترمہ مریم صفدر ہم سب کیلئے قابلِ احترام ہیں۔ ان کا اپنے والد کے پاس آنا جانا کسی صورت بھی قابل اعتراض نہیں تھا لیکن مستقل قیام اور وفاقی وزراء اور سیکرٹریوں کے علا وہ خفیہ ایجنسیوں کے اجلاسوں کی صدارت سمجھ سے با ہر رہی اور ایسا دنیا کے کسی بھی ملک میں نہ تو تصور کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی ایسا ہو سکتا ہے۔محترمہ مریم صفدر کی زیر صدارت وزراء اور ملکی سربراہوں کے بلائے گئے اجلاسوں کی صدارت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ اس کی تصاویر بڑے دھڑلّے سے وزیر اعظم ہائوس سے میڈیا کو بھی جا ری کی جا تی رہیں۔ان اجلاسوں کی اندرونی کہانیاں بھی عجیب ہیں جن کے بارے میں میڈیا تک پہنچنے والی اطلاعات کے مطابق کچھ وزراء اور وزارتوں کے سیکرٹریوں کو مریم صفدر جھاڑ بھی پلاتی رہیں ۔!
1988 ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو انتخابات جیت کر جب پہلی بار پاکستان کی وزیر اعظم منتخب ہوئیں اور ان کے شوہر آصف علی زرداری ان کے ساتھ ہی وزیر اعظم ہائوس میں مقیم ہوئے تو ہر جانب ایک طوفان اٹھا دیا گیا تھا کہ یہ اجنبی اور غیر متعلقہ شخص وزیر اعظم ہائوس میں کیا کر رہا ہے؟ جناب زرداری کے وزیر اعظم ہائوس میں اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ رہنے پر ملکی عدالتوںمیں باقاعدہ درخواستیں دائر کی گئیں کہ آصف علی زرداری نامی شخص کو وزیر اعظم ہائوس سے نکالا جائے کیونکہ اس کے پاس کوئی قومی ذمہ داری نہیں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved