تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     29-05-2018

مان نہ مان‘ میں ہوں بھگوان

کام نہ کرنے کے سو طریقے ہوتے ہیں اور ہزاروں بہانے ہوتے ہیں۔ اگر کسی نے طے کرلیا ہے کہ کام نہیں کرنا تو پھر کس میں ہمت ہے کہ اُس سے کام لے۔ ہم خیر سے ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں‘ جس میں کام سے گریز کا رجحان دیگر تمام رجحانات پر غالب ہے۔ لوگ کام سے یوں بھاگتے ہیں‘ جیسے کسی بھی نیک کام سے شیطان۔ کام سے کترانے والوں کے اپنے ہی ڈھنگ ہوا کرتے ہیں۔ اس دنیا میں کام کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے ‘بس کام کیجیے‘ کرتے ہی چلے جائیے۔ نہ کرنے کے طریقوں اور بہانوں کی کمی نہیں۔ آپ نے دیکھا ہی ہوگا کہ کام سے بھاگنے والے کیسے کیسے بہانے تراشتے ہیں‘ کیسی کیسی دلیلیں گھڑتے ہیں‘ کہاں کہاں سے جواز ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ کوئی کسی کو مار ڈالتا ہے‘ کوئی بیمار کرنے پر اکتفا کرتا ہے۔ کوئی اپنے آپ کو بیمار قرار دینے سے نہیں چُوکتا۔ کوئی کہیں حادثہ کرادیتا ہے اور اُس میں اپنے کسی پیارے کو شدید زخمی کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ جیسی صورتِ حال ویسا بہانہ۔ اگر گرمی زیادہ پڑ رہی ہے‘ تو ہیضہ اور اگر سردی زیادہ پڑ رہی ہو تو شدید نزلہ و بخار۔ کام سے بچنا ہو تو بہانوں کی کمی نہیں‘ دلائل کی قِلّت نہیں۔ 
پاکستانی معاشرے میں ایسے لوگ‘ خیر سے‘ خاصی بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں کہ کام سے گریز کی راہ پر گامزن رہنے کے لیے بہانے اور جواز تلاش کرنے کے معاملے میں ''ریسرچ سکالرز‘‘ کے درجے پر فائز کیے جانے کے قابل ہیں۔ جب یہ بہانے اور جواز بیان کرنے پر آتے ہیں‘ تو فصاحت و بلاغت کے دریا بہا دیتے ہیں اور آخرکار یہ بات منواکر دم لیتے ہیں کہ زیادہ کام کرنا‘ بلکہ کام کرنا انسان کی صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہے ۔ اور یہ کہ کام سے دُور رہنے ہی میں زندگی کا اصل حُسن پوشیدہ ہے۔ 
کام سے جان چُھڑانے کے معاملے میں خیر سے یہ پورا خطہ ہی لاجواب ہے۔ اڑوس پڑوس کے معاشروں پر نظر دوڑائیے‘ تو وہاں بھی ایسے لوگ بہ کثرت ملیں گے‘ جو کام سے دور رہنے کے معاملے میں ایک دوسرے کے بہت قریب دکھائی دیتے ہیں۔بات بنگلہ دیش کی ہو یا سری لنکا کی‘ بھارت کی یا نیپال کی ‘ ہر معاشرے میں کام سے گریز کی روش پر گامزن رہنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ یہ لوگ نہیں چاہتے کہ معاشرے کا اچھا خاصا تانا بانا بکھر جائے۔ ان کی نظر میں زندگی کا حُسن ‘اس حقیقت میں مضمر ہے کہ معاملات کو ''جیسے ہیں‘ جہاں ہیں‘‘ کی بنیاد پر چلتا رہنے دیا جائے۔ بات کچھ یوں ہے کہ جہاں کام ہوتا ہے‘ وہاں بہت کچھ تبدیل ہوتا ہے اور جب تبدیلی آتی ہے‘ تو وہ لوگ بھی متاثر ہوتے ہیں جو کام کرنے پر یقین نہیں رکھتے۔ ایسے میں بہتر تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ خود کام کیا جائے‘ نہ اوروں کو کام کرنے دیا جائے۔نہ کام ہوگا ‘نہ کوئی بڑی تبدیلی آئے گی۔ 
بھارت میں ایک انوکھا معاملہ سامنے آیا ہے۔ گجرات کے سردار سروور ڈیم کے ایک سپرنٹنڈنگ انجینئر رمیش چندر فیفر نے کام سے بچنے کے لیے ایسا راستہ چُنا ہے کہ ایک دنیا حیران رہ گئی ہے۔ 22 ستمبر 2017ء کو منصب کا چارج سنبھالنے کے بعد سے اب تک موصوف نے صرف اور صرف 16 دن ڈیوٹی دی ہے۔ حکامِ بالا پریشان ہیں کہ کریں تو کیا کریں۔ کئی بار اظہارِ وجوہ کا نوٹس جاری کیا گیا ‘مگر موصوف ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ بالآخر اُنہیں سخت زبان والا اظہارِ وجوہ کا نوٹس جاری کیا گیا‘ تو وہ کچھ متوجہ ہوئے۔ محکمہ جاتی کارروائی کے انتباہ پر مبنی نوٹس کے جواب میں رمیش چندر فیفر نے لکھاہے ''میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ دفتری اُمور نمٹانے جیسا چھوٹا موٹا کام کروں یا اپنے آپ کو بڑے کاموں کے لیے وقف کروں۔‘‘ آپ کے ذہن میں یہ سوال ضرور اُبھرا ہوگا کہ منصب کے تقاضے نبھانے سے بڑھ کر کون سا بڑا کام ہوسکتا ہے۔ آگے پڑھیے‘ رمیش چندر فیفر لکھتے ہیں ''میں اس جاب (سپرنٹنڈنگ انجینئر) کے لیے 'اوور کوالیفائیڈ‘ ہوں۔ میں قوم کو تباہی سے بچانے کے طریقوں پر غور کر رہا ہوں۔ قحط‘ خشک سالی‘ سیلاب اور دیگر قدرتی آفات سے قوم کو محفوظ رکھنے کی حکمتِ عملی سوچنے پر 'دھیان‘ (مراقبے) میں اچھا خاصا وقت صرف ہوتا ہے۔ میں آج کل یہی کام کر رہا ہوں۔‘‘ 
آپ سوچیں گے ‘ملک کو تباہی سے بچانے کی ذمہ داری رمیش چندر فیفر کے نازک کاندھوں پر کیوں اور کیونکر آن پڑی ہے۔ اُن کے کاندھوں پر یہ ذمہ داری کسی نے نہیں ڈالی۔ یہ نیک کام انہوں نے از خود نوٹس کے تحت کیا ہے۔ موصوف نے اظہارِ وجوہ کے نوٹس کے جواب میں لکھا ہے ''میں بھگوان وِشنو کا دسواں (کلکی) اوتار ہوں ‘اس لیے میرا کام ملک اور معاشرے کو تباہی سے بچانا‘ سب کا بھلا سوچنا ہے۔ جب تک یہ ذمہ داری میرے کاندھوں پر ہے‘ میں دفتر آکر ڈیوٹی دینے سے قاصر ہوں‘‘ ۔
لیجیے‘ کرلیجیے بات۔ جب بندہ خود کو بھگوان کا اوتار سمجھنے اور بہ ببانگِ دُہل اس کا اعلان کرنے پر بھی تُل جائے تو آپ کیا کریں اور ہم کیا کریں۔ رمیش چندر فیفر یہیں تک نہیں رُکے۔ انہوں نے مزید لکھا ہے ''میں جگدمبے ماتا کا پجاری ہوں۔ میری پُوجا اور پرارتھناؤں سے بارشیں ہوئیں‘ جن کے نتیجے میں گجرات قحط اور خشک سالی سے محفوظ رہا حالانکہ 'اینٹی گاڈ‘ نے بارش روکنے کی کوشش کی تھی‘‘۔ 
اسے کہتے ہیں اپنی طرف سے پوری کوشش کرنا۔ کام سے بچنے کے لیے رمیش چندر فیفر نے سوچا کوئی چھوٹی موٹی بات کہاں چل سکے گی‘ خود کو بھگوان کا اوتار ہی ظاہر کردو۔ جب اتنی بڑی بات کی جائے گی ‘تو فریقِ ثانی کے لیے پاس کوئی جواب ہی نہ ہوگا۔ اور پھر یہ بھی دیکھیے کہ گجرات میں بارشوں کا کریڈٹ بھی بھگوان وِشنو کے دسویں اوتار نے کس خوبصورتی سے اپنے کھاتے میں ڈال لیا۔ اور ایسے لوگ اہلِ خانہ سے کیسا سلوک روا رکھتے ہیں؟ یہ بھی پڑھ لیجیے۔ 21 اپریل 2017ء کو رمیش چندر فیفر کی بیوی اور بیٹے نے راج کوٹ کے ایک پولیس اسٹیشن میں رپورٹ درج کرائی کہ رمیش چندر اُن دونوں کو ''راکشس‘‘ قرار دے کر مارتا پیٹتا رہتا ہے۔ 
جو اپنے منصب سے متعلق فرائض کو مار پیٹ کر ایک طرف ہٹا دیتا ہو اور محکمہ جاتی کارروائی سے ذرا نہ ڈرتا ہو ‘اُس کے لیے بیوی اور بیٹے پر ہاتھ اٹھانا کون سا مشکل کام ہے؟ ایسے لوگ ایسا ہی تو کیا کرتے ہیں۔ 
کام سے بچنے کے لیے سو بہانے تو ہم بھی سوچ سکتے ہیں ‘مگر جناب رمیش چندر نے تو حد ہی کردی۔ بس یہ سمجھ لیجیے کہ قلم توڑ دیا! اب کوئی کیا بہانہ گھڑ کر دکھائے کہ رمیش چندر کے کیس نے تو سارے ہی چراغ گُل کردیئے۔ پاکستانی ہونے کے ناطے ہم بھی بہانہ تراشی میں خاصی جولانیٔ طبع دکھایا کرتے ہیں اور کبھی کبھی کام سے بچ نکلنے میں کامیاب بھی رہتے ہیں ‘مگر خیر رمیش چندر نے میدان مار لیا ہے۔ اب ہمیں یہ اندیشہ لاحق ہے کہ رمیش چندر کے نقش ِ قدم پر چلتے ہوئے‘ اگر ہمارے ہاں بھی لوگ ملک و قوم کا بھلا سوچنے کے نام پر مراقبے میں چلے گئے‘ گیان دھیان میں سمادھی لگالی‘ تو جو تھوڑا بہت کام ہو پاتا ہے‘ وہ بھی کون کرے گا؟ کام سے نجات کے لیے مذہب کا سہارا لینے والوں کی ہمارے ہاں بھی کوئی کمی نہیں‘ مگر خود کو آسمان پر بٹھالینا... اصل کمال تو یہ ہے۔

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved