تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     30-05-2018

امریکی ایجنڈا

کیا امریکی منصوبہ تکمیل پائے گا؟ انشا اللہ بالکل نہیں۔ پاکستان کا ایک منور مستقبل ہے، اس کی ایک طے شدہ تقدیر ہے۔ ہاں مگر یہ کہ اللہ کے قوانین بدلتے کبھی نہیں۔ وقت اگر ہم ضائع کریں گے، تو قیمت چکانا ہو گی۔ 
روپیہ پیسہ آدمی کی کمزوری ہے۔ تیس سال قبل این جی اوز کا جال بچھنا شروع ہوا۔ کم لوگوں کو اندازہ تھا کہ کتنی تباہی لا سکتا ہے۔ شخصی خامیوں سے مکمل نجات ممکن نہیں۔ اس لیے توبہ کا دروازہ اللہ نے کھلا رکھا ہے۔ خون کی طرح شیطان آدمی کی رگوں میں گردش کرتا ہے۔ پھر خود اس کی ظالم جبلتیں۔ فرمایا: نفس کو میں نے پیدا کیا تو اپنا سب سے بڑا دشمن پیدا کیا۔ خطا کا مرتکب محفوظ رہ سکتا ہے، اپنی غلطی کا اگر ادراک کر لے۔ تلافی اور تصحیح کی اگر کوشش کرے۔ مگر اسے دہراتا رہنے والا، اس پر اصرار کرنے والا تباہی کو دعوت دے گا... سورہ مدثر کی وہ آیت بارِ دگر : ہر آدمی اپنے اعمال کے بدلے میں گروی ہے۔ 
ممتاز صاحب مرحوم امریکی یونیورسٹیوں میں پڑھاتے رہے۔ آخر کو انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی سے وابستہ تھے۔ بڑی تصویر وہ دیکھتے۔ ایک دن ان سے استفادے کا موقعہ ملا۔ مصر میں بنے جال کا انہوں نے جائزہ لیا تھا۔ کہا: بروقت روک تھام اگر نہ ہوئی تو پاکستان ایک دلدل میں دھنس سکتا ہے۔ ڈاکٹر ثریا سے 1997ء یا شاید 1998ء میں ہوئی۔ بیک وقت دو امریکی یونیورسٹیوں کی Dean تھیں۔ وضاحت سے انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں ہیپاٹائٹس پھیل جانے کا خطرہ ہے۔ 
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ زندگی کا ہم سامنا نہیں کرتے۔ دامن چھڑا کے گزر جاتے ہیں۔ راہِ فرار اختیار کرتے ہیں۔ آج صدمہ ہوتا ہے، بہت صدمہ، جب میں سوچتا ہوں کہ ممتاز صاحب کی بات پہ غور کیا ہوتا۔ ڈاکٹر ثریا کی بات پہ غور کیا ہوتا۔ کوئی نتیجہ شاید نہ نکلتا۔ یہ اطمینان ہوتا کہ طوفان کی بروقت پیش گوئی کر دی تھی۔ شاید کوئی ایدھی، شاید کوئی ڈاکٹر امجد ثاقب اٹھتا اور اندمال کی کوشش کرتا۔ بیماری ہی اگر معلوم نہ ہو تو کیا دوا اور کیا دارو۔ 
پاکستان ایک بارہ سنگھا ہے، جس کے سارے سینگ جھاڑیوں میں پھنسے ہیں۔ ہم اپنی انفرادی زندگیو ں میں مگن ہیں، اپنی پیٹ پوجا یا اپنے مذہبی اور سیاسی تعصبات کے علم لہرا کر اپنی انائوں کو گنے کا رس پلانے میں۔ 
غور و فکر کی فرصت کسی کو نہیں۔ زمانہ گزرا کہ سائنسی اندازِ فکر سے مسلمان دستبردار ہو چکے۔ جذبات کی دنیا میں وہ جیتے ہیں۔ عالمِ دین، دانشور اور لیڈر وہ ہے، جذبات کی آگ زیادہ سے زیادہ جو بھڑکا سکے۔ جو ثابت کر سکے کہ ایک آنچ کی کسر رہ گئی، عمران خان وگرنہ قائدِ اعظم ہی ہوتے۔ جو دلائل دے سکے کہ اسلام اور پاکستان کے بغیر تو قوم کا کوئی مستقبل ہو سکتا ہے مگر شریف خاندان کے بغیر ہرگز نہیں۔ 
