قائدِ اعظم ثانی میاں محمد نواز شریف اور جنرل اسد درانی کے ارشادات و اعمال کو شاید ایک اور تناظر میں بھی دیکھنا چاہیے۔
اس شدت سے کچھ خیال رواج پا جاتے ہیں کہ فیشن کی طرح، ان کی پیروی کی جاتی ہے۔ تردید اور مخالفت تو کیا، ان سے انحراف کا نتیجہ بھی خطرناک ہوتا ہے۔ نکّو بن کے آدمی رہ جاتا ہے۔ گویا کہ ذہنی طور پہ پسماندہ۔ ساری دنیا میں لوگ فیشن کے دلدادہ اور پیروکار ہوتے ہیں۔ 1970ء کے عشرے میں دو تین کروڑ پاکستانی سوشلسٹ ہو گئے تھے۔ دنیا میں سوشلزم کا تجربہ ناکام ہو چکا تھا۔ سوشلسٹ معاشروں کی پیداواری صلاحیت کم تھی۔ اتنی کم کہ المناک بلکہ شرمناک۔ کیا کبھی کسی کو شرم آئی؟ سوشلزم کے متاثرین میں سے کتنے تھے، نظرثانی کی ضرورت جنہوں نے محسوس کی ہو۔ اگر محسوس کی تو دل و دماغ سے اس خیال کو جھٹک نہ دیا ہو۔ سوشلسٹ دانشور اور سیاسی کارکن، افغانستان میں سوویت یونین کی ناکامی اور شکست و ریخت کے بعد امریکہ بہادر پہ ایمان لے آئے۔ لبرل کہلانے لگے اور اب خم ٹھونک کر پاکستان میں امریکہ اور بھارت کا مقدمہ لڑتے ہیں۔ وہی لوگ جو کبھی امریکہ کے سب سے بڑے نظریاتی حریف تھے، اب اس کے تنخواہ دار ہیں۔ ان میں سے بیشتر نے عقیدے کی تبدیلی کا اعلان تک نہ کیا۔ شرمندگی کا تو سوال ہی نہیں۔ ایک بہت چھوٹی تعداد ایسی تھی، جس نے غلطی مانی اور توازن کی راہ اختیار کرنے کی کوشش کی۔ متوازی طور پر اسلامی تحریکوں کو دیکھیے۔ مثال کے طور پر مشرقِ وسطیٰ کی اخوان المسلمون اور پاکستان کی جماعتِ اسلامی۔ انڈونیشیا، ملائیشیا اور دوسرے اسلامی ملکوں میں بھی ایسی ہی تحریکیں اٹھیں۔ ایران میں امام خمینی، افغانستان میں گلبدین حکمت یار کی حزبِ اسلامی اور برہان الدین ربانی کی جمعیتِ اسلامی۔ چھبیس برس کی خانہ جنگی میں دس لاکھ سے زیادہ افغان شہری قتل ہو چکے۔ سوویت یونین اور انکل سام یقینی طور پر اس کے ذمہ دار ہیں‘ لیکن اسلام کے نام پر اقتدار کی جنگیں لڑنے والے؟ ایران میں ملّا کی حکومت ہے، ایسی آہنی گرفت جو ماضی قریب کے سوشلسٹ ملکوں میں ہوا کرتی۔ مصر میں عرب ممالک نے اسرائیل اور امریکہ کا ساتھ دیا لیکن خود اخوان سے بھی پہاڑ ایسی غلطیاں سرزد ہوئیں۔ پاکستان میں تحریکِ اسلامی کے قافلہ سالار سید ابوالاعلیٰ مودودی تھے، نوبت سید منور حسن تک پہنچی اور اب مولانا فضل الرحمٰن کے ہم نفس سینیٹر سراج الحق ہیں۔ ان کی ذاتی دیانت کو کتنا ہی خراجِ تحسین پیش کیا جائے لیکن اس کا ثمر کیا ہے۔ اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے: ہر انسان اپنے اعمال کے بدلے گروی ہے۔ (سورۃ المدثر)
1981ء میں فی کس اوسط آمدن پاکستان میں 380‘ بھارت میں 280 اور چین میں 180 ڈالر تھی۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ اس خطۂ ارض میں چین غریب ترین ملک تھا۔ مائوزے تنگ اور چو این لائی کی وراثت تحلیل ہو رہی تھی لیکن ابھی ہوئی نہ تھی۔ ان دنوں دارالحکومت میں ایک ایسے ادارے سے ناچیز وابستہ رہا، چینیوں کی جہاں آمدورفت رہا کرتی۔ ضیافت کے لیے کبھی سفارت خانے جانا ہوتا تو ایسا اہتمام کہ باید و شاید۔ ایسے ایسے لذیذ کھانے کہ کبھی دیکھے نہ سنے تھے۔ سفارت خانے کے عام افسروں کی حالت پہ تر س آتا۔ بجھے ہوئے چہرے، ایک جیسے بوسیدہ لباس۔ سرکاری طور پر وہ پابند تھے کہ نیلے رنگ کی ان وردیوں کے سوا کوئی لبادہ وہ پہن نہ سکتے۔ ستمبر1976ء میں مائوزے تنگ کی وفات کے بعد تبدیلی کا جو عمل شروع ہوا‘ ہم پاکستانی اس سے بے خبر تھے۔ یہ تو بعد کے برسوں میں کھلا کہ ایٹم بم ضرور بنا لیا تھا، میزائل بھی۔ مائو کے مہ و سال میں مگر چین بھوک کا گھر تھا۔ ان برسوں میں، جب سوشلزم فیشن کا حصہ تھا، چین اور روس کے بارے میں بالکل آشکار حقائق کا اظہار بھی شاذ ہی کبھی ہوتا، سرگوشیوں میں، النادر کالمعدوم۔ اب تو خیر یہ قصۂ پارینہ ہے۔
27 دسمبر 1979ء کو افغانستان میں سوویت مداخلت کے بعد امریکہ میں جو سروے کیے گئے، ان کے مطابق 70 فیصد امریکی شہری سوشلزم کے فروغ پذیر ہونے پر یقین رکھتے تھے۔ گوربا چوف کی نمود کے بعد1990میں یہ عرض کرنے کی جسارت کی کہ سوویت یونین باقی نہ رہے گا۔ ہر کہیں بائیں بازو کے دوستوں کے ٹھٹھے کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے باوجود کہ افغانستان سے آنے والی اطلاعات بار بار سرخ افواج کے تھک جانے کی توثیق کرتی تھیں، اس موضوع پر اظہارِ خیال آسان نہ تھا۔ شنٹنگ کرتے ہوئے ریل کا انجن بند کر دیا جائے مگر بریک نہ لگائی جائے تو کئی سو گز تک بھاگتا چلا جاتا ہے۔
کانگرسی کٹھ ملّا اور ماضی کے ترقی پسندوں کے علاوہ بھی کچھ لوگ ہیں‘ بھارت کے لیے نرم گوشہ جن میں مقبول فیشن ہے۔ تخلیقِ پاکستان اور قائدِ اعظم پہ تنقید، براہِ راست اور کھلی کھلی نہ سہی، دبی دبی اور بالواسطہ ہی سہی۔ حیلے بہانے سے نہرو اور گاندھی کی تعریف اور نہایت ہنر مندی سے قائدِ اعظم اور ان کے نظریات کی تحقیر۔ کبھی یہ سوویت یونین کا ایجنڈا تھا۔ پاکستان ناگریز ہو گیا تو کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے مسلمانوں کے الگ وطن کی حمایت کر دی تاکہ اس سرزمین میں سرگرمیوں کی راہ ہموار رہے۔ سوویت یونین کا ایجنڈا اکھنڈ بھارت تھا۔ پاکستان کی زیرِ زمین کمیونسٹ پارٹی بھارتیوں کو ایک قوم مانتی اور پاکستان کو پانچ قومیتوں کا وطن قرار دیتی۔ بلوچستان، سندھ اور پختون خوا کے علیحدگی پسندوں کو علیحدگی پسند نہیں ، ترقی پسند کہا جاتا۔ یہ شعار اب بھی باقی ہے۔ باقی ہی نہیں، بعض اعتبار سے نشوونما پاتا ہوا۔ پاکستان کی صحافت اور سیاست ہی نہیں، کاروباری حلقوں میں بھی بھارتیوں نے پیہم نقب زنی کی ہے۔ افراد اور گروہوں کو سنہرے خواب دکھائے ہیں۔ کیسا عجیب اتفاق ہے کہ کل جو سوویت یونین کا ایجنڈا تھا، وہی اب انکل سام کا ہے۔ پہلے اُن کی تائید و نصرت تھی، اب اِن کی ہے۔ ایسی مستقل مزاجی سے ریاضت بھارتییوں نے کی ہے، امریکہ اور برطانیہ کی ایسی پُرجوش حمایت انھیں حاصل ہے کہ پارٹیوں کی پارٹیاں ہموار ہو گئی ہیں۔ عام طور پر باور کیا جاتا ‘ 2012ء میں پاکستان ختم ہو جائے گا۔ کراچی میں ایم کیو ایم کی نمود اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ اس سے پہلے جی ایم سید اور عوامی نیشنل پارٹی کے بعض عناصر بھی اسی منصوبے کا حصہ تھے۔ ایم کیو ایم کا معاملہ تو اظہر من الشمس ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک کا بھی، جس کے لیڈروں کو برطانیہ، سوئٹزرلینڈ اور افغانستان میں پناہ دی گئی اور اب بھی ان کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ جی ایم سید کی تحریک کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں لکھا گیا لیکن خود اعلانیہ طور پر ہمیشہ وہ یہ کہتے رہے کہ ان کی منزل سندھو دیش ہے۔ اے این پی کے بارے میں مستند معلومات جمعہ خان صوفی کی کتاب ''فریبِ ناتمام‘‘ میں موجود ہیں۔
آئین مقدس ہوتا ہے‘ لہٰذا ہمارا 1973ء کا دستور بھی۔ عملی طور پر مگر یہ آئین نہیں بلکہ پاکستان کی فوج ہے، جس نے ملک کو متحد رکھا ہے۔ سیاسی جماعتوں اور اس سے زیادہ سیاسی عمل نے اس میں مدد فراہم کی لیکن بعض اوقات نقصان بھی پہنچایا۔ ذرائع ابلاغ میں ایسے بھی ہیں‘ جو غیر ملکی منصوبے پر ایمان لے آئے اور عملاً اس کی حمایت کی۔ پاکستانی فوج نے دہشت گردی کے خلاف ایک تاریخ ساز جنگ لڑی اور جیتی ہے۔ پیچھے پلٹ کر دیکھیں تو یہ ایک معجزہ سا لگتا ہے۔ اس لیے کہ انتہا پسندی کے فروغ میں خود عسکری قیادت نے بھی حصہ ڈالا تھا۔ جنرل محمد ضیاء الحق نے ایسے انتہا پسندوں کی سرپرستی کی، نظریاتی طور پر جو آل انڈیا کانگریس کے قریب تھے۔ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے مولانا فضل الرحمٰن کا تقرر کیا محض حسنِ اتفاق ہے؟۔ قائدِ اعظم ثانی میاں محمد نواز شریف اور جنرل اسد درانی کے ارشادات و اعمال کو شاید ایک اور تناظر میں بھی دیکھنا چاہیے۔