تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     30-05-2018

پُراسرار رازوں کی کہانی

اسلام آباد کلب میں پی ٹی آئی کے نئے لیڈر ندیم افضل چن کی طرف سے افطاری کی دعوت تھی۔ چن صاحب سے پرانی یاد اللہ ہے۔ اچھے بندے ہیں ۔ اس لیے اسلام آباد کے بہت سارے اہم صحافی وہاں موجود تھے جنہیں چن صاحب کی محبت کھینچ لائی تھی ۔ 
عرصہ ہوا سیاستدانوں کی چائے پانی کی دعوتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ شروع میں اچھا لگتا تھا ۔ احساس محرومی یا احساس کمتری کو دور کرنے کے ہمیں ایسے مواقع ملتے تھے۔زیادہ تر ایم این ایز، جو اپنے حلقوں میں ایک دہشت کی علامت سمجھے جاتے ہیں ، یہاں اسلام آباد میں آپ کو نظریں جھکائے اور چھپتے چھپاتے نظر آتے ہیں۔ اسمبلی میں بھی چند ایم این ایز بولیں تو بولیں باقی کو فکر اپنے ڈیلی الائونس کی ہوتی ہے۔ وزیر، پھر وزیراعظم تک رسائی ۔ ہم سے مشورے مانگے جاتے ہیں یا ہم لقمے دیتے ہیں۔ ہم بھی بڑھ چڑھ کر مشورے دیتے ہیں۔ سیاستدان بھی ایسے ظاہر کررہے ہوتے ہیں جیسے ہم سے زیادہ ذہین انسان نہیںملا۔ ویسے سیاستدان بھی ہمارے مشوروں پر ہنستے ہوں گے۔اولڈ سکول آف تھاٹ کے صحافی ہمیں سمجھاتے تھے صحافی اور سیاستدان میں دوستی نہیں ہوتی۔ دونوں دوستی کی اداکاری کرتے ہیں ۔ ایک دوسرے کو استعمال کرتے ہیں۔ صحافیوں کی کوشش ہوتی وہ اس دوستی کے پردے میں سیاسی خبر یا سکوپ مار لیں گے جب کہ سیاستدان سمجھتاکہ وہ اس صحافی کو ایک خبر دے کر ذاتی وفادار بنا رہا ہے اور وہ بعد میں ذاتی مقصد کے لیے استعمال کرے گا یا پھر اپنے مخالفوں کے خلاف استعمال کرے گا ۔ تاہم بعد میں ہم جیسے صحافیوں نے سمجھ لیا، یار یہ سیاسی بندہ تو میرا دوست ہے۔ عامر متین نے ایک دن بتایاکہ جب وہ دو تین سال جنرل مشرف دور میں ان کے دبائو کی وجہ سے بیروزگار رہے تو وہی سیاستدان جو ہر وقت ان پر واری صدقے جاتے تھے ، انہوں نے کبھی بھول کر بھی فون نہیں کیا کہ آپ کہاں ہیں۔ جب عامر متین پارلیمنٹ کی ڈائری لکھتا تھا اور کمال لکھتا تھا تو وہ انہی سیاستدانوں کی ڈارلنگ ہوتا تھاکہ کہیں کل کی ڈائری میں ان کے بارے میں ایسی بات نہ لکھی جائے کہ ان کا بٹھا ہی بیٹھ جائے۔ اگر کوئی سیاستدان پارٹی کرتا تواسلام آباد کے انگریزی صحافت کے بڑے نام شاہین صہبائی، عامر متین، نصرت جاوید اور ضیاء الدین کے بغیر وہ پارٹی شروع نہیں ہوسکتی تھی ۔ ان چاروں کا وہاں موجود ہونا اس بات کی گارنٹی سمجھا جاتا تھا کہ وہ سیاستدان بڑی توپ چیز ہے ۔ ہم رشک کرتے اور سوچتے تھے یار کبھی ہمیں بھی ان محفلوں میں بلایا جائے گا ۔ جب برسوں کی محنت کے بعد وہ مرحلہ آیا تو شروع میں ہم بھی نو دولتیوں کی طرح بڑے خوش ہوئے اور اکڑ کر چلتے تھے۔ واہ جی ہم تو بڑی توپ چیز ہیں ۔ پھر یہ سب اپوزیشن دور کے سیاستدان دو ہزار آٹھ کے الیکشن کے بعد اقتدار میں آنا شروع ہوئے تو ان کا اصل رنگ ہمارے اوپر ظاہر ہونے لگا ۔ وہی جو ہمارے اردگرد پھرتے تھے اب ہم سے یہ توقع رکھنے لگے کہ وہ کتنی ہی لوٹ مار کیوں نہ کر رہے ہوں یا سیاسی دھوکے بازیاں، ان کا پردہ چاک نہ کیا جائے۔ اس وقت مجھے بڑے صحافیوں کی وہ بات یاد آئی کہ جناب یہ دوستی نہیں مفاد کا تعلق ہے۔ اگر آپ کو اندر کی خبر چاہیے تو پھر آپ کو ان سیاستدان کی غلط کاریوں پر پردہ ڈالنا ہوگا ۔ جب یہ سیاسی لیڈرز جیسے زرداری ، نوا زشریف ، شہباز شریف یا کوئی اہم وزیر پھنس جائیں گے تو پھر آپ صحافی دوست ان کے فرینڈلی انٹرویوز بھی کریں گے۔ 
یہی وجہ ہے جب بھی کوئی ایسا انکشاف ہو جو ان سیاسی لیڈروں کو مشکل میں ڈال رہا ہو جیسے کوئی بیرون ملک کتاب چھپ جائے، عالمی اخبار میں سکینڈل سامنے آجائے تو ان کی پہلی کوشش یہی ہوتی ہے اس خبر کا مذاق اڑایا جائے۔ بتایا جائے غیر ملکی میڈیا کیسے پاکستان کے خلاف ہے ۔ آپ کو یاد ہوگا پاناما لیکس کو پاکستان کے خلاف عالمی سازش کا درجہ مریم نواز صاحبہ نے دیا تھا ۔ زرداری کا سرے محل سکینڈل سامنے آیا تھا تو بھی یہی شور اٹھا تھاکہ دیکھیں برطانوی اخبارات پاکستان دشمنی کر رہے ہیں۔ اسحاق ڈار کا سکینڈل آئے گا تو اس کے اپنے فیورٹ اینکرز ہیں ۔ نواز شریف کے پاناما سکینڈل کا بڑا دفاع دن رات ٹوئٹر پر ہم صحافی ہی کرتے ہیں ۔ ہر سکینڈل پر میڈیا میں دوستوں کو ایکٹو کر دیا جاتا ہے شاباش شروع ہوجائو۔کتاب پر شک کرو۔خبر پر شک کرو۔سکینڈل کو اب قلابازیاں دو ، پروگرام میں ایسے لوگوں کو بلائو جو پہلے سے فیڈ ہوچکے ہوں۔ یوں مل ملا کر پاکستان کے لوگوں کو یہ یقین دلایا جاتا ہے اس کتاب کا چھپنا جہاں پاکستان کے مفادات کے خلاف ہے وہیں یہ خبر بھی پاکستان کو نقصان دے گی۔ دراصل اس تمام کوشش کے پیچھے وجہ وہی ہوتی ہے ہم نے اپنے سیاسی یار کو کیسے بچانا ہے۔ 
یہ باتیں مجھے اس لیے یاد آرہی ہیں جب سوموار کے روز ندیم افضل چن کی افطاری میں مشہور اینکرز کاشف عباسی، رحمن اظہر، ستار خان، ندیم رضا، ضمیر حیدر، خاور گھمن اور دیگر دوستوں سے جنرل درانی اور راکے چیف کی مشترکہ کتاب پر بات ہورہی تھی تو میں نے یہی پوائنٹ اٹھایا کہ دنیا بھر کے صحافیوں میں یہ کوشش ہوتی ہے کہ جو لوگ ماضی میں اہم عہدوں پر رہے ہیں وہ کوئی اہم راز بتائیں ، ان کا سکینڈل سامنے لایا جائے، کوئی خبر بنے اور لوگوں کو بتایا جائے ۔جو لوگ ان کی موت اور زندگیوں کے فیصلے کر رہے تھے ان کی حقیقت کیا تھی۔ 
