ہماری آئی ایس آئی کے مطابق سابق سربراہ جنرل (ر) اسد درانی اور انڈین ''را‘‘ کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ دلت کی مشترکہ تصنیف ''سپائی کرانیکلز‘‘ خاصی تہلکہ خیز ثابت ہوئی۔ 255 صفحات کے ساتھ 33 ابواب پر مشتمل اس کتاب کی تیاری کے لیے دہلی میں مقیم معروف صحافی ادیتا سنہا سہولت کار بنے۔ دو حریف خفیہ ایجنسیوں کے سابق سربراہوں کے درمیان یہ طویل مکالمات 2016ء میں استنبول‘ بنکاک اور کھٹمنڈو میں ہوئے۔ معزول وزیراعظم کے بارہ مئی کے انٹرویو میں (جسے ڈان لیکس II کا نام دیا گیا) پاکستان میں ملی ٹینٹ تنظیموں اور نومبر2008ء کے ممبئی حملوں کے حوالے سے تیس پینتیس الفاظ پر مشتمل گفتگو پر بعض حلقوں میں ہاہا کار مچ گئی تھی اور نوبت نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے ہنگامی اجلاس تک جا پہنچی تھی۔ اب ہماری سپریم خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ‘ تو پوری کتاب کے ''شریک مصنف‘‘ بن گئے تھے‘ چنانچہ معزول وزیراعظم اب اس پر بھی نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اجلاس کا مطالبہ کر رہے تھے۔ سینیٹ کے سابق چیئرمین رضا ربانی نے یہ کہہ کردریا کو کوزے میں بند کردیا ''کسی سویلین نے یہ حرکت کی ہوتی‘ تو غداری کا فتویٰ لگ جاتا۔‘‘
جی ایچ کیو کو بھی مسئلے کی نزاکت کا احساس تھا۔ رات گئے‘ اپنے ٹویٹ میں آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے بتایا کہ کتاب میں حساس معاملات پر گفتگو کی وضاحت کے لیے سابق آئی ایس آئی چیف کو 28 مئی کو طلب کرلیا گیا ہے۔ (جس وقت یہ سطور تحریر کی جا رہی تھیں‘ جی ایچ کیو میں اس ''پیشی‘‘ کی تفصیلات منظرعام پر نہیں آئی تھیں۔)
جنرل درانی اگست 1990ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی برطرفی کے بعد آئی ایس آئی چیف بنے۔ محترمہ نے جنرل حمید گل کو ملتان کا کورکمانڈر بنا کر ان کی جگہ آئی ایس آئی چیف کی ذمہ داری ریٹائرڈ جرنیل شمس الرحمن کلّو کے سپرد کی تھی۔ 6 اگست 1990ء کو بابائے اسٹیبلشمنٹ صدر غلام اسحاق خاں کے ہاتھوں محترمہ کی برطرفی کے ساتھ جنرل کلّو بھی رخصت ہوئے۔ ان کی جگہ جنرل درانی‘ صدر پاکستان کا ''حسن ِ انتخاب‘‘ تھے۔ (ظاہر ہے‘ اس میں آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کی تائید بھی شامل تھی۔) ہمارے بعض دوستوں نے جنرل درانی کو اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کے بانیوں میں شمار کیا ہے۔ یہ غلط فہمی‘ 1990ء کی الیکشن مہم میں آئی جے آئی کو رقوم کی فراہمی کے حوالے سے پیدا ہوئی۔ (جنرل درانی کے بقول یہ رقم کراچی کے تاجروں اور صنعت کاروں نے آئی جے آئی کے لیے عطیہ کی تھی۔ ایوانِ صدر کے حکم پراسے صرف ''حقداروں‘‘ تک پہنچایا گیا۔) آئی جے آئی نومبر1988ء کے عام انتخابات میں بھٹو کی بیٹی کے مقابلے کے لیے بنائی گئی تھی‘ یہ ہمارے وژنری جرنیل حمید گل (مرحوم) کا برین چائلڈ تھا‘ جسے ایوانِ صدر اور اُس دور کے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کی تائید اور سرپرستی بھی حاصل تھی۔
مارچ 1992ء میں نوازشریف کی پہلی حکومت تھی‘ جب جنرل درانی کو آئی ایس آئی سے واپس فوج میں بھیج دیا گیا‘ لیکن یہاں وردی میں بھی وہ سیاست میں ''انوالو‘‘ رہے۔ کہا جاتا ہے‘ نومبر 1992ء میں نوازشریف حکومت کے خلاف بے نظیر صاحبہ کی لانگ (ٹرین) مارچ کی پلاننگ میں بھی اُن کی رہنمائی اور مشاورت شامل تھی۔1993ء میں آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ نے انہیں آرمی سے جبری سبکدوش کردیا۔ بے نظیر صاحبہ کے دوسرے دور میں جرمنی میں سفارت جنرل درانی کی ان ہی خدمات کا صلہ تھی۔