ایک ایجنڈا ہے اور واضح ہے۔ اس کی پیروی کرنے والے ہیں اور سامنے کھڑے ہیں۔ آدمی حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ رتی برابر کسی کو پروا نہیں۔ دانشور این جی اوز سے راتب وصول فرماتے ہیں یا سرکار سے۔ ٹی وی کے میزبان کو مقبولیت کی فکر لاحق ہے اور لیڈر کو الیکشن جیتنے کی۔ ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ سے عرض کیا: کشمیر پہ آپ بات تک نہیں کرتے، قتلِ عام جاری ہے۔ جواب ملا: کشمیر پہ ووٹ نہیں ملتے۔ پاکستان کے باب میں سید علی گیلانی حد درجہ محتاط ہیں۔ اس لیے کہ سفاک بھارت سے وہ نبرد آزما ہیں۔ احتیاط کی انتہا یہ ہے کہ حافظ سعید کے بارے میں بات نہیں کرتے، پاکستان کے لیے جس نے کانٹوں کی فصل اگائی ہے۔ اس لیے کہ کشمیر میں کچھ لوگ حافظ صاحب کے قائل بھی ہیں۔ اس کے باوجود سلیمان غنی سے انہوں نے کہا: مسئلہ کشمیر پہ پاکستان کی سنجیدگی اسی سے آشکار ہے کہ حضرت مولانا فضل الرحمٰن کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہیں۔ وہی فضل الرحمٰن بھارت میں بیٹھ کر جو کہہ چکے کہ اکھنڈ بھارت کی تشکیلِ نو پہ غور کیا جا سکتا ہے۔ تمام بھارتی اخبارات نے یہ خبر چھاپی، شاید بعض چینلز نے نشر بھی کی تھی۔ آصف علی زرداری اور نواز شریف کو تو الگ رکھیے، کشمیر کی آزادی سے انہیں کیا غرض‘ جماعتِ اسلامی اور تحریکِ انصاف نے کبھی اس پہ احتجاج نہیں کیا۔ اس سنجیدگی اور عزم کے ساتھ، جس طرح شریف خاندان کے کارناموں پہ کیا جاتا ہے۔ 
سیاسی پارٹیاں بحیثیتِ مجموعی کس قدر غیر سنجیدہ ہیں۔ ایک مثال بار بار عرض کرتا ہوں۔ کاشتکار مار دیے گئے، بری طرح کچل دیے گئے ہیں۔ ضرورت تو یہ تھی کہ سستی بجلی اور سستی کھاد انہیں فراہم کی جاتی۔ حال یہ ہے کہ گندم کے لیے بوری نہیں ملتی؛ حالانکہ اس پہ کوئی خرچ سرکار کا نہیں اٹھتا۔ اسی طرح پوری قیمت پر بروقت کھاد اور اس بیج کی فراہمی، پیداوار جس سے دوگنا ہو سکتی ہے۔ اس پر بھی سرکاری خزانے سے کچھ صرف نہ ہو گا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ملک کے تباہ حال کاشتکار کبھی کسی سیاسی پارٹی کی ترجیح نہ تھے۔ بڑے پیمانے پر پائپ کی فیکٹریاں لگا لی جائیں تو کھیتوں میں فوارے لگانے پر زیادہ سے زیادہ تیس ہزار روپے فی ایکڑ خرچ ہوں گے۔ 90 فیصد پانی بچ رہے گا اور کم از کم ایک صدی کے لیے وہ بحران ٹل جائے گا، ننگی تلوار کی طرح ہمارے سر پہ جو لٹک رہا ہے۔ سب سے بڑھ کر گنے کا مظلوم کاشتکار۔ تحریکِ انصاف کیا، جماعتِ اسلامی بھی اگر قائل ہو جائے اور عزم کر لے تو گنے کے کاشتکار کو 180 روپے فی من نقد مل سکتے ہیں۔ جہاں کہیں زیادتی ہو، 2 ہزار مظاہرین شوگر مل کے مقابل پُرامن مظاہرہ کریں، دھرنا دیں۔ کئی ماہ سے تحریکِ انصاف کے لیڈروں کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں، لاحاصل۔ کاشتکاروں کے دو کروڑ سے زیادہ ووٹ مل سکتے ہیں مگر یہ بدقسمت سیاسی لیڈر۔ 
پاکستان کے لیے بھارتی اور امریکی ایجنڈا کیا ہے۔ اوّل اسلام آباد کو دلّی کا تابع مہمل بنانا اور پھر اکھنڈ بھارت کا حصہ۔ دو چیلنج مغرب کو درپیش تھے۔ ایک وسیع تر مشرقِ وسطیٰ، عرب ممالک کا ایک ایسا اتحاد، باقی مسلم ممالک جس کی پشت پر کھڑے ہوں۔ اصولی بنیادوں پر اگر خلوص سے تشکیل پاتا تو اسرائیل کو سمیٹ دیتا یا بے معنی کر دیتا۔ مشرقِ وسطیٰ کو مغرب نے ادھیڑ کے رکھ دیا۔ اوّل ترک عرب کشمکش پیدا کی۔ پھر عربوں کو باہم لڑایا اور اب ایران عرب تصادم۔ عربوں اور ایرانیوں میں سے کون زیادہ عقل مند ہے، یہ کہنا مشکل ہے۔ قوم پرستی کا خمار کس میں کتنا ہے، اس کا تعین سہل نہیں ۔ نتائج البتہ معلوم ہیں۔ باہمی تصادم میں اب تک کم از کم دس ہزار بلین ڈالر وہ ضائع کر چکے اور اپنا تمام مستقبل ۔ شاید یہی وہ صورتِ حال ہے ، جس پر رسولِ اکرمؐ نے ارشاد کیا تھا : ویل للعرب ۔ تباہی ہے عربوں کے لیے ۔ مغرب کو اصل خطرہ اب چین سے درپیش ہے ۔ خواہی نخواہی پاکستان اس کا حلیف ہے ۔ زمانہ دھکیل کر ہمیں اس طرف لے گیا ہے کہ اب اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ۔ امریکہ بہادر کو یہ گوارا نہیں؛ چنانچہ پاکستان میں ایسی قیادت بھی اسے گوارا نہیں ، جو امریکہ کی آلۂ کار نہ ہو ۔ اس کے عالمی عزائم کی راہ میں جو رکاوٹ بنے ۔ نیو ورلڈ آرڈر میں‘ 1988ء میں سینئر صدر بش نے جس کا علم بلند کیا تھا، اب ایسا اکھنڈ بھارت انکل سام کا خواب ہے، پاکستان جس میں شامل ہو۔ افغانستان اور ایران اس میں بھارت کے مددگار ہوں ۔ چین پر چڑھائی کے لیے جن کو استعمال کیا جائے ۔ این جی اوز کے جال ، مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائِ اسلام ، محمود اچکزئی کی پختون خوا ملی عوامی پارٹی اور اگر ممکن ہو تو نون لیگ اس مغربی ترجیح کے لیے استعمال کی جائے۔ 
کیا امریکی منصوبہ تکمیل پائے گا ؟ میرا خیال ہے کہ بالکل نہیں۔ پاکستان کا ایک منور مستقبل ہے ، اس کی ایک طے شدہ تقدیر ہے ۔ ہاں مگر یہ کہ اللہ کے قوانین بدلتے کبھی نہیں ۔ وقت اگر ہم ضائع کریں گے، حماقت پہ اگر حماقت کرتے جائیں گے توبہت بھاری قیمت چکانا ہوگی۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved