کبھی کبھی دل کی خواہش دل ہی میں رہ جاتی ہے۔ شاید ہر خواب کو تعبیر نہیں ملتی۔ ایک برس پہلے کی بات ہے‘ ایک کام کے سلسلے میں ملتان جانے کا اتفاق ہوا۔ ملتان شہر کی اپنی ایک تاریخ ہے جو قدیم بھی ہے اور دلچسپ بھی۔ ملتان جائیں تو ضروری ہے برادرم خالد مسعود سے ملاقات ہو۔ خالد مسعود‘ جو اردو مزاحیہ شعری ادب کا ایک روشن نام ہے۔ عام موضوعات کا انتخاب، زبان کا تخلیقی استعمال اور پھر ادائیگی کا منفرد اسلوب‘ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔ ملتان ہی میں ایک اور شخصیت جس سے ملنے کی آرزو ہوتی ہے‘ اس کا نام رفعت عباس ہے۔ سرائیکی زبان کا نامور شاعر جس کی شاعری میں روایت کا رنگ بھی ہے اور ماڈرن Sensibility بھی اور اس پر اس کا دلنشیں درویشانہ مزاج۔ رات کھانے پر ہم تینوں اکٹھے تھے۔ خوب گفتگو رہی۔ ہم نے رفعت عباس سے اس کی شاعری سنی اور خالد مسعود نے بہت سے شعرا کے شعر سنائے۔ باتوں باتوں میں‘ میں نے مظہر کلیم سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ خالد مسعود نے کہا: کیسا اتفاق ہے‘ اگلے ہفتے ہم نے مظہر کو چائے خانے میں ایک تقریب میں بلایا ہے‘ لیکن مجھے تو اگلے روز واپس آ جانا تھا‘ طے یہ ہوا کہ کل صبح مظہر کلیم کو فون کرکے ملاقات کا وقت طے کیا جائے۔
اس روز میں رات گئے اپنے ہوٹل کے کمرے میں پہنچا۔ کھڑکی کے پردے ہٹائے۔ اب ملتان شہر کی روشنیاں میرے سامنے تھیں۔ انہی روشنیوں میں ایک روشنی مظہر کلیم کے گھر کی بھی ہو گی۔ مجھے مظہر کلیم کی کتابوں کے ساتھ بتائے ہوئے دن یاد آ گئے۔ وہ بھی کیسے عجیب دن تھے۔ ہم گرمیوں کی طویل نہ ختم ہونے والی شاموں میں اپنے نصاب کی کتابوں کے علاوہ دنیا جہاں کی کتابیں پڑھا کرتے تھے۔ ان کتابوں میں ابنِ صفی کے عمران سیریز کے ناول بھی تھے۔ ابنِ صفی ہر مہینے ایک تازہ ناول لکھتے جس کے انتظار میں ان کے چاہنے والے دیدہ و دل فرش راہ کیے ہوتے۔ ابنِ صفی کے بعد بہت سوں نے ان کے ملتے جلتے ناموں سے عمران سیریز کی طرز پر ناول لکھنے شروع کیے‘ لیکن ابنِ صفی کی پیروی ایک بھاری پتھر تھا‘ جسے انھوں نے چُوم کر چھوڑ دیا۔ ان میں سے ایک نوجوان ہٹ کا پکا نکلا۔ اس کا نام مظہر کلیم تھا۔ عمران سیریز کی ہر کتاب پر اس کا نام ''مظہرکلیم ایم اے‘‘ چھپتا اور بیک ٹائٹل پر مصنف کی تصویر۔ سر پر سیاہ بال، مونچھیں باریک اور ترشی ہوئی اور آنکھوں میں بے پناہ چمک۔
اس دور میں جب دلچسپی کے سامان کم تھے موبائل اور کمپیوٹر ہماری زندگیوں کا حصہ نہیں بنے تھے۔ ٹی وی کا صرف ایک چینل ہوتا تھا‘ عمران سیریز کے ناول ہماری لیے ایک نعمت سے کم نہ تھے۔ اس سیریز کا مرکزی کردار علی عمران تھا‘ بظاہر ایک معصوم اور ہونق سا کردار‘ جو اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتا ہے‘ ٹیکنی کلر ملبوسات پہنتا ہے‘ لیکن یہ بہروپ دراصل ایک نقاب تھا‘ جس کے اندر ایک انتہائی ذہین اور شاطر سپائی ماسٹر چھپا تھا‘ جو آکسفورڈ یونیورسٹی سے کیمسٹری میں ایم ایس سی اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کر چکا تھا۔ وہ لڑائی کے دائو پیچ سے واقف تھا۔ عالمی سیکرٹ ایجنسیاں اس کے نام سے دہشت زدہ تھیں۔ عمران کے کچھ اور رُوپ بھی تھے‘ جن میں ایک پرنس آف ڈھمپ بھی تھا۔ یوں وہ بعض اوقات خود کو ایک فرضی ریاست ڈھمپ کے پرنس کے طور پر متعارف کراتا۔ اس کا ایک اور بہروپ بھی تھا‘ جس میں وہ خود کو رانا تہور علی سدوزئی کے طور پر پیش کرتا۔ عمران ایک اپارٹمنٹ میں رہتا‘ جہاں اس کے ساتھ اس کا ملازم سلیمان اور اس کا باڈی گارڈ جوزف رہتے تھے۔ سیکرٹ سروس کا سربراہ ایک پُراسرار شخص X2 تھا۔ سیکرٹ سروس میں کسی نے اُسے نہیں دیکھا تھا صرف اُس کی بھرائی ہوئی دہشت بھری آواز سنی تھی۔ صرف تین لوگوں کو معلوم تھا کہ سیکرٹ سروس کا سربراہ X2 اصل میں علی عمران خود تھا۔
سیکرٹ سروس کے دوسرے کرداروں میں طاہر (بلیک زیرو) ہے جو رانا پیلس (سیکرٹ سروس کا مرکزی آفس) کا نگران ہے۔ بوقت ضرورت طاہر X2 کی آواز میں سیکرٹ کے کارندوں کو احکامات بھی دیتا ہے۔ جولیانا فزآٹر (جولیا) کا تعلق سوئٹرزلینڈ سے ہے‘ لیکن وہ اپنا ملک چھوڑ کر علی عمران کی ٹیم کا حصہ بن گئی ہے‘ اور سیکرٹ سروس میں اس کا عہدہ ڈپٹی کا ہے۔ اس کے علاوہ صفدر اور تنویر کے کردار میں صفدر ایک سمجھدار، وفادار اور مثبت کردار ہے جبکہ تنویر ایک لاابالی اور جذباتی نوجوان ہے۔
مظہر کلیم نے جس کام کا بیڑا اٹھایا‘ وہ آسان نہ تھا۔ ابنِ صفی نے جاسوسی ادب کا ایک معیار مقرر کر دیا تھا۔ اب اس کے چاہنے والے معیار پر سمجھوتہ کرنے کو تیار نہ تھے۔ مظہر کلیم کے ذہنِ رسا نے امکانات کے نئے دریچے کھولے اور اپنی محنت لگن اور قوتِ متخیلہ سے عمران سیریز کی روایت کو آگے بڑھایا۔ اس کے موضوعات کا افق وسیع کیا اور بہت سے نئے کرداروں کو متعارف کرایا‘ جن میں کیپٹن شکیل ٹائیگر، جوزف، نرتن، صالحہ اور شاگل شامل ہیں۔ مظہرکلیم کا پہلا جاسوسی ناول ''ماکازونگا‘‘ تھا جس نے کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ دیئے۔ پھر اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اس کے جاسوسی ناولوں کی تعداد چھ سو سے اوپر ہے‘ ہر مہینے ایک نیا ناول اس کے علاوہ بچوں کے لیے مختصر کہانیوں کی تعداد پانچ ہزار کے لگ بھگ ہو گی۔ حیرت ہوتی ہے‘ کیسے وہ اتنے طویل عرصے تک نت نئے موضوعات پر تازہ تحریریں پیش کرتا رہا۔ اس حیرت میں مزید اضافہ اس وقت ہوتا ہے‘ جب پتا چلتا ہے کہ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل تھا‘ اور یہ ایک کل وقتی پیشہ تھا۔ اس کے علاوہ وہ ریڈیو سے باقاعدگی سے سرائیکی میں ایک پروگرام ''جمہور دی آواز‘‘ بھی کرتا تھا۔ اس رات دیر تک مظہرکلیم کی زندگی کی فلم میری نگاہوں کے سامنے چلتی رہی۔ پھر میں اس اطمینان کے ساتھ سو گیا کہ کل میری ملاقات مظہر کلیم سے ہو گی۔
اگلے روز حسب معمول میں جلدی جاگ گیا۔ِ ناشتے میں میرے ایک مقامی دوست نے میری فرمائش پر یہاں کی مقامی سوغات ڈولی کا اہتمام کیا تھا۔ یہ ایک چھو ٹے سائز کی روٹی ہوتی ہے۔ آپ پر منحصر ہے آپ نمکین روٹی پسند کرتے ہیں یا میٹھی۔ روایتی طور پر ڈولی کے ساتھ مونگ کی دال پیش کی جاتی ہے۔ ناشتے کے بعد عزیزم خالد اقبال آ گئے۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں اور ریڈیو سے طویل وابستگی ہے۔ اسی حوالے سے مظہر کلیم سے نیاز مندی ہے۔ وہیں بیٹھے بیٹھے انہوں نے مظہر کلیم کو فون کیا۔ ابتدائی گفتگو کے بعد میرا تعارف کرایا اور فون مجھے تھما دیا۔ وہ فون پر بڑی محبت سے پیش آئے۔ کہنے لگے: میری آنکھ کا آپریشن ہوا ہے اور ابھی آنکھ کو بلاک کیا ہوا ہے۔ میں نے انھیں بتایا کہ میں بھی آپ کے چاہنے والوں میں سے ایک ہوں۔ یہ وہ بات تھی جو میں ان سے ملاقات میں کہنا چاہتا تھا۔ انھوں نے مسرت کا اظہار کیا اور شکریہ ادا کیا۔ ان کی آواز سے لگتا تھا ان کی صحت اب گرتی ہوئی دیوار ہے۔ انھوں نے کہا: ان کے ہاتھوں میں رعشہ ہے۔ لکھنا آسان نہیں رہا۔ میں نے ان کی صحت کے لیے دعا کی اور کہا ''آج تو آپ کی آنکھ کے آپریشن کی وجہ سے ملاقات ممکن نہیں۔ پھر کب ملیں گے؟‘‘ مجھے کہنے لگے ''انشاء اللہ جلد ملیںگے‘‘۔ اور فون بند ہو گیا۔ مجھے ملاقات نہ ہونے کا قلق تھا‘ لیکن یہ اطمینان تھا آج میں نے اس مصنف سے بات کی ہے‘ جس کی کتابوں کو گرمیوں کی طویل شاموں میں پڑھا کرتا تھا‘ اور جن کے سحر میں میرے شب و روز گزرتے تھے۔ اب اس بات کو گزرے ایک عرصہ ہو گیا ہے۔
اور آج اسلام آباد میں ہفتے کی صبح، چھٹی کا دن اور رمضان کا دسواں روزہ۔ ایک دوست کی فیس بک پر پوسٹ دیکھی۔ ''مظہرکلیم انتقال کرگئے‘‘۔ خبر کے ساتھ ان کی تصویر تھی‘ جس میں ان کے سرکے بال سفید تھے‘ داڑھی بے ترتیب تھی‘ آنکھیں تھکی تھکی اور بوجھل تھیں‘ جن کی روشنی ماند پڑ چکی تھی۔ مجھے ان کی وہ تصویر یاد آ گئی‘ جو عمران سیریز کی ہر کتاب پر چھپتی تھی۔ سر پر سیاہ بال، باریک ترشی ہوئی مونچھیں اور آنکھوں میں بے پناہ چمک۔ رہے نام اللہ کا۔ مجھے مظہرکلیم سے فون پرکی گئی گفتگو یاد آ گئی۔ میں نے ان سے پوچھا تھا: ''پھر کب ملیں گے؟‘‘ اور انہوں نے وعدہ کیا تھا ''انشاء اللہ جلد ملیں گے‘‘ لیکن کبھی کبھی دل کی خواہش دل ہی میں رہ جاتی ہے شاید ہر خواب کو تعبیر نہیں ملتی۔