''سپائی کرانیکلز‘‘ میں پاکستان کی بعض شخصیات کے حوالے سے انڈین ''را‘‘ کے سابق سربراہ کے دلچسپ (اور چشم کشا) ریمارکس بھی سامنے آئے۔ انہوں نے جنرل مشرف کو وہسکی پینے اور انگریزی میں بات کرنے والا اچھا انسان قرار دیا‘جس نے بھارت کو کشمیر کے حوالے سے جو ''آرام اور اطمینان‘‘ فراہم کیا‘ وہ اس سے پہلے اور بعد میںنہ دیکھنے میں آیا۔ شامی صاحب نے اتوار کو اپنے ہفتہ وار ''جلسہ عام‘‘ میں اس حوالے سے اہم سوال اٹھایا ہے ''اگر پاکستان کے کسی سیاستدان حکمران کو اس طرح کا بھارتی سرٹیفکیٹ عطا ہوتا ‘تو کیا اس کے بعد اس کی حب الوطنی کو پاکستان میں کہیں پناہ مل سکتی تھی؟‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کے حوالے سے ڈکٹیٹر مشرف کا دور پاکستان کی سیاسی و سفارتی تاریخ کا سیاہ ترین دور تھا۔ فروری 1999ء میں واجپائی کی لاہور آمد (جس کے اعلامیہ میں کشمیر کو دونوں ملکوں کے درمیان بنیادی تنازعہ قرار دیتے ہوئے اس کے حل پر زور دیا گیا اور اس کے لیے بیک ڈور ڈپلومیسی کا آغاز بھی ہوگیا) کے بعد کارگل مس ایڈونچر نے کشمیر کو جو نقصان پہنچایا‘ اس سے قطع نظر مشرف کی مطلق العنانیت کے دور میں کشمیر اور کشمیریوں پر جو بیتی‘ وہ پاکستان اور کشمیر‘ دونوں کی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔
نائن الیون کے بعد کولن پاول کی ایک ٹیلی فون کال پر پاکستان کی خودمختاری سمیت قومی غیرت و حمیت کا تمام اثاثہ امریکیوں کے سامنے ڈھیر کرنے کے جو فیوض و برکات ڈکٹیٹر نے بیان کئے تھے‘ ان میں ایک یہ بھی تھا کہ اس نے پاکستان کا کشمیر کاز بچا لیا...اور پھر یہ عظیم کاز اس طرح بچایا گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں برسرپیکار مجاہدین کے مابین مواصلاتی رابطے منقطع کر دیئے گئے۔ تجارتی مراکز‘ مسجدوں اور دکانوں سے کشمیر فنڈ کے بکس اٹھا لئے گئے‘ کشمیریوں کی حمایت میں بینر زاتروا دیئے گئے۔ مجاہدین کشمیر کی حامی غیرسرکاری تنظیمیں BAN کردی گئیں۔ کشمیر پر پاکستان کے تاریخی قومی مؤقف کو پس پشت ڈال کر ''چناب فار مولا‘‘ اور ''سیون ریجنز‘‘ سمیت نت نئے فارمولے پیش کئے گئے۔ غاصب بھارت کے خلاف ''ہارڈ لائینر‘‘ بزرگ کشمیری رہنما سید علی گیلانی ''خبطی‘‘ قرار پا کر نامطلوب ہوگئے اور حریت کانفرنس میں ''معتدل قیادت‘‘ محبوب قرار پائی۔ بھارت کو کنٹرول لائن پر باڑ لگانے کی سہولت فراہم کی گئی۔ 2004ء میں واجپائی کے ساتھ معاہدہ اسلام آباد میں طے پایا کہ ہم اپنی سرزمین بھارت کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے (گویا اس امر کا اعتراف کہ ہماری سرزمین بھارت کے خلاف استعمال ہوتی رہی ہے۔) سارک سربراہ کانفرنس میں واجپائی کی سیٹ پر جا کر مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھانا...بے نظیر تو اپنے پہلے دور میں راجیوگاندھی کی آمد پرکشمیر ہائوس کے بورڈ اتروانے پر غدار اور سکیورٹی رسک قرار پائی تھیں۔
''سپائی کرانیکلز‘‘ میں امرجیت سنگھ نے مودی کو ''لومڑی‘‘ اور نوازشریف کو ''اونٹ‘‘ قرار دیا۔ ''لومڑی‘‘ کا مطلب تو سمجھ میں آتا ہے‘ اُردو میں عیار اور مکار‘ انگریزی میں ''Cunning‘‘ کہہ لیں‘ لیکن نوازشریف کے لیے ''اونٹ‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ ویسے ایک کہانی عرب بدو کے اونٹ کی بھی ہے۔
''سکیورٹی رسک‘‘ سے یاد آیا‘ سینئر اخبار نویسوں سے ایک ملاقات میں مشرف‘ بے نظیر اور نوازشریف دونوں پر خوب گرج برس رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا‘ میرے ہوتے ہوئے یہ دونوں واپس نہیں آ سکتے۔ اس موقع پر اس نے محترمہ کے بارے میں کچھ نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہوئے انہیں ''سکیورٹی رسک‘‘ بھی قرار دیا۔ جبکہ نوازشریف کے بارے میں اس کا کہنا تھا‘ وہ میرا دشمن نمبر ایک ہے ‘لیکن سکیورٹی رسک نہیں۔