تاہم پاکستان میں بالکل الٹ ہو رہا ہے۔ یہاں جب بھی کوئی کتاب چھپتی ہے تو فوراً سب سے پہلے پاکستانی میڈیا کے جغادری، دانشور اور کالم نگار شور مچا دیتے ہیں یہ کتاب کس نے اور کیوں لکھی ہے ۔ اس کے پیچھے چھپے ''گھنائونے‘‘ مقاصد کیا ہیں ۔ اگر کسی نے پڑھا تو کل رات تک آسمان اس ملک پر گر جائے گا۔ فوراً ٹی وی پر پروگرام شروع ہوجائیں گے جہاں اس کتاب کی ٹائمنگ پر سب سے زیادہ حملہ کیا جائے گا ۔ میں شرطیہ کہتا ہوں کسی نے وہ کتاب نہیں پڑھی ہوتی۔ اس لیے وہ کتاب میں لکھے گئے مواد پر بات کرنے کے بجائے زیادہ وقت اس پر لگائیں گے کہ یہ کتاب اگر چھاپنی بھی تھی تو اب کیوں ؟ اس ٹائمنگ کا مطلب ہوتا ہے کوئی سازش ہوئی ہے۔ اگر وہ کتاب سال یا چھ سال بعد بھی چھپے تو بھی ہم صحافی وہی سوال پوچھیں گے کہ اب کیوں؟ 
کاشف عباسی کو داد دینی پڑے گی بولے یار میں نے ابھی تک کتاب نہیں پڑھی اور جو کچھ رپورٹ ہو رہا ہے وہی دیکھ اور سن رہا ہوں ۔ اب پڑھوں گا ۔ ایک ٹی وی پروگرام دیکھا جس کے پینل پر وہ لوگ موجود تھے جنہوں نے پوری کتاب نہیں پڑھی ہوئی تھی لیکن سب کا زور اس بات پر تھا یہ کتاب کیوں چھپی۔ اب کیوں چھپی ۔ اگر اس کتاب میں ملکی مفادات کا خیال نہیں رکھا گیا تو ایکشن لیں وغیرہ وغیرہ ۔ 
کیا ماضی میں حساس معلومات چھپا کر بھی مرضی کے نتائج حاصل کیے گئے ہیں؟ ہم نے حمودالرحمن کمیشن رپورٹ چھپا لی تو وہ بھارت میں انڈیا ٹوڈے نے پوری چھاپ دی۔ ہم نے اسامہ بن لادن کمیشن رپورٹ چھپا لی وہ الجزیرہ ٹی وی نے اپنی ویب سائٹ پر ڈال دی۔ انیس سو اکہتر کی جنگ کے دنوں میں پاکستان میں نہ ٹی وی میڈیا تھا اور نہ ہی اخبارات ماسوائے چند سرکاری اخبارات اور وہ وبھی سرکاری کنٹرول میں۔ تو کیا پھر ہماری ریاستوں کے محافظوں نے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کر لیے تھے؟ جب ریڈیو پاکستان یہ کہہ رہا تھا پاکستانی فوجیں بھارت کی سرحد کی طرف ایڈوانس کر رہی ہیں۔ اس وقت بی بی سی خبر بریک کررہی تھی جناب مشرقی پاکستان ہاتھ سے نکل گیا ہے ۔
بہرحال چھپائے رکھیں سچ کو جو پاکستان میں نہیں تو کسی دن انڈیا ٹوڈے میں چھپ جاتا ہے یا پھر الجزیرہ ٹی وی پر یا پھر سابق را چیف اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی مل کر چھاپ دیتے ہیں۔ کسی سیانے کا قول ہے وہ راز کوئی راز نہیں ہوتا جو چھپا رہے۔ راز وہی ہوتا ہے جو کچھ عرصے بعد پوسٹر پھاڑ کر سامنے آجائے اور سب کو حیران کردے ۔ اچھا تو یہ بھی چل رہا تھا ۔
ویسے قدرت کا انتقام دیکھیں ۔ اب ہندوستان پاکستان کے مشترکہ راز باہر بھی نکلے ہیں تو کن لوگوں کے ذریعے ؟ سابق را چیف اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی۔ وہ جو کبھی ان سیکریٹ اداروں کے سربراہ تھے اور جن کا اہم کام یہ تھا کوئی راز باہر نہ نکلے۔! 
ہزاروں سال پرانی انسانی تاریخ میں راز قوموں کے ہوں یا انسانوں کے ان پراسرار رازوں کو بھلا کون کب تک دفن رکھ سکا ہے۔اگر غور کریں تو ان پراسرار رازوں کے افشا ہونے میں ہی انسانی ترقی کا راز چھپا ہے۔!